سڑکیں ترقی کی شہ رگ

جدید دور میں سڑکوں اور شاہرائوں کو ترقی کی شہ رگ کہا جارہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک خصوصی پروگرام کے تحت مرکزی حکومت نے ملک کے تمام دیہات کوسڑکوں سے جوڑنے کا بھیڑا اٹھا رکھا ہے اور اس ضمن میں ملک کی دیگر ریاستوں سمیت جموں و کشمیر میں بھی بڑے پیمانے پر نئی سڑکیں تعمیر کی جارہی ہیں تاہم پہلے سے ہی موجود سڑکوں کا حال بے حال ہے ۔ سرینگر اور جموں شہروں کی بیشتر سڑکیں ویران ہوچکی ہیں اور معمولی بارشوں و برف باری کے بعد یہ سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں حالانکہ ہر برس سڑکوں پر میکڈم بچھایا جاتا ہے، جس پر کروڑوں روپے صرف ہوتا ہے۔ سڑکوں کی اس خستہ حالت کیلئے گوکہ غیر معیاری مٹیریل کے استعمال کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے لیکن صرف غیر معیاری مٹیریل کا استعمال ہی اکیلے اس صورتحال کیلئے ذمہ دار نہیں ہے بلکہ سڑکوں کی تعمیر کے وقت موثر منصوبہ بندی کا نہ ہونا سب سے بڑی وجہ ہے۔جموںوکشمیرمیں تعمیر و ترقی کے حوالے سے کام کررہے مختلف محکموں کے مابین کوئی تال میل نہیں ہے ۔محکمہ تعمیرات عامہ سڑک تعمیر کرلیتا ہے ،اس کے بعد آب رسانی والے پائپیں بچھانے کیلئے ایک اچھی بھلی سڑک کا حلیہ ہی بگاڑ دیتے ہیں اور اس عمل کے دوران اگر سڑک کا کچھ حصہ اکھڑنے سے بچ جاتا ہے تو وہ محکمہ بجلی،محکمہ مواصلات اور یو ای ای ڈی محکمہ کی نذر ہوجاتا ہے ۔ گزرے موسم سرما میں برفباری اور بارشوں سے گرمائی وسرمائی راجدھانیوں سرینگروجموںکی سڑکیں جس طرح ندی نالوں کا منظر پیش کررہی تھیں ،اُس نے ان محکموں کے مابین تال میل کے فقدان کو ایک بار پھر عیاں کردیا۔سیول لائنز علاقوں سے لیکر شہر کے اندرونی علاقوں کی تمام سڑکیں معمولی بارشوں کے بعد زیر آب آنے سے لوگوں کو عبور و مرور میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شہر کے نشیبی علاقوں میں تو بارشوں کا پانی سڑکوں سے ہوتے ہوتے لوگوں کے صحنوں میں داخل ہوا۔یہ حال رواں موسم گرما میں بارشوں کے بعد آج بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہی حال جموں شہر کا بھی ہے جہاں بارشیں شہر کو ایک بڑے تالاب میں تبدیل کردیتی ہیں۔یہ سب کچھ حکومت کی ناک کے نیچے ہورہا ہے مگر ہنگامی بنیادوں پر چند ڈی واٹرنگ پمپ سیٹ چالو کرنے کے علاوہ کوئی ٹھوس حکمت عملی ترتیب ہی نہیں دی جاتی ہے۔ جموںوکشمیر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی کام کرنے سے قبل ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی جاتی ہے اور بے ہنگم انداز میں ترقیاتی پروجیکٹ در دست لئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی بھی پروجیکٹ پھر کامیابی سے ہمکنار نہیںہوپاتا ہے اور بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے اس میں بار بار ترامیم کرنا پڑتی ہیں، جن کا غیر ضروری بوجھ سرکاری خزانہ پر پڑتا ہے ۔سڑکوں کی خستہ حالی کیلئے بھی مناسب منصوبہ بندی کا فقدان اصل وجہ ہے۔دونوں دارالحکومتی شہر وںمیں خال خال ہی کوئی سڑک ایسی ہے جو مناسب نکاسی نظام سے جڑی ہو، ورنہ بیشتر سڑکوں کا خدا ہی حافظ ہے ۔سرینگرشہر کی بات تو دور،لالچوک کی سڑکوں کے ساتھ کوئی معقول نکاسی نظام نہیں ہے ،نکاسی نالیاں ایسی ہیں کہ وہ چند منٹ کی بارش سے بھر جاتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا لالچوک زیر آب آجاتا ہے ۔ جب پانی سڑکوں کو اپنی لپیٹ میں لے تو سڑکوں کا خراب ہونا فطری امر ہے۔ارباب اقتدار کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ مختلف محکموں کے مابین تال میل کے فقدان کی وجہ سے راحت ملنے کی بجائے نہ صرف لوگوں کے مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے بلکہ خزانہ عامرہ کوبھی کروڑوں روپے کا چونا لگ جاتا ہے۔ شہروں کو جازب نظر بنانے اور ترقی کی رفتار میں تیزی لانے کیلئے معیاری سڑکوں کا ہونا ضروری ہے اور معیاری سڑکیں بہتر اور فعال منصوبہ بندی کے بغیر نہیں بن سکتیں ۔وقت کا تقاضا ہے کہ سڑکوں پر بھی نظر کرم ہواور ایسا جامع منصوبہ مرتب دیا جائے کہ مرحلہ وار طریقہ پر ترجیح کے لحاظ سے شہروںودیہات کی تمام سڑکوں کو نکاسی نظام سے جوڑاجائے ،جس سے نہ صرف لوگوں کو راحت نصیب ہوگی بلکہ خزانہ عامرہ پر بھی غیر ضروری بوجھ نہیں پڑے گا۔ فی الوقت وادی کشمیر میں سڑکوں پر میکڈم بچھانے کا کام سُرعت کے ساتھ جاری ہے مگر انتظامیہ کو اس بات پر نظر رکھنی چاہئے کہ کیا یہ عمل تکنیکی اصول و ضوابط کے مطابق ہو رہا ہے کہ نہیں۔ کیونکہ ماضی میں یہ دیکھنے کو ملتا رہا ہے موسم سرما شروع ہوتے ہی سڑکوں سے میکڈم اُکھڑ نے کا عمل شروع ہوتا ہے اور پھر سڑک روابط کا خُدا ہی حافظ ہوتا ہے۔
 
 
اعلیٰ تعلیم ۔ زمین بوس عمارتوں میں ممکن نہیں
 
لمحۂ فکریہ
 
عبدالعلیم اعوان، سرنکوٹ
 
کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی علوم و فنون پر ہی محیط ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر ملک میں آئے روز نت نئے تجربات کرکے اپنی قوم کو متعدد علوم سے روبرو کراتے ہیں۔ بغیر تعلیم کے کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی ممکن نہیں ہے۔تعلیم حاصل کرنے کے لئے کسی ادراے کا ہونا لازمی ہے ادراے کے ا ندر طلباء کے لئے بنیادی سہولیات کا بھی ہونا انتہائی لازمی ہے۔لیکن اس ترقی یافتہ دور میں تعلیم حاصل کرنا کتنا ناگزیر ہو چکا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ آج کے اس ڈیجیٹل دور میں جب تک ایک شخص تعلیم یافتہ نہ ہوگا تب تک وہ زندگی کے شب و روز آسانی سے نہیں گزار سکتا۔مگر وطن عزیز ہندوستان میں جہاں ایک طرف بہتر تعلیم کے وعدے کئے جاتے ہیں وہیں دوسری طرف زمینی سطح پر بچے آج بھی کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
جموں کشمیر کا ضلع پونچھ ہندوستان کے بالکل ایک کونے پر واقع ہے۔ یہ سرحدی علاقہ جس قدر تعلیم کا محتاج ہے اور جس قدر یہاں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اس کی مثال یہاں کی بوسیدہ عمارتیں ہیں۔ آج جہاں بھی تعلیمی اداروں کی خستہ خالی کی وجہ سے یہاں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے میں شدید مشکلات ما سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ضلع پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ کے گاؤں ہاڑی کے اندر قائم متعدد اسکولوں کی عمارتیں خستہ حالی کا شکار ہیں۔ موسم جب اپنی کروٹ بدلتا ہے تو کبھی بارش اور کبھی دھوپ ہوتی ہے اور ایسے موسم میں عمارت کے بناء بیٹھنا مشکل ہوتا ہے۔ اسکول کی عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔جب بھی یہاں کی عوام نے اپنے مطالبات کو اعلی حکام تک پہنچانے کی کوشش کی،تو انہیں ناکامی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آسکا۔ وہیں انتخابات کا دور دورہ شروع ہوتے ہی سیاسی رہنما غریب عوام کو سبز باغ دکھانا شروع کرتے ہیں لیکن انتخابات ختم ہوتے ہی عوام کے ساتھ کئے گئے وعدے کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں۔ انوارالحق ایک مقامی باشندہ کا کہنا ہے کہ ’جہاں علاقہ ہاڑی کے متعدد اسکولوں کی خستہ حالت ہے وہیں ہاڑی لوہر پنچایت کے وارڈ نمبر تین محلہ عثمانی والا کے اندر موجود پرائمری اسکول عثمانی والا کی عمارت گذشتہ سات سالوں سے بلکل منہدم ہو چکی ہے۔
ا ن کے مطابق سال 2000 میں یہ اسکول پرائمری اسکول عثمانی والا کے نام سے محلہ عثمانی والا میں شروع کیا گیا تھا اور سال 2006 میں اسکول کی عمارت کا کام شروع ہوا تھا اور اسی سال مکمل ہو گئی تھی۔ لیکن چند سال گزرنے کے بعد اسکول کی عمارت اچانک زمین بوس ہوگئی۔اسکول کی عمارت گرنے کے بعد محکمہ تعلیم کے اعلٰی آفیسران کو اطلاع دی گی جس کے بعد زونل ایجوکیشن آفیسر موقع پر گئے اور سال 2013 میں طلباء کو دوسرے اسکول میں جانے کا حکم دیا اور اس وقت سے لیکر اب تک طلباء پرائمری  اسکول محلہ اعوانا میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پرائمری اسکول اعوانا میں طلباء کی ذیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے طلباء معیاری تعلیم سے فیضیاب نہیں ہوسکتے۔ اور دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ طلباء کی وردی کبھی دھول اور کبھی کیچڑر سے خراب ہوتی ہے۔اس کے علاوہ طلباء کواس اسکول جانے میں ایک ڈیڑھ کلو میٹر سے ذیادہ کاسفر طہ کرنا پڑتا ہے جس سے کم عمر طلباء اور انکے والدین بہت پریشان ہوتے ہیں۔ لیکن محکمہ تعلیم کے اعلی آفیسران خواب غفلت میں سو چکے ہیں اور اسکول کی عمارت کی طرف ان کا کوئی دھیاں نہیں ہے۔ کئی مرتبہ مقامی لوگوں کی جانب سے محکمہ تعلیم کے اعلی حکام تک یہ بات پہنچائی گئی مگر محکمہ کے اعلی آفیسران کے کانوں تک ان غریبوں کی آواز نہیں پہنچ سکی۔
اسکول ہذا کے ہیڈ ماسٹر محمد رفیق نے بھی اس بات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے طلباء کے مستقبل کو لے کر تشویش ظاہر کی۔انہوں نے کہا کہ کئی مرتبہ اسکول کی عمارت کو لے کر متعلقہ محکمہ سے رابطہ کیا گیا مگر تاحال کوئی بھی کام نہ ہو سکا۔اسی گاؤ ں کے ایک اور باشندہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ ہمارے بچوں کو بہتر اور معیاری تعلیم نہ مل سکی۔ انہوں نے محکمہ تعلیم کے آفسران سے اپیل کی کہ اس عمارت کی فوری طور پر مرمت کی جائے تاکہ وہاں کے بچے بہتر تعلیم حاصل کر سکیں۔ گاؤں کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان محمد نظیرنے دکھ کا اظہارکرتے ہوئے اس کے لئے محکمہ تعلیم پر لاپروائی کا الزام عائدکیا اور کہا کہ ”گاوں ہاڑی میں متعدد اسکولوں کی عمارتیں منہدم ہو چکی ہیں، جن میں پرائمری اسکول عثمانی والا کی عمارت بھی شامل ہے۔ ان میں ہمارے بچے زیر تعلیم ہیں جنہیں اسکول کی عمارت نہ ہونے کے باعث کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال میں وہ اپنی تعلیم کو باقاعدگی کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتے ہیں۔جو کہ بچوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے۔اتنا ہی نہیں اس سے صرف اسکول جانے والے طلباء ہی نہیں بلکہ ان کے والدین بھی پریشان ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ محکمہ کی جانب سے اسکولوں کے لئے بہت سے فنڈ آتے ہیں لیکن اس رقم کا صحیح استعمال نہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں ناقص تعلیمی نظام ہے۔
اس سلسلہ میں مقامی پنچ نے بھی پرائمری اسکول عثمانی والا کی عمارت کو لے کر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے محکمہ تعلیم خواب غفلت میں سویا ہوا ہے اور انہیں طلباء کے مستقبل کی کوئی فکر نہ ہے۔اسے حالات میں اعلی حکام کی توجہ نہایت ہی ضروری ہے کیوں کہ جب تک عمارت نہ ہوں گی،بچوں کے سر پر چھت نہ ہو تو بچے تعلیم کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟خاص کر ہاڑی گاؤں کے اسکولوں کی خستہ حالت دیکھ کر رونا آتا ہے۔کوئی بھی ان عمارتوں کی جانب توجہ نہیں دیتاہے۔ جبکہ حکومت کی جانب سے ہر سال کروڑوں روپے کے حساب سے فنڈ محکمہ تعلیم کے لئے مختص کئے جاتے ہیں۔ اس فنڈ کا صیح استعما ل ہونا چاہئے اور بوسیدہ اسکول کی عمارتوں کو نئے سرے سے تعمیر کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ جس میں پرائمری اسکول عثمانی والا سر فرست ہے۔
مقامی لوگوں نے محکمہ تعلیم ضلع پونچھ کی انتظامیہ اور جموں کشمیر یوٹی انتظامیہ سے اپیل کی کہ اس منہدم عمارت کے ساتھ ساتھ علاقے میں دیگر تمام منہدم شدہ اسکولی عمارتوں کی مرمتی کا کام جلد شروع کیا جائے تاکہ طلبہ بہتر طریقے سے تعلیم حاصل کرسکیں۔ کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے پہلے ہی بچوں کا کافی نقصان ہوچکا ہے۔ اگر اس عمارت کی مرمتی کا کام جلد شروع نہ کیا گیا تو ممکن ہے کہ طلباء کو مزید نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔حکومت اور محکمہ کو اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ زمین بوس عمارت میں اعلیٰ تعلیم ممکن نہیں ہو سکتی ہے۔