جب سے کوروناوائرس نے پوری دنیا سمیت اہلیانِ وادی کی نیندیں اچاٹ کر دیں،کشمیر کا گلستان ویران سا ہوچکا ہے ۔کہیں کوئی چہل پہل ہے نہ چہروںپر کوئی بشاشت ۔عجب خوف و دہشت کا عالم ہے جس نے پوری آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یہ خوف اب اس قدر ہم پر حاوی ہوچکا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے ہی دور بھاگنے لگے ہیں۔سماجی دوریوں کی اہمیت سے ہرگز مفر نہیں اور موجودہ وقت میں جب اس وائرس کا تاحال کوئی علاج نہیں نکلا ہے ،تو سماجی فاصلے بنائے رکھنا ہی عقلمندی ہے جو اس وائرس کی زنجیر توڑنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے تاہم گزشتہ کچھ روز کے دوران وادی کے یمین و یسار میں سماجی دوریاں بنائے رکھنے کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے ،وہ انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا اور اخبارات و ٹیلی ویژن کی وساطت سے مسلسل ایسی خبریں اور ویڈیوز سامنے آرہے ہیں جن میں نہ صرف ریڈزون کے مکینوں کو سڑکوںپر ٹین کی فصیلیں لگا کر بند کردیا گیاہے بلکہ تاحال اس وبائی بیماری سے محفوظ علاقوں ،محلوں اور دیہات میں بھی لوگ سڑکیں بند کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔گزشتہ روز بھی سرینگر کے نٹی پورہ علاقے کی کئی تصاویر آئیں جن میں سڑک میں گڑے کھود کر ان میں آہنی سلاخیں ڈال دی گئیں اور اس کے بعد ان سلاخوںکے ساتھ ٹین کی چادریں پیوست کردی گئیں اور یوں اس علاقے کو ہی ایک زندان خانے میں تبدیل کردیا گیا۔بسا اوقات خوفزد ہ ہونا اچھی بات ہے اور یہ خوف ہمیں احتیاط برتنے پر آمادہ کرتا ہے تاہم اس حد تک خود ساختہ یا حکومتی سطح پر خوف طاری کروانا کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔شہر سرینگر کے وہ علاقے ،جہاں کورونا وائیرس کے معاملات سامنے آئے ہیں،انہیں ریڈزون قراردیاگیاہے اور پائین و بالائی شہر کے کئی علاقے فی الوقت اس کی زد میں ہیں۔ان علاقوں میں جس طرح سڑکوں کو بند کرکے دس فٹ اونچی فصیلوں ں قائم کی گئی ہیں ،وہ کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں۔حیرانی کا عالم ہے کہ ان ریڈزونوں میں ان فصیلوں پر ضلع انتظامیہ کے پوسٹر چسپاں یا آویزاں ہیں جن میں ان علاقوںکے نام لکھ کر انہیں ریڈ زون قرار دیاگیا ہے ۔آخر سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کسی مخصوص علاقہ کی رابطہ سڑکیں ٹین کی ان اونچی دیواروں سے بند کرکے حکومت کیا ثابت کرنا چاہتی ہے ۔اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف ان بستیوں کے مکین مزید خوفزدہ ہوجاتے ہیں بلکہ اس طرح کے انتظامات ایمرجنسی عبور ومرور میں بھی مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔خدا نہ کرے ،ٹین کی ان فصیلوںکے اندر ان بستیوں میں محصور لوگوں کے گھروں میں اگر کوئی بیمار ہوجائے تو اُسے کیسے فوری طور ہسپتال پہنچایاجاسکتا ہے ؟۔یہ تو حکومتی کارروائی ہے اورجسکے لئے انتظامیہ کسی حد تک مجبور بھی ہے، حالانکہ اصولی طور پر اسکا جواز نہیں بنتا، کیونکہ ایسے علاقوں سے لوگوں کے عمومی عبور و مرور کو دیوار بندی کے بغیر بھی روکا جاسکتا ہے اور انتظامیہ کے پاس اس کے لئے بھرپور وسائل ہیں۔انتظامیہ کی اس مہم کے چلتے سماجی سطح پر ایک ایسا رجحان پیدا ہونے لگا ہے جس کے تحت ایسے علاقوں میں جو خدا کے فضل وکرم سے اس عفونت سے محفوظ ہیں ،وہاں بھی محلے والوںنے خود کو اسی طرح کی فصیلیں کھڑا کرکے قید کرکے رکھا ہے ۔گزشتہ چند روز کے دوران درگاہ حضرتبل ،نائوپورہ سرینگر اور بالائی شہر کے کئی علاقوں سے اس طرح کے مناظر سامنے آئے جہاں لوگوںنے خود ٹین کی چادریں کھڑی کرکے اپنے آپ کو محصور کردیا ہے ۔سماجی دوریاں قائم کرنا اچھی بات ہے اور اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کے محلوں میں باہر کا کوئی داخل نہ ہوجائے تویہ سوچ بھی اچھی ہے تاہم پورے محلہ کو قیدخانہ میں تبدیل کرکے خود کو قیدی بنانا یا تو نا سمجھی ہے یا پھر خوف کی انتہا ہے ۔اگر یہ ناسمجھی یا معاملہ فہمی کی کمی ہے توآگاہی مہم کے ذریعے اسے دور کیاجاسکتا ہے تاہم اگر خوف ہے تو پھر یہ صورتحال کسی بھی طور اطمینان بخش نہیںہے کیونکہ یہ خوف کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہے ۔کورونا وائرس سے لڑائی طویل ہے اور اس لڑائی میں ہمیں حوصلہ اور ہمت سے کام لینے کی ضرورت ہے لیکن اگر ہم نے خوف کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیا اور باہر سے آنے والی ہوائوں سے بھی ڈرنے لگے تو یہ کورونا وائرس سے بھی زیادہ پیچیدہ مسائل کو جنم دے سکتا ہے ۔ ویسے بھی گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران ماہرین نفسیات نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے نفسیاتی مسائل نہ صرف جنم لے چکے ہیں بلکہ یہ وائرس انسانی نفسیات کو تہہ و بالا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ان ماہرین کو خدشہ ہے کہ تنہائی کی زندگی آنے والے ایام میں ڈپریشن کا ایک خاموش طوفان لیکر آئے گی جس سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔نفسیاتی مسائل ذہنی الجھنوں و پریشانیوںکی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں لیکن جب خوف کا عنصر شامل ہو توپھر انسانی نفسیات کا نظام تقریباً مفلوج ہوکررہ جاتا ہے اور اللہ نہ کرے ،جس طرح کی حرکتیں ہم بحیثیت سماج اب کورونا کے ڈر سے کرنے لگے ہیں،وہ ایسی ہی علامات کی نشاندہی کررہا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بے شک کورونا سے بچائو کی سبیلیں کریں لیکن خوف کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں اور خوامخواہ سڑکوں کی یوں دیوار بندی کرکے نہ اپنے آپ کو قید تنہائی کا شکار بنائیںاور نہ ہی عبور ومرور کے تمام ذرائع مسدود کرکے ایمر جنسی کے حالات میں ٹلنے والے حادثات کا سبب بن جائیں۔کورونا وائرس آپ کے گھر میں داخل اُس وقت تک نہیں ہوگا جب تک آپ اس کو خود دعوت کرکے نہ لائیں۔اس لئے سڑکیں بند کرنے کی بجائے خود محدود ہوجائیں اور یہی محدود رہنا ہی محفوظ رہنے کی ضمانت ہے ۔
سڑکوں کی دیوار بندی !| بستیوں کو یوں قید خانوں میں تبدیل نہ کریں
