ہر سال حکومت ترقیاتی سرگرمیوں کے لئے کچھ اہداف طے کرتی ہے۔ ان میں ، معمول کی سرگرمیوں میں سے ایک نئی سڑکیں بنانا ، تباہ شدہ سڑکوں کی مرمت اور سڑک کی سطح کو بلیک ٹاپ کرنا ہے۔ اس سال بھی حکومت نے سڑکوں کی ایک مخصوص لمبائی کو بلیک ٹاپ کرنے کے اپنے ارادے کا اظہار کیا ہے اورویسے بھی ہماری سڑکوں پر موسم کی تاثیرکو دیکھتے ہوئے جموں و کشمیر میں ہمیشہ اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ہم نے دیکھا ہے کہ ترقی کے اس شعبے میں کام بہت سست رفتاری سے ہوا۔اگر یوں کہاجائے کہ وادیٔ کشمیر میں سڑکوں کو بلیک ٹاپ کرنا موسمی سرگرمی ہے تو بیجا نہ ہوگاکیونکہ یہ کام سردیوں کے مہینوں میں نہیں کیا جاسکتا ، جس کا مطلب ہے کہ اگر زیادہ نہیں تو تقریباً نصف سال تک ایسی کوئی سرگرمی انجام نہیں دی جاسکتی ہے۔ لہٰذا ہمارے پاس یہ کام کرنے کے لئے صرف کچھ مہینوں کا وقت ہی ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ کام کی رفتاراگر زیادہ نہیں تو کم سے کم دگنی ہونی چاہئے۔ اس کیلئے آسان راستہ یہ ہے کہ متعدد شفٹوں میں کام کیا جائے۔ کام کی رفتار کے علاوہ ترقی کے اس شعبے میں اور بھی کئی سوالات جواب طلب ہیں۔ ایک یہ کہ اُن علاقوں،جہاں اکثر وبیشتر سڑکیں زیر آب رہتی ہیں ،وہاں متبادل مواد استعمال کیوںنہیں کیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس اب خود سری نگر شہر میں اس سڑک کی مثال موجود ہے جس کو بالکل پختہ کیاگیا ہے۔ہمارے ملک ہندوستان کی کئی دیگر جگہوں اور بیرون ملک ایسی بہت سی جگہیں ہیں جہاں سڑکیں متبادل مواد سے بنی ہیں اور یہ ایک کامیاب تجربہ رہا ہے۔ اگر ایسا تجربہ باہر کامیاب رہا ہے تو کیا پوچھا جاسکتا ہے کہ جموں وکشمیر میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟۔ دو م ایسا کیوں ہے کہ ہر سال ہمیں اپنی سڑکوں کو بلیک ٹاپ کرنا پڑتا ہے۔ کیا بلیک ٹاپنگ کے لئے استعمال ہونے والے مواد کے معیار میں کوئی خرابی ہے؟۔اگر ایسا ہی ہے توقانون کے تحت ایسے لوگوںکے ساتھ سختی سے نپٹاکیوں جاتا تو اس کیلئے ذمہ ار ہوتے ہیں۔یہ کیا پوچھا جاسکتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک سال کے اندر اندر ہی سڑکوں کی حالت اتنی خستہ ہو جاتی ہے کہ کم و بیش ہر سال شہر وںکی سڑکوں کو میکڈیمائز کرنا پڑتا ہے ۔سڑکوں کی اس خستہ حالت کیلئے گوکہ غیر معیاری مٹیریل کے استعمال کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے لیکن صرف غیر معیاری مٹیریل کا استعمال ہی اکیلے اس صورتحال کیلئے ذمہ دار نہیں ہے بلکہ سڑکوں کی تعمیر کے وقت موثر منصوبہ بندی کا نہ ہونا سب سے بڑی وجہ ہے۔جموںوکشمیرمیں تعمیر و ترقی کے حوالے سے کام کررہے مختلف محکموں کے مابین کوئی تال میل نہیں ہے ۔محکمہ تعمیرات عامہ سڑک تعمیر کرلیتا ہے ،اس کے بعد آب رسانی والے پائپیں بچھانے کیلئے ایک اچھی بھلی سڑک کا حلیہ ہی بگاڑ دیتے ہیں اور اس عمل کے دوران اگر سڑک کا کچھ حصہ اکھڑنے سے بچ جاتا ہے تو وہ محکمہ بجلی،محکمہ مواصلات اور یو ای ای ڈی محکمہ کی نذر ہوجاتا ہے ۔جموںوکشمیر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی کام کرنے سے قبل ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی جاتی ہے اور بے ہنگم انداز میں ترقیاتی پروجیکٹ در دست لئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی بھی پروجیکٹ پھر کامیابی سے ہمکنار نہیںہوپاتا ہے اور بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے اس میں بار بار ترامیم کرنا پڑتی ہیں جس کا غیر ضروری بوجھ سرکاری خزانہ پر پڑتا ہے ۔سڑکوں کی خستہ حالی کیلئے بھی مناسب منصوبہ بندی کا فقدان اصل وجہ ہے۔سوئم، سردیوں کے مہینوں میں سڑکوں پر برف صاف کرنے کے دوران سڑکوں کی سطح کو بالکل نظر انداز کیاجاتا ہے اور یہ دیکھا تک نہیں جاتا ہے کہ کہیں برف ہٹانے کے دوران ہم سڑکوں کی اوپری سطح کو بھی تباہ تو نہیں کررہے ہیں۔ چوتھا ، جب بلیک ٹاپنگ ہو جاتی ہے تو پہلے سے رکھی گئی میکڈم کی سطح کواکھاڑانہیں جاتا ہے تو اس سے ہر سال سڑک کی سطح بلند ہوتی رہتی ہے۔اس کے نتیجے میں رہائشی علاقوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ علاقے کی سطح کو برقرار رکھنے کے لئے سڑک کی اوپری پرت کوپہلے کیوں نہیں ہٹایا جاسکتا ہے؟۔ارباب اقتدار کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ مختلف محکموں کے مابین تال میل کے فقدان کی وجہ سے راحت ملنے کی بجائے نہ صرف لوگوں کے مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے بلکہ خزانہ عامرہ کوبھی کروڑوں روپے کا چونا لگ جاتا ہے۔ شہروں کو جازب نظر بنانے اور ترقی کی رفتار میں تیزی لانے کیلئے معیاری سڑکوں کا ہونا ضروری ہے اور معیاری سڑکیں بہتر اور فعال منصوبہ بندی کے بغیر نہیں بن سکتیں ۔وقت کا تقاضا ہے کہ سڑکوں پر بھی نظر کرم ہواور ایسا جامع منصوبہ مرتب دیا جائے کہ مرحلہ وار طریقہ پر ترجیح کے لحاظ سے شہروںودیہات کی تمام سڑکوں کو ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت میکڈمائز کیاجائے تاکہ بار بار اکھاڑ پچھاڑ سے نجات مل سکے اور لوگوں کو بھی بار بار کی پریشانیوں سے نجات مل سکے۔