سوچ کی تاریکی نقصان دہ

 انسانی ذہن پر ہر لمحہ سوچوں کا بہت زیادہ غلبہ رہتا ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ انسان کی زندگی کا ہرزاویہ اس کی ذہنی سوچ سے ہی جنم لیتا ہے۔ اسی سوچ و فکر سے انسانی جذبات کی پرداخت ہوتی ہے اوران جذبات کی بنیاد پر ہی انسان کا ہر عمل ہمارے سامنے آتا ہے۔ذہن کا زاویۂ فکر دو قسم کا ہوتا ہے ، ایک منفی اور دوسرا مثبت۔ مثبت سوچ ہمیشہ انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ منفی سوچ ناکامی اور نامرادی کی طرف دھکیلتی ہے اور زندگی کی چمک دمک کو تاریکی کی سیاہیوں میں بدل دیتی ہے۔ یہ سب صرف سوچوں کا ہی کھیل دکھائی دیتا ہے۔
منفی سوچ کی تاریکی کا مطلب منفی سوچ اور تنگ نظری
 بے شک سوچ کی تاریکی، رات کی تاریکی سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ رات کی تاریکی میں ا نسان سہارا لے کر،بیٹھ کر،سرک کر آگے بڑھ ہی جاتا ہے مگر منفی سوچ کے ساتھ کسی بھی طرح آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ تاریک سوچ وہ اَن دیکھی پاؤں کی بیڑیاں ہیں جو کامیابی کے راستے پر جانے سے روکے روکتی ہیں۔ مشکل حالات بدلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ منفی سوچ ہی ہے۔منفی سوچ کی رات سے باہر نکلنا ہے تو ہمیں اپنے ذہن میں مثبت سوچ کے سورج کو طلوع کرنا پڑے گا۔
یاد رہے کہ سوچ ایک مقناطیس کی طرح ہے۔ اچھی سوچ، اچھے نتائج کو اور بری سوچ برے نتائج کو کھینچ لیتی ہے۔ بناسوچے سمجھے کوئی لفظ اپنی زبان سے نہ نکالیں کیونکہ ہمارے منہ سے نکلا کوئی ایک بُرا لفظ پورے گھر کو آگ لگا سکتا ہے۔
ا س سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انساان کی سوچ کتنی اہم ہوتی ہے ۔اسی طرح ہمارے منہ سے نکلا کوئی ایک اچھا لفظ نجانے کتنے لوگوں کو ہمارا گرویدہ کرسکتا ہے۔کسی کے منہ سے نکلے ہوئے دو خوبصورت الفاظ جو اس نے ہمارے لئے کہے ہوں،ہمیں ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔یہ ہماری سوچ کا شاہکار ہوتے ہیں۔ یادیں دھندلا جاتی ہیں ،تفاصیل مٹ جاتی ہیں، جذبات بھی زندگی کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتے ہیں لیکن خوبصورت الفاظ ہمیشہ یاد رہ جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگرہم نے اپنی سوچ بدلنے کا فن سیکھ لیا تو گویا ہم نے اپنی دنیا بدلنے کا فن بھی سیکھ لیاہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ مثبت سوچ کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے ۔ہم جیسا سوچتے ہیں، ہماری شخصیت بھی ویسی ہی ہوجاتی ہے۔
عرب میں جہالت کا ماحول تھا، ہر طرف گمراہی اور منفی سوچ کا دور دورہ تھا، مگر نبی پاک صلیﷲعلیہ وسلم نے اسلام کی مثبت سوچ لاکر پورے ماحول کو بدل دیا ۔جس ماحول میں منفی سوچ کی وجہ سے بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا، اُس ماحول کو مثبت سوچ دے کر بیٹیوں کو گھر کا ایک اہم اور با عزت فرد بنایا۔جہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے ہوکر طویل جنگوں کی شکل اختیار کرلیتے تھے وہاں درگزر کی مثبت سوچ کو پروان چڑھایا، جس سے اخوت و محبت کی فضاء پھیلی ۔جہاں منفی سوچ کی وجہ سے عورت کو انتہائی کمتر سمجھا جاتا تھا وہاں مثبت سوچ کی تعلیم سے عورت کو ایک اہم مقام معاشرے میں عطا کیا،ان کے حقوق مقرر کیے۔جہاں منفی سوچ میں مقید ہوکر ذات پات کو بہانہ بناکر کسی انسان کو حقیر اور کسی کو اعلی سمجھا جاتا تھا وہاں مثبت سوچ کی تعلیم دے کر تمام انسانوں کو مساوات اور برابری کا درس دیا۔ان تمام مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ روشن خیال سوچ ماحول پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔
مثبت سوچ،ماضی،حال اور مستقبل کی امین ہوتی ہے۔ انسانی سوچ اور افکار و خیالات ہی انسان کی کامیابی کا زینہ ہوتے ہیں، مثبت سوچ انسانی فلاح کو مہمیز کرتی ہے ، ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہے۔ منفی سوچ انسان کو سوچ کی تاریک اور اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنا شروع کرتی ہے۔ لہٰذا جتنا ہوسکے ، مثبت سوچ اپنائیں اور منفی سوچ سے چھٹکارا حاصل کریں ، کوشش کریں کہ منفی سوچ سے کوئی نہ کوئی مثبت پہلو نکالیں ، یہ مثبت پہلو ایک معمولی سے تنکے کی مانند ہوتا ہے جس سے ڈوبتے کو سہارا ملتا ہے۔
مثبت اور منفی سوچ کو اگر ہم اپنے معاشرتی پہلو پر دیکھیں تو ہمیں منفی سوچ کے اثرات زیادہ دکھائی دیں گے، جس کا خمیازہ معاشرے میں مختلف پہلو میں بھگت رے ہوتےہیں،
اس سب کے پیچھے صرف اور صرف منفی سوچ ہے۔اس لئے قبل اس کے ہم بہت کچھ کھو دیں،ہمیں اپنی سوچ کو مثبت سوچ میں بدلناہو گا، جس سے ہمارے مثبت معاشرتی پہلو اُجاگر ہوں گے۔