عیدا لفطر کی خوشیوں کے درمیان بھی ریاست میں یکے بعد دیگرے دلدوز سڑک حا دثا ت سے رنج و غم کی پرچھائیاں بھی تواتر کے ساتھ جاری رہیں ۔ یہ ہماری اجتماعی کم نصیبی ہی نہیں بلکہ ٹریفک حکام کی نااہلی کا منہ بو لتا ثبوت بھی ہے۔ افسوس کہ ہمارے یہاں ٹریفک حادثات جس تواتر کے ساتھ پیش آ تے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے ہم روزمرہ ماردھاڑ کی طرح سڑک حادثات کو بھی معمولاتِ زندگی کا حصہ مان کر چل ر ہے ہیں۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ جاں لیوا ٹریفک حادثات پر کچھ دن لوگ کف ِافسوس ملنے کے بعد پھر انہیں بستۂ فراموشی میں ڈالتے ہیں ، پھر زیادہ سے زیادہ متاثرہ گھرانوں میں ہی غم والم اور ما تم وسینہ کوبیاں ڈیرا ڈالے رہتی ہیں۔ سڑ ک حا دثوں کے تسلسل پر ہمارے ارباب بست وکشاد بھی روایتاً اظہار تاسف پر اکتفا کر نے کے عادی بن چکے ہیں ، جب کہ ہو نا یہ چاہیے کہ ایک ایسا موثر لائحہ عمل ترتیب دیا جائے جس پر عمل درآمد کر کے روڈایکسڈنٹوں پر قابو پایا جا سکے۔ مانا کہ مو ت اور زند گی کے فیصلو ں پر کاتب ِ تقدیر کے بجزکو ئی قادر نہیں ،ہو نی کو کو ئی ٹا ل نہیں سکتا مگر بلا ناغہ سڑک حادثات کو قسمت کا لکھا سمجھ کر ٹھنڈے پیٹو ں برداشت کر نا بھی ایک مضحکہ خیز سوچ ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ بے قابو سڑ ک حا دثا ت پر عام لوگ یہ سوالات کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ٹریفک حکام خاموش تماشائی کیوں ؟یہ لوگ حادثات کے پس پردہ اسباب ومحرکات سمجھنے کی سنجیدہ کو شش کیوں نہیں کر تے؟ یہ طے کیوں نہیں کرتے کہ ایسے جگر سوزسانحات میںڈرا ئیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوؤں کی غلطیوں یا راہ گیروں کی لاپروائیوں کا کتنا عمل دخل ہے ؟ ہما را ٹریفک نظا م دل دہلانے والے حادثات کے باوجود کیونکر لکیر کا فقیر بنا ہو ا ہے ؟ بڑے بڑے عہدوں اور موٹی موٹی تنخواہیں پانے کے باوصف انہیں کیوں نہیں سوجھتا کہ وہ کونسے تیر بہدف اقداما ت ہیں جن کی مدد سے سڑک حادثات پر ممکنہ حد تک قابو پا یا جا سکے؟ یہ بات عیاں و بیا ں ہے کہ ہما رے یہاں اکثر و بیشتر غلط ڈرائیونگ اور راہ گیرو ں کی جاںگسل غلطیا ں دونوں حا دثا ت کی مو جب بنتی رہتی ہیں۔ اس کے بین بین جہاں بہتر ٹر یفک پلا ننگ کا فقدان ہو ، ٹر یفک نظام کے کمانڈ اور کنٹرول کرنے والے اہل کاروں میں احسا س ِ ذمہ داری ہی نہ ہو، علی الخصوص تیز رفتارڈرا ئیو نگ اور لائسنس کے اجرا ء میں غیر ذمہ داریوںکا عمل دخل بھی جاری ہو، نیز سڑ کوںکی تنگی کے علا وہ ٹریفک پو لیس کے بعض حصوں میں ہفتہ وصولی کی وبا جیسے اسباب و محرکات ایک جگہ جمع ہو ں تو سڑک حا دثات کا پیش آ نا کو ئی حیرا ن کن با ت نہیں۔ یہ ٹریفک سسٹم کی تباہ حالی کا ہی شاخسانہ ہے کہ اب چاروں طرف لمبے لمبے ٹر یفک جا م لگنے کی روایت بھی شہرو دیہات میں عام ہو چکی ہے۔ اس سچویشن کے پیش نظر یہ کہنا درست ہو گاکہ سری نگر جموں شا ہراہ سمیت دیگر سڑکیں شاہراہیںعوام الناس کے لئے موت کا ہو ل سیل پھندا بن چکی ہیں۔ یہ کتنی اندوہ ناک حقیقت ہے کہ جموں سر ی نگر ہائی وے پر گزشتہ پا نچ آٹھ سال سے جو خو ف ناک حا دثا ت متواتر پیش آتے رہے ہیں ،ان کو یا دکر کے آج بھی دل تھر تھرکانپ اٹھتے ہیں۔ بعینٖہ شہروں اورقصبوں کی مصرو ف سڑ کیں اور گلی کو چے ہمہ وقت بھاری بھر کم ٹریفک دبا ؤ کے زیر اثر ان ہر دو مسائل سے نبرد آ زما ہیں۔ اس کے لئے انتظامیہ کے کل پرزے بری الذمہ قرارنہیں پاسکتے۔ یہ بات بھی فہم سے بالاتر ہے کہ متعلقہ حکام ایک عوام دو ستا نہ ٹریفک پا لیسی وضع کر نے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کر تے۔ٹر یفک محکمہ کو اس پہلوسے جواب دہی کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکتا ہے کہ اس کی صفوں میں سب لوگ فرض شناس اور عوام دوست نہیں۔ بنابریں حرماں نصیبی کا عالم یہ ہے کہ بر سہا برس سے ناقص ٹریفک نظا م انسا نی جا ن و ما ل کے لئے وبالِ جان بنا چلاآرہا ہے اور یہ لوگ ہیں کہ اس صور ت حال کے سامنے بے دست وپا دکھائی دے رہے ہیں۔ بایں ہمہ اگر اس ناہنجار سلسلے کو بد لنے کی خواہش ارباب ِ حل وعقد کے دل کے کسی کو نے کھدرے میں پنہا ںہے ،تو اس کے لئے متعلقہ محکمہ کو اوپر سے نیچے تک گہری نیند سے جگا نا وقت کی اہم پکا ر ہے۔ ہاں، ایک اصلا ح طلب نظا م کو ٹھیک ٹھاک خطوط پر چلا نے کے لئے اعلیٰ تر ین سطح پر کتنی ہی جا ندا ر اور انقلابی ہدایات دی جا ئیں یا زمینی حالات کا نقشہ بد لنے کے لئے کیسی ہی معقول حکمت عملی وضع کی جائے، جب میدان عمل میں یہ ایک کاغذی کارروائی ثا بت ہو رہی ہو تو اسے صرف خیا لی جنت کہا جاسکتاہے۔ ریا ست بھر میں ٹریفک نظا م میں بہتری لانے کی نیک تمنا ؤں یا متا ثر کن کا غذی ہدا یا ت جا ری رکھنے سے با ل برابر بھی آ نے کی تو قع نہیں کی جا نی چاہیے ، اِلا یہ کہ متعلقہ حکام مسئلے کی گہرا ئیو ں اور گیرائیو ں میں اُ تر کر ٹریفک نظام میں موجودتما م نقائص اور کو تاہیو ں کا پیشہ ورانہ بنیادوں پرخا تمہ کر نے کا بیڑہ نہیں اُٹھاتے۔ اس حوالے سے یہ سادہ سی حقیقتیں سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ بر سوں سے متوا تر وہیکل پا پو لیشن میں دن دو گنی ر ا ت چو گنی اضا فہ ہو رہا ہے مگر سڑکیں اتنی تنگ ،مرمت طلب اورخستہ حا ل ہیں کہ ان پر مشکل سے ہی تا نگے دوڑیںپھر یں، مصرو ف تر ین بازاروں میں بیک وقت خو انچہ فروشو ں ، ریڑ ھے بانو ں اور دوکانداروں کا بلا پس و پیش کے قبضۂ ناجائز جماہوا ہے، ٹریفک عملہ سڑکوں شاہراؤں پر ٹریفک کی آمد و رفت میں نظم و ضبط لانے کے لئے تعداد کے اعتبا ر سے آ ٹے میں نمک کے برا بر بھی نہیں، بعض ٹر یفک اہل کاروں کودوسرے سر کاری ملازمین کی ما نند اوپری آ مدنی کا روگ لگاہوا ہے کہ اپنے اصل فرا ئض انجام ینے میں دلچسپی نہیں لیتے ،چھو ٹے چھوٹے بچوں کو سڑ کو ں اور گلی کو چو ں میں بلا لا ئسنس مو ٹر بائک چلا نے کے ہلا کت آ فرین نتا ئج دیکھنے کے با وجو د متعلقہ حکام ٹس سے مس نہیںہورہے ہیں۔ یہ چیزیں ٹریفک نظا م کے وہ پھوڑے پھنسیا ں ہیں جن کو دیکھنے کے لئے کسی دور بین کی قطعی حا جت نہیں۔ ان نقائص اور امراض کو یہاںگنانے سے یہی مدعا ہے کہ ٹر یفک نظا م میں صحت مند بد لا ؤ لانے کے ضمن میں ان تمام بیما ریو ں اور کوتاہیوں کا تسلی بخش علاج ومعالجہ کر کے سڑک حادثات پر قابو پالیاجائے ۔اگر اس اہم ضرورت کو یو نہی نظر انداز کیا جاتارہا تو مستقبل میں خدا نخواستہ خو ن کے آ نسو رُلا نے والے سڑک حادثات کا سلسلہ لاکھ رو کے بھی رُکے گا، نہ اس بلائے ناگہانی سے نجات پا نے کی کوئی سبیل ہوگی۔ یہ کام محض حکام کی فعالیت اور فرض شناسی کا متقاضی نہیں بلکہ ا س کے لئے عوامی تعاون بھی شرط ِاول ہے ۔
سڑک حا دثات
