اُس کی بڑی بڑی نیلی نیلی آ نکھو ں سے آ نسوئوں کا دریا بہہ نکلا تھا۔ وہ دو نو ںہاتھو ں پر چہرہ ٹکا کر مسکرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ زندگی کے ایک چھو ٹے سے حاد ثے نے اُس کو بہت کچھ سکھا یا اور اسکی سمجھ میں یہ آیا تھا کہ کو ئی بھی خو ا ہش یو نہی پو ری نہیں ہو تی ہے۔جب تک نہ اُ س کے لئے بہت کچھ سرد وگرم سہنا پڑے ، نر م و سخت حالات کا مقابلہ کرنا پڑے، تیز و تند اور آگ کے جیسے دریا سے گذ ر نا پڑے۔ہر انسان کی زندگی میں ایک ایسا وقت ضرور آ تا ہے جب وہ اپنے مقا صد حا صل کر سکتا ہے مگر شرائط اور بہانو ں کو اپنے دِل میں جگہ دے کر وہ اُس وقت کو کھو دیتا ہے۔ حالا ت کب تک من کے مو افق ہو ں ،حا د ثا ت کب اور کیسے نمو دار ہو ں، کب وہ ان کے شکا ر ہو ں،یہ کو ئی نہیں جا نتا اور اِن بھیا نک چیز و ں کے لئے کو ئی تیا ر بھی نہیں ہو تا ہے۔ انسان مشا ہد و ں سے نہیں بلکہ تجر بو ں سے سیکھتا ہے۔ تمام تر سہو لیا ت کے با و جود ایک انسا ن کے لئے بہترین چیز وہ ہے جو ایک اچھی تربیت اور اچھی تعلیم پر مُبنی ہو تی ہے۔ لغز ش وہا ں ہو تی ہے جہاںقد م ڈگمگا تے ہیں اور انسان عدم تو جہی کا شکار ہو تا ہے۔
وہ پُھو ٹ پُھوٹ کر رو رہی تھی اور اِسی عدم تو جہی کا اُ سے بہت بڑا خمیا زہ بُھگتنا پڑاتھا۔کیو نکہ جس اذیت اور کرب سے وہ گذر رہی تھی اُس کا اندازہ اُ سے اب ہو رہا تھا۔ وہ رُوتے رُوتے ہچکیا ںلے رہی تھی اور اپنے چہر ے سے ہاتھو ں کو ہٹا کر اپنے دوپٹے سے اپنا چہر ہ پو نچھ رہی تھی تا کہ وہ گھر والوں سے آ نکھیں ملا کر بات کر سکے۔ اتنے میںاُ س کی ممی نے آواز دِی۔
’’عظمیٰ جلدی آنا۔ تمہارے بابا تمہا رے بارے میں پو چھ رہے ہیں‘‘۔
عظمیٰ نے ٹھنڈی سانس لی اور ایک لمبی ہچکی کے سا تھ اپنے ممی سے کہا۔’’آ رہی ہو ں‘‘۔
عظمیٰ بلا کی حسین تھی مگر ساتھ میں تھوڑ ا گھمنڈی بھی۔ وہ اپنی ہر ضد پوری کروانے کیلئے اپنے گھر والوں پرہمیشہ دَباؤ ڈالتی تھی۔ اکلو تی بیٹی ہو نے کا وہ بہت فائدہ اُ ٹھا تی تھی اور شرا ئط کی تکمیل کے لئے بہا نو ں سے کام لیتی تھی۔ یہ حقیقت اُ س کے والدین سے ڈ ھکی چُھپی نہیں تھی اور اُ س کے والدین بھی اِس کی اِن حر کتو ں سے بہت پر یشا ن تھے۔ وہ کا لج میں پڑھتی تھی ۔لڑ کپن کی حددو سے ابھی ابھی نکلی ہی تھی کہ اُ س کے دِل و دما غ میں بڑے بڑے خو ابو ں نے جنم لیا۔ ایک خوا ہش ابھی پور ی بھی نہیں ہوتی کہ دوسری تمنّا جاگ اُٹھتی ۔ وہ شکیل ،جو اُ س کی بواکا بیٹا تھا،کو بہت چا ہتی تھی کیو نکہ وہ ایک سا تھ کھیلتے کھیلتے کب بڑے ہو گئے تھے، اُسکا انہیں پتہ بھی نہیں چلا۔ عظمیٰ کی بوابھی اُسے بہت چا ہتی تھی۔ عظمیٰ کی جو خو ا ہش اُس کے والدین پوری نہیں کر پاتے تھے وہا ں اُس کی یہ بوا ایک دَم سے عظمیٰ کی وہ خوا ہش پو ری کردیتی تھی۔وہ گھر کی لاڈلی ہونے کا بڑا فائد ہ اُ ٹھا تی تھی۔
جو ں جو ں شکیل اور عظمیٰ جو ان ہو تے گئے والدین نے اُنہیں دور دور رکھنا مناسب سمجھا مگر وہ چُھپ چُھپ کر ملتے اور گھنٹو ں، کبھی آ منے سامنے اور کبھی مو با ئل پر، با تیں کر تے رہتے تھے۔ سا تھ سا تھ رہنے کے وعدے کرنا تو معمو لی با ت تھی،وہ ایک دوسر ے کے بغیر زندہ رہنے کا تصّو ر بھی نہیں کر پاتے تھے۔ عظمیٰ کے والدین اس خیال سے ہی بہت خو ش تھے کہ لڑکی کسی پرا ئے گھر نہیں جائے گی بلکہ اپنوں کے ساتھ رہے گی ۔اِ س با ت پر وہ کبھی کبھی اپنی قسمت پر ناز بھی کر تے تھے مگر عظمیٰ کی زند گی تب یکسر بدل گئی جب وہ ایک حا د ثے کا شکار ہو ئی اور اُ س کے چہر ے کو چو ٹ لگی۔ وہ کئی دِنو ں ہسپتال میں ایڈمٹ رہی۔آپر یشن ہو امگر چہر ے پر ایک بدّ نما داغ رہا، جس سے عظمیٰ کی ہمت ٹوٹ گئی اور اُ س کا وہ سارا غرور چکنا چور ہوا۔ وہ اپنے آ پ کو لا چار اوربے یار و مدد گار سمجھنے لگی۔ اُ س کی دُ نیا جیسے ویر ان ہو گئی اور اب اُ سے اپنا وجود بیکا ر لگنے لگا۔ مسُلسل فکر و تردد میں رہنے کی وجہ سے کالج جانا بھی بند کر دیا۔اِد ھر شکیل اعلیٰ تعلیم کے لئے گھر سے دُور بیرون ملک چلا گیا اوراِس طرح اِن دو نو ں گھرانوں میں فاصلے بڑھنے لگے اور ایک دو سر ے کے گھر آنا جا نا بھی کم ہو گیا۔
اب عظمیٰ کی بوا اپنے بھائی کے گھر تو آ تی تھی مگر اُ س تپا ک سے نہیں بلکہ بس خیر خیر یت پو چھنے کیلئے۔وہ عظمیٰ سے اب پیار کا اتنا اظہار نہیں کر تی تھی جتنا کہ پہلے کیا کر تی تھی اور ا ب اُ س کی خو اہشو ں کا بھی زیادہ خیال نہیں کر تی تھی۔ صر ف عظمیٰ کی شکل و صو ر ت دیکھ کر کسی اچھے ڈا کٹر اور پلا سٹک سر جن سے ملنے کا مشورہ دیتی تھی۔ جب کبھی عظمیٰ کے والدین شکیل کے با رے میں پو چھتے تھے تو وہ بے دِ لی سے’’ ہا ں ٹھیک ہے‘‘ جو اب دِے کے نکل جا تی تھی۔
حالا ت کی بے رُ خی نے عظمیٰ سے سب کچھ چھین لیا، رات کا آرام اور دِن کا سُکو ن یہا ں تک کہ زند گی جینے کی تمنّا تک۔ کبھی کبھی شکیل خیر خیر یت پوچھنے کے لئے ایک آ دھ فو ن کر تا تھا مگراُ س کی باتو ں میں بھی وہ پہلا جیسا جذ بہ اور ولولہ ،وہ بے چینی اور پیا ر بالکل نہیں تھاجو بچپن سے عظمیٰ محسوس کرتی آئی تھی۔ اُ س حا دثے کے بعد وہ بالکل ایک گھر یلو قسم کی لڑ کی بن گئی اوراب اپنی ممی کا گھر کے کامو ں میں ہا تھ بٹا نے لگی۔
شکیل کچھ عر صہ کے بعد پڑھائی ختم کر کے گھر واپس لوٹ آ یا تو اپنے بھا نجھے کو مبا رک با د دینے کے لئے ماما اور مامی اُ ن کے گھر گئے ۔ وہا ں اُ ن کی کو ئی خا ص آ ؤ بھگت نہیں ہو ئی اور شکیل بھی رسمی دُ عا سلام کے بعد کسی کام کا بہا نہ بناکر گھر سے باہر نکل گیا۔
عظمیٰ کے والد ین نے شکیل اور اُس کے والدین کواپنے گھر آ نے کی دعو ت دِی مگر شکیل کی ماّں نے ان کی بات مکمل ہو نے سے پہلے ہی یہ کہہ کر دعوت ٹھکرا دی کہ ’’نہیں نہیں۔ شکیل کو اتنی فرصت کیاں ہے۔وہ تو ابھی ابھی پڑھا ئی ختم کر کے گھر واپس لو ٹا ہے۔اپنے اّبو کے کام کاج میں کل ہی سے لگا ہے۔ دعو تو ں پر جائے گا تو کام میں کب دھیا ن دِے گا؟ ‘‘۔ جواب سن کر عظمیٰ کے والدین ایک دو سر ے کا مُنہ تکتے رہ گئے۔ پھر بھا ئی نے دل پر پتھر رکھکر بہن سے عظمیٰ اور شکیل کی شا دی کے بارے میں پو چھا تو بہن نے صاف انکار کر تے ہوئے جواب دیا ’’بھائی جان ابھی شکیل تو کو ئی ایسا کام کاج کر تا نہیں ہے۔ ابھی اُ سے اپنے پا ؤ ں پر کھڑا ہو نے میں تھو ڑا ٹائم لگے گا۔ ہاں اپنے ابو کے بزنس میں اُ س کا ہا تھ بٹا نے لگا ہے مگر اُ س کو سمجھنے میں بھی تھو ڑا وقت تو لگے گا ہی ۔ شا دی کے لئے ہم نے ابھی سو چابھی نہیں ہے۔ آ پ عظمیٰ کے لئے کو ئی اچھا سا لڑکا ڈھو نڈ لیجئے گا‘‘۔
عظمیٰ کے والدین پر جیسے پہا ڑ ٹوٹ پڑا۔ اُنکی برسہا برس کی اُمیدوں پر اُوس پڑ گئی اور انہوں نے وہا ں سے نکلنا ہی منا سب سمجھا۔ اب جبکہ سب کچھ اِن کے سامنے آ گیا تھا تو بیکا ر کی بحث سے کیا ملتا۔ ایک دِن شکیل بھی دنیا داری نبھانے کے لئے ماموں کے گھر گیا۔اُ س نے بھی عظمیٰ سے اپنے با رے میں کو ئی بات نہیں کی۔ پہلے تو یہ سب کچھ عظمیٰ کے اّبو کو کچھ عجیب سا لگا کیو نکہ ایک لمحے کے لئے بھی اُ س نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اُ س کی اپنی بہن کچھ ایسا کر ے گی۔
ر شتے میں یہ خبر آ گ کی طر ح پھیل گئی کہ شکیل کے والدین اب عظمیٰ سے شکیل کی شا دی کے لئے تیار نہیں تو اُ نہو ں نے بھی اِن پر اُنگلیا ں اُ ٹھا ئیں، با تیں بنانا اور طعنے کسنا شروع کئے ۔یہا ں تک کہ آپسی ناراضگی میں کچھ رشتے داروں نے نا طے بھی تو ڑ ڈالے اور اتنا بھی کہا کہ عظمیٰ کے ساتھ جو حادثہ ہو ا اگر وہ شادی کے بعد ہو تا تو کیا شکیل اُ سے اپنی زند گی سے ہی الگ کردیتا یا اُ س کی بوا اِ س طر ح سے اِن کے سا تھ پیش آتی۔ یا پھر اگر یہ حا دثہ شکیل کے سا تھ پیش ہو تا تو کیا عظمیٰ کے گھر والے ایسا کر تے۔ ایسی بہت کہا سُنی کے بعد شکیل اور اُ س کے گھر والو ں کی سمجھ میں آیا کہ وہ غلطی پر ہیںکیو نکہ حقیقت سے نظر یں چُر ا نا کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا اوراپنے قریبی رشتہ دارو ں سے ناطہ توڑناذلت سے کچھ کم نہیں۔ اس صورتحال نے شکیل کو کچھ سوچنے پر مجبور کیا یا پھر شا ید شکیل کے دِل کے کسی گو شے میں عظمیٰ کے تئیں پیار کی کچھ رمق باقی تھی کہ آج کئی برسوں کے بعد عظمیٰ کی وہ پہلی والی صو رت اُسے اپنے دِل میں دِکھائی دِینے لگی۔ وہ نیلی نیلی آنکھیں، گول مٹول چہر ہ، کھلی کھلی رنگت، پُر کشش بدن، منا سب قدو قا مت ، ہر دِلعز یز بچپنا، وہ خو بصو رت شرا رتیں اور گھنٹو ں ایک دو سرے سے پیا ر کی باتیں کر نا۔ وہ قسمیں ، وہ وعدے، اس کی یادوں کے جھروکے سے دھند آہستہ آہستہ چھٹنے لگی تھی۔مگر اپنی ماّں کی خاطر اپنے جذ بات پر قا بو رکھے ہو ا تھا۔ اِدھرعظمیٰ کو بھی شکیل کے گھر والو ں کی یہ بے رُخی اور اپنی بوا کا رویہ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
عظمیٰ کو اورو ں سے نہیں بلکہ خود سے ہی شکا یت تھی۔اُ س حا د ثے کے بعد، جس نے عظمیٰ کی دُنیا ہی بدل دِی، وہ خود بھی با لکل بدل گئی تھی۔ اِس لئے وہ ہر وقت پر یشان رہنے کے با وجو د اللہ کا شکر کرتی تھی ،جس سے اُسے کسی قدر رُ و حا نی سکو ن مل جا تا تھا مگر کسی کے آ گے مُنہ کھو لنے کی ہمت نہیں کرپا تی تھی۔ اِس نر می اور سعادت مندی کی اب یہ حد تھی کہ وہ گھر کے ہر فرد کے سا منے سر جھکا کر بات کر تی تھی کیو نکہ اُس کے ذہن میں اپنے چہر ے پر لگا زخم ہر وقت تا زہ رہتا تھا۔ وہ سو چتی تھی کہ اُ س کی تمنّا ؤ ں کی دُ نیا اُجڑ چکی ہے اور ارما نو ں کا خون ہو چکا ہے مگر اُ س کے صبر اور ندا مت نے اُس کی جھو لی خوشیو ں سے بھر دِی جب عظمیٰ کی ماّں نے پھر ایک بار عظمیٰ کو آ واز دِی۔
’ ’ بیٹی جلد ی آ ناتمہا رے اّبو تمہا رے لئے پو چھ رہے ہیں‘‘۔ عظمیٰ جلدی جلد ی اپنے چہر ے سے آنسو ؤں کو پو نچھ کر آ ئی تو دیکھا کہ بوااور شکیل بھی ابو امی کے ساتھ چائے پی رہے ہیں۔ عظمیٰ کی بواعظمیٰ کو دیکھ کرایک دَم اُ ٹھ کھڑی ہو ئی اور عظمیٰ سے بغلگیرہو گئی۔ اس کی بلا ئیں لینے لگی اور انگو ٹھی پہنا کر ہمیشہ کے لئے اپنے بھیا بھا بھی سے ما نگ لیا۔ یہ دیکھ کر عظمیٰ کے امی ابو دنگ رہ گئے اور عظمیٰ کی آنکھوں سے آ نسو چشمہ بن کر اُبل پڑے کیو نکہ اُس نے اپنے سپنو ں کے سودا گر کو سامنے دیکھا۔ وہ مُسکر ائی اور پھرکچھ عجیب اور الگ ہی پیار بھر ی نظر و ں سے شکیل کو دیکھا جو اُ س کے وجود کی تکمیل اور ٹھو س اُ منگو ں کا سہا را تھا۔
رابطہ، سرینگر،موبائل نمبر؛9906508662