اسد مرزا
سویڈن کی نائب وزیر اعظم ایبا بوش(Ebba Busch) کے تبصرے سویڈن میں حماس کے حامیوں کی طرف سے جشن کے بعد سامنے آئے ہیں۔ اس تقریب نے اس بات کو واضح کیا کہ کس طرح سویڈن میں مختلف ثقافتیں ایک ساتھ رہ سکتی ہیں لیکن سویڈن کے زیادہ تر باشندے ملک میں کثیر الثقافتی کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔ کچھ لوگ بش سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تارکین وطن کو اپنے نئے ملک کی اقدار کی پیروی کرنی چاہیے۔دوسروں کا خیال ہے کہ ایسے مطالبات غیر منصفانہ ہیں اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کا باعث بن سکتے ہیں۔ بوش کا کہنا تھا:’’میں چاہتی ہوں کہ مسلمان لڑکیاں اور لڑکے یہ محسوس کریں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔‘‘ انھوں نے یہ پیغام اپنی تقریر میں کئی بار دہرایا اور سویڈن میں نوجوان مسلمانوں کے لیے اپنی تشویش ظاہر کی۔ تاہم،انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسلام کو سویڈش اقدار کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے اور ملک میں شرعی قانون کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان کے تبصروں کو بہت سے لوگوں نے متنازعہ قرار دیاہے۔دریں اثنا، 31 اگست 2024 کو، پی ایم مودی کی اقتصادی مشاورتی کونسل (PM-EAC) کے رکن سنجیو سانیال نے سویڈن میں قائم آزاد تحقیقی ادارے ورائٹیز آف ڈیموکریسی (V-Dem) پر تنقید کی۔بظاہر، سانیال کی تنقید سویڈن کی نائب وزیر اعظم ایبا بش کے ایک بیان سے شروع ہوئی۔
اپنے آفیشل ایکس اکاؤنٹ پر ایک دلچسپ پوسٹ کے ذریعے، سانیال نے V-Dem کو ٹیگ کیا اور سوال کیا،’’یہ جاننے میں دلچسپی ہو گی کہ کیا @vdeminstitute کا سپر کمپیوٹر اپنے ملک کی نائب وزیر اعظم کے ان بیانات کے لیے پوائنٹس کا اضافہ یا کٹوتی کرتا ہے۔‘‘ سانیال کا دعویٰ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے یا اسے تنہا چھوڑنے کے بجائے، انسٹی ٹیوٹ نے سنجیو سانیال کی تنقید پر مشتعل ہوکر انھیں بلاک کرنے کا انتخاب کیا۔تاہم، ہمیں یہاں یہ واضح کرنا ہوگا کہ سانیال کا ٹویٹ اسلام کے حق میں نہیں تھا، یا سویڈن کے نائب وزیر اعظم کی مذمت میں نہیں تھا، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہV-Dem کی ایک حالیہ رپورٹ سے متاثر ہے جس میں ہندوستان کی بگڑتی ہوئی جمہوری روایات پر تنقید کی گئی تھی۔
اس کے بعد کی ایک پوسٹ میں، سنجیو سانیال نے انکشاف کیا کہ V-Dem انسٹی ٹیوٹ نے انہیں بلاک کر دیا تھا، اور اس نے کارروائی کی تصدیق کے لیے ایک اسکرین شاٹ بھی شامل کیا۔ سنجیو نے طنز کیا، “تو، @vdeminstitute نے اب مجھے بلاک کر دیا ہے!! آزادی اور مکالمے کے لیے بہت کچھ۔ یہ اس کے بعد جب میں نے ان سے ان کے آبائی ملک کے بارے میں ایک عام فہم سوال پوچھا۔
V-Dem کے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر خودمختار حکومتوں کو اس کی تحقیق اور ان کی خصوصیات کے ذریعے کس طرح سمجھا جاسکتا ہے، جسے کہ The Regimes of World (RoW) ۔ یہ فریم ورک مختلف ممالک کے سیاسی نظاموں کو چار اقسام میں تقسیم کرتا ہے: مکمل طور پر آمریت،انتخابی آمریت، انتخابی جمہوریتیں، اور لبرل جمہوریتیں،جو کہ V-Dem کے جمہوریت کی بنیادی خصوصیات ہیں۔
اس سال کے شروع میں، ورائٹیز آف ڈیموکریسی (V-Dem) انسٹی ٹیوٹ نے حالیہ دنوں میں ہندوستان کو عالمی سطح پر “بدترین آمریت پسندوں” میں سے ایک قرار دیتے ہوئے ایک رپورٹ جاری کی تھی۔ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، ہندوستان 2023 میں ایک ’’انتخابی آمریت‘‘ کے طور پر درجہ بند کیا گیا۔ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی تھی کہ ہندوستان سمیت 42 ممالک آمریت کی طرف رجحان کا سامنا کر رہے ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ نے نوٹ کیا کہ ہندوستان، دنیا کی 18 فیصد آبادی کا گھر ہے، خود مختار ممالک میں رہنے والے تقریباً نصف لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت نے اختلاف رائے کو دبانے کے لیے بغاوت، ہتک عزت اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کا استعمال کیا جارہا ہے۔اس لیے بنیادی طور پر اس واقعے کے دو رخ ہیں، پہلا سویڈن حکام کا مسلمانوں کی سویڈن منتقلی میں اضافے پر ردعمل اور دوسرا، ہندوستان میں اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے حالیہ عرصے میں ہندوستان کا بگڑتا ہوا ریکارڈ۔دونوں واقعات میں مشترکہ عنصرمسلمان ہیں۔ جنہیں دونوں ممالک میں اقلیت کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ اور دونوں صورتوں میں متعلقہ حکومتوں کو اپنے ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ زیادہ غیرجانبدارانہ اور غیر جارحانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے، موجودہ بحث نے سویڈن کی امیگریشن پالیسیوں کو بھی اپنی زد میں لے لیا ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ بہتر انضمام کو یقینی بنانے کے لیے سخت قوانین کی ضرورت ہے۔ دوسروں کا خیال ہے کہ سویڈن کو تمام ثقافتوں کے لیے کھلا اور خوش آئند رہنا چاہیے۔ اس واقعہ نے کثیر الثقافتی معاشرے کو برقرار رکھنے کے چیلنجوں کو اجاگر کیا ہے۔ یہ اہم سوالات اٹھاتا ہے کہ ثقافتی تنوع کو قومی اقدار کے ساتھ کیسے متوازن کیا جائے۔اس بحث کا نتیجہ سویڈن کی مستقبل کی امیگریشن پالیسیوں کو تشکیل دے سکتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ سویڈن میں ثقافتی انضمام کے بارے میں بحث ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ دونوں طرف سے ردِعمل ظاہر ہورہے ہیں کہ یہ مسئلہ کتنا پیچیدہ اور حساس ہے۔
درحقیقت، مسئلہ پیچیدہ نہیں ہے، اگر ہم زیادہ جامع اور روادار معاشرے کی تعمیر کے زاویے سے اسے دیکھیں۔ بظاہر، سویڈن کی سڑکوں پر مسلمانوں، یا ٹوپیوں یا پگڑی والے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے اسلام اور اس کے پیروکاروں سے ایک بے جا خوف بھی پایا جاتا ہے۔بجائے ان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے انہیں ناپسندیدہ، بے دخل غیر یورپیوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو کئی متنازعہ مسائل پر اپنے نقطہ نظر میں سویڈش نہیں ہو سکتے۔ٹھیک ہے، لیکن کم از کم ایک منتخب حکومت کے منتخب نمائندے کو مسلمانوں کے بارے میں اپنی سمجھ اور ادراک بڑھانے کے لیے زیادہ وقت دینا چاہیے تھا۔ کیونکہ اس طرح کے اسلامو فوبک بیانات کی وجہ سے، دائیں بازو کے عناصر زیادہ تر اسکینڈینیوین اور یورپی ممالک میں عروج پر ہیں، جو ان ممالک میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے اچھا نہیں ہے۔دوم، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے، بظاہر سانیال کے ٹویٹس وی ڈیم کی رپورٹ کے جواب میں تھے جس میں ہندوستان کو ’’انتخابی آمریت‘‘ اور آمریت بننے کی طرف تیزی سے دوڑتے ہوئے بیان کیا گیا تھا۔اس سلسلے میں، شاید انسٹی ٹیوٹ نے ملک کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت یعنی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور نفرت انگیز جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد پر اپنے
مشاہدات کی بنیاد رکھی۔ جس کی توثیق قائد حزب اختلاف (ایل او پی) راہل گاندھی نے یکم ستمبر 2024 کو ایک بیان میں دی، جب انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ ہجومی تشدد میں ملوث شرپسندوں کو ملک کی مذہبی اقلیتوں یعنی کہ مسلمان اور عیسائی پر حملہ کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے رہی ہے جس سے کہ ملک کا ماحول بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔
راہل گاندھی نے کہا، ’’ان شرپسندوں کو بی جے پی حکومت سے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے، اسی لیے انہیں ایسا کرنے کی ہمت ملی ہے۔‘‘ کانگریس ایم پی نے مزید کہا کہ ’’اقلیتوں پر خاص طور پر مسلمانوں پر حملے جاری ہیں اور حکومتی مشینری خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہی ہے۔‘‘ راہل گاندھی کی مودی سرکار کی مذمت ہریانہ میں ایک مسلم شخص کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے اور مہاراشٹر کے ناسک کے قریب ایک بوڑھے مسلمان شخص کو ٹرین میں مار پیٹ اور بدسلوکی کے بعد سامنے آئی ہے۔دونوں صورتوں میں سنجیدہ رویہ، کثیر ثقافتی، بقائے باہمی اور رواداری کے اصولوں سے کسی نہ کسی طرح جڑا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں ان کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور انتہائی دائیں بازو کے اسلامو فوبک جذبات کو ہر جگہ سیاسی بحث سے نکالنے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ ایک بار پھر دنیا کو تیسری جنگ یا شاید آخری قیامت تک لے جاسکتی ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)
���������������������������