طارق شبنم
بستی سے بہت دور نکل کر جب میں ایک گھنے جنگل تک پہنچ گیا توجنگل میں ایک جگہ میںنے صاف و شفاف نیلے پانی کی ایک خوب صورت جھیل دیکھی ۔ پانی دیکھ کر میں خوش ہوا اورجھیل کے میٹھے پانی سے اپنی پیاس بجھائی ‘ہاتھ مُنہ دھوکر اوپر والے کی بارگاہ میں گڑ گڑاتے ہوئے اپنے دل کی مراد پوری ہونے کی دعا مانگی۔ ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگائے سستانے بیٹھ گیا اورسوکھی روٹی کھا کرپیٹ کی آگ بجھا ئی۔
’’یہ کیسی زندگی ہے؟ جہاں لوگ اپنے ہی گھروں میںقید ہو کر رہ گئے ہیں، جہاں انسان کو انسان سے ہی ڈر لگے ،جہاں کوئی کسی کے گھر نہ جا سکے ،کسی سے مل نہ سکے اور کسی کے دکھ سکھ میں شامل نہ ہو سکے یہاں تک کہ اوپر والے کے گھر میں جا کر عبادت بھی نہ کر سکے ۔ آخرخوف ،ڈر ،مار دھاڑاور بے بسی کی اس آگ سے انسانوں کو کب اور کیسے خلاصی نصیب ہوگی؟ ‘‘
’’چھپاک ۔۔۔۔۔۔ چھپاک ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
میں پریشان سوچوں کی بھول بھلیوں میں کھویا ہواتھا تو دفعتاًاس خاموش جھیل میں چھپاک کی زور دار آواز سے طلاطم برپا ہو گیا اور میں سوچوں کے خول سے باہر آکر جھیل کی طرف دیکھنے لگا ۔چند لمحے بعد جھیل خاموش ہو گئی اور جھیل کے کنارے خوب صورت لباس میں ملبوس ایک با وقار حسینہ،جس کے چہرے پر شبنم کی سی تازگی اور ستاروں کی سی چمک تھی، کھڑی تھی ۔ارد گرد کا جائیزہ لینے کے بعد وہ حسینہ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتے میری طرف بڑھنے لگی جس کے ساتھ ہی چارجانب عطر کی خوشبو پھیل گئی۔یہ منظر دیکھتے ہوئے گھبراہٹ کے عالم میں میرے ذہن میں کئی طرح کے سوالات جنم لینے لگے۔۔۔۔۔۔
’’ اے خدا کے بندے ۔۔۔۔۔۔ یہاں اس خوفناک جنگل میں کیا کر رہے ہو ؟‘‘
اسی لمحہ شہد سے بھی میٹھی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی ۔
’’میں ۔۔۔ میں۔۔۔ایک مسافر ہوں اور یہاں کچھ دیر آرام کرنے بیٹھا ہوں‘‘ ۔
میں نے ہمت جٹا کے ڈرتے ڈرتے کہا۔
’’تمہاری منزل کہاں ہے ؟‘‘
’’میری منزل۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔‘‘۔
اس کے سوال کا مجھ سے کوئی جواب نہیں بن پایا اور میری گھبراہٹ میں اضافہ ہو گیا ۔
’’گھبرائو نہیں اے آدم زاد ۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائوں گی‘‘۔
اس نے انتہائی شفقت بھرے لہجے میں کہا تو میری گھبراہٹ کسی حد تک دور ہوگئی ،میں نے اسے تفصیل سے اپنے حالات اور منزل کے بارے میں بتایا ۔
’’اوووہ۔۔۔۔۔۔’’ کل یگ‘‘ کے آدم زاد کی پریشانیوں سے میں اچھی طرح واقف ہوں ،لیکن۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’لیکن کیا محترمہ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ٹھیک ہے ،میں تمہیں ایک ایسی دنیا میں پہنچا سکتی ہوں جہاں کوئی پریشانی نہیں ہوگی اور سکون ہی سکون ہوگا ،لیکن بدلے میں تمہیں میرا ایک کام کرنا ہوگا‘‘ ۔
اس نے میرے سوال کو نظر انداز کرکے کچھ سوچتے ہوئے قدرے توقف کے بعد بتایا ۔
’’کون سا کام؟اور آپ ہو کون؟‘‘
’’میں پریوں کے دیس کی شہزادی ہوںاوراس جنگل کے پیچھے ایک غار ہے جس میں ایک بد مست جن نے میری ایک سہیلی کو قید کررکھا ہے ،تمہیں پانی کاایک پیالہ میری سہیلی تک پہنچانا ہوگا‘‘۔
’’نہیں ۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ مجھ سے نہیں ہوگا ،جن مجھے مار ڈالے گا‘‘ ۔
میں خوف سے کانپنے لگا ۔
’’تمہیںکچھ نہیں ہوگا کیوں کہ وہاں سے انسانوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور جنوں کی خاص نظر صرف ہم پر ہوتی ہے ۔خیر کوئی جلدی نہیں ہے ،اچھی طرح سوچ سمجھ کر جواب دے دینا‘‘ ۔
کہتے ہوئے وہ غائب ہوگئی اور میں تذبذب میں پڑ گیا کہ کیا کروں ۔دراصل میں دنیا کے موجودہ پریشان کن حالات سے سخت بے چین اور خوفزدہ تھا اور بہت دنوں سے اوپر والے سے دعا مانگ رہا تھا کہ مجھے کسی ایسی جگہ پہنچادے جہاں یہ خوف و ڈر،پریشانی ،بے چینی اور بے یقینی نہ ہو ۔چین ہی چین اور سکون ہی سکون ہو۔ سکون کی تلاش میں میں نے کئی ملکوں کا سفر کرکے بیسوں شہر چھان مارے لیکن مایوسی اور نا امیدی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیااور آخر تنگ آکر اس جنگل کی راہ لے لی۔ کچھ دیر سنجیدگی سے سوچنے کے بعد میرے دل ودماغ میں یہ خیال گھر کر گیا کہ شاید اوپر والے نے میری دعا قبول فرمائی اور اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے یہ وسیلہ فراہم کیا۔میرا دماغ تیز رفتار موٹر کی پہیے کی طرح گھومنے لگا اور میںبے چینی سے اس کا انتظار کرنے لگا۔
’’تو کیا سوچا تم نے ؟‘‘
جلد ہی وہ واپس آکر گویا ہوئی ۔
’’مجھے منظور ہے، لیکن میں آپ کی بات پر یقین کیسے کروں؟‘‘
میرے مُنہ سے بے ساختہ نکلا ۔
’’شاباش ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
اس نے متبسم ہونٹوں سے کہا اور آنکھیں بند کرکے کچھ منتر پڑا جس کے ساتھ ہی ایک خوب صورت تخت میرے سامنے آگیا ۔
’’آنکھیں بند کرکے اس تخت پر بیٹھ جائو‘‘۔
اس نے تخت پر بیٹھتے ہوئے کہا ،میں بھی تخت پر بیٹھ گیا اور تخت ہوا میں اڑنے لگا۔۔۔۔۔۔
’’اب آنکھیں کھولو ‘‘۔
کئی گھنٹوں کی اڑان کے بعد اس نے کہا ۔میں نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو ایک سر سبز شاداب میدان میں پایا جہاں مختلف قسم کے بہت سے چوپائے چر رہے تھے ۔
’’یہی وہ دنیا ہے جس کی تمہیں تلاش تھی‘‘ ۔
’’لیکن ،یہ کون سی جگہ ہے ؟‘‘
’’یہ میںبعد میں بتائوں گی ،فی الحال اس دنیا کی سیر کرو ،جب میری ضرورت پڑے تو اسی جگہ آکر تین بار ’’جل پری شوقی‘‘پکارنا ،میں حاضر ہو جائوں گی‘‘۔
اس نے بستی کی طرف جانے والا راستہ دکھاتے ہوئے کہا اور تخت سمیت غائب ہو گئی ۔کچھ دیر ارد گرد کا جائیزہ لینے کے بعد میں بستی کی طرف نکل پڑا اوربہت دور جاکر ایک کچی سڑک پر پہنچ گیا ۔ یہ دیکھ کر میں دنگ رہ گیا کہ سڑک پرگاڑیوں کے بجائے بیل گاڑیاں دوڑ رہیں تھیں وہ بھی بہت کم ۔سڑک کے دونوں اطراف بہت سے مرد وزن کھیت کھلیا نوں میں بے فکر ہوکر کام میں مصروف تھے جنہوں نے نہ ہی ماسکیں لگائے تھے اور نہ ہی احتیاطی دوری کا کوئی خیال ر کھا تھا ۔ چلتے چلتے تھک ہار کر میں بستی میں پہنچ گیا ۔یہ ایک چھوٹے چھوٹے کچے مکانوں ،جن کے چھتوں پر گھاس پھوس تھی،کی بستی تھی ۔کسی بھی مکان کے ارد گرد دیوار بندی نہیں تھی ،خواتین گھروں کے صحنوں میں چکیاں پیستی اور پتھروں سے بنے او کھلوں میں کچھ کوٹتی تھیں ۔مرد بھی مختلف کاموں میں مصروف تھے جب کہ بغیر لباس کے بچے جکہ جگہ کھیل کود میں مگن تھے ۔یہاں کے لوگ کافی صحت مند ہٹے کٹے تھے، لیکن کسی نے بھی مناسب لباس نہیں پہنا تھا سب پھٹے پرانے بوسیدہ لباسوں میں ملبوس تھے بالکل قدیم انسانوں کی طرح ۔بستی میں بیچ بیچ میں مختلف قسم کے میوؤں سے لدے باغات تھے جنہیں دیکھ کر میرے مُنہ میں پانی بھر گیا ۔ مجھے بھوک بھی لگی تھی اور وہاں مجھے کہیں کوئی دکان نظر نہیں آئی، سو میں یہ سوچ کر ایک باغ ،جہاں کچھ مو یشی چر رہے تھے ،میں سستانے بیٹھ گیا کہ موقعہ پاکر دو تین سیب چبا ڈالوں ۔کچھ دیر بعد ایک ادھیڑ عمر کا صحت مند شخص آیا تو میں نے اسے پوچھا ۔
’’بابا ۔۔۔۔۔۔ یہ باغ آپ کا ہے ؟‘‘
’’ہاں پتر ۔۔۔۔۔۔ میرا ہی ہے ِ،کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟‘‘
اس نے سر تاپا میرا جائیزہ لیتے ہوئے کہا ۔
’’ بابا ۔۔۔۔۔۔ میں ایک مسافر ہوں،بہت بھوک لگی ہے کچھ سیب چاہیے کھانے کے لئے ‘‘۔
میں نے پچاس روپے کا نوٹ اس کی اور بڑھاتے ہوئے کہا ۔
’’ پتر ۔۔۔۔۔۔ بھوک لگی ہے تو خود توڑ کر کھائے کیوں نہیں اور یہ کیا ہے ؟‘‘
اس نے نوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ۔
’’روپے ہیں با با‘‘ ۔
اس نے نوٹ ہاتھ میں لیا اور کئی با ر الٹ پلٹ کر دیکھنے کے بعد شان بے نیازی سے مجھے واپس کرکے ایک درخت سے پانچ چھ لال لال سیب توڑ کر میرے سامنے رکھے اور خود بھی ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگائے سیب کھانے بیٹھ گیا ۔سیب انتہائی لذیذ تھے میں نے دوتین سیب کھائے اور یہ سوچنے لگا کی رات کہاں گزاروں ۔
’’چلو پتر ۔۔۔۔۔۔ گھر چلتے ہیں‘‘ ۔
اس نے محبت بھرے لہجے میں کہا ۔
’’بابا ۔۔۔۔۔۔ وقت کیا ہوا ہے‘‘ ۔
’’بیٹا ۔۔۔۔۔۔ شام کا وقت قریب ہے‘‘ ۔
اس نے سورج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
میں نے وقت دیکھنے کے لئے جیب سے موبائیل فون نکالا لیکن اس میں کوئی سگنل تھی اور نہ ہی گھڑی کام کر رہی تھی ۔
’’بابا ۔۔۔۔۔۔ آپ کے پاس موبائیل ہے ایک فون کرنا تھا‘‘ ۔
’’موبائیل ۔۔۔۔پتر ہ ہ کیا ہوتا ہے؟ ‘‘
اس نے لا علمی کا اظہار کیا اور کپڑے کے بنے تھیلوں سے مویشیوں کے مُنہ ایسے ڈھانپنے لگا جیسے ہم ماسک پہنتے ہیں ۔
’’با با ۔۔۔۔۔۔ آپ ان کے مُنہ کیوں بند کر رہے ہو‘‘ ۔
میں نے حیران ہو کر پوچھا ۔
’’پتر ۔۔۔۔۔۔ یہ بے چارے ناسمجھ ہوتے ہیں اور راستے میں ادھر اُدھر مُنہ مار کر دوسروں کا حق کھاتے ہیں اسی لئے‘‘۔
اس نے کہا اور ہم مویشیوں کے ساتھ اس کے گھر کی طرف چل دئے ۔اس کا گھر مٹی سے بنے چھوٹے چھوٹے پانچ مکانوں پر مشتمل تھا ،ایک طرف دس بارہ گھوڑے اور بیسوں چوپائے بندھے ہوئے تھے ۔دوسری طرف پانچ چھ خواتین چرخہ کات رہی تھیںجب کہ چار خواتین پتھر کے بڑے اوکھلوں میں کچھ کوٹ رہیں تھیں ۔ہم ابھی بیٹھے ہی تھے کہ ایک بزرگ خاتون مٹی کے بنے بڑے گلاسوں میں لسی اور ایک ٹوکری میں بڑی بڑی روٹیاں لے کر آگئی۔بھوک کے با وجود میں آدھا گلاس لسی اور آدھی روٹی ہی کھا سکاجب کہ با با نے پانچ چھ گلاس لسی کے ساتھ اتنی ہی روٹیاں بھی کھا لیں ۔اس دوران بابا مجھے افراد خانہ کا تعارف بھی کراتا رہا ۔اس گھر میں بابا کے باپ ،دادا ،پڑدادا ،بیٹوں،پوتے پوتیوں ،پڑپوتے پڑپوتیوں سمیت چھہ پیڑیوں پر مشتمل سترسے زیادہ لوگ اکٹھے رہ رہے تھے۔شام کے کھانے کا منظر دیدنی تھا ۔وہاں چونکہ بجلی کا کوئی تصور نہیں تھا،مشعل جلاکر گھر کے صحن میں تین بزرگ خواتین مٹی کے برتنوں میں کھانا پروسنے بیٹھ گیئں۔پہلے بچوں نے کھایا ،پھر مردوں نے اس کے بعد خواتین نے۔ کھانا کھانے کے بعدسارے محلے کے بچے، جوان مرد وخواتین بے فکر ہو کر ا کٹھے دیر تک چھپا چھپی اور دوسرے کھیل کھیلتے رہے ،جس کے بعد میزبان گھر کے آدھے افراد گھروں کے اندر آدھے صحن میںسو کر خراٹے لینے لگے۔ تھکاوٹ کے باوجود بہت دیر تک مجھے نیند نہیں آئی اور میں قدیم انسانوں جیسے اس نئے ماحول کے بارے میں سوچتا رہا اور آخر اسی نتیجے پر پہنچاکہ یہ کوئی بچھڑا ہوا دیہی علاقہ ہے ۔ان کے پیار اور سادگی سے متاثر ہونے کے با وجود میں نے شہر کا رخ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ابھی میری آنکھ لگی ہی تھی کہ لوگوں کے چلنے پھرنے اور زور زور سے باتیں کرنے کی آوازیں میری سماعتوں سے ٹکرانے لگیں۔میں بھی اٹھ کر گھر سے باہر نکلا۔ واش روم وغیرہ کا وہاں کوئی تصور نہیں تھا ۔کچھ دوری پربہت سی کھلی زمین تھی اور ایک صاف وشفاف ندی بہہ رہی تھی۔ عورتیں ایک طرف اور مرد دوسری طرف حاجت بشری کے لئے جا رہے تھے اور واپس آکر ندی پرکچھ ہاتھ مُنہ دھونے اور کچھ نہانے کے بعد پاس ہی واقع ایک میدان میں میں اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اوپر والے کی عبادت کرتے تھے ۔ندی پر ہاتھ مُنہ دھو کر صبح کے پرسوز ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لئے میںادھر اُدھر ٹہلتا رہا اور واپس آکر ناشتے سے فارغ ہو کر با با سے پوچھا ۔
’’با با۔۔۔۔۔۔مجھے شہر جانا ہے ،کوئی سواری ملے گی‘‘ ۔
اس نے مجھے گھوڑے کی پیش کش کی لیکن میرے منع کرنے پر بتایا ۔
’’بونہ گام تک تمہیں پا پیادہ ہی جانا ہوگا ،وہاں سے شاید کوئی بیل گاڑی مل جائے‘‘ ۔
’’موٹر گاڑی نہیں ملے گی؟ ‘‘
’’وہ کیا ہوتی ہے ؟‘‘
اس نے حیرت زدہ ہو کر لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔میں نے بھی اسے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا ،اسی لمحے میرے ذہن میں پری کا خیا ل آیا ۔ان سے اجازت لے کر جنگل میں اسی جگہ پہنچ کر، جہاں پری نے مجھے چھوڑا تھا، میں نے تین بار ’’جل پری شوقی‘‘ پکارا تو وہ حاضر ہوگئی ۔میں نے اسے شہر جانے کے ارادے سے آگاہ کیا تو اس نے منتر پڑھ کر تخت حاضر کردیا اور ہم دونوں اس پر سوار ہو کر ہوا میں اڑنے لگے‘‘۔
’’آنکھیں کھولو‘‘۔
گھنٹے بھر بعد پری نے کہا ۔میں نے آنکھیں کھولیں تو ایک چھوٹا سا سر سبز میدان تھا جہاں بیچ بیچ میں پھولوں کی کیاریاں تھیں ۔میں نے ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو شہر جیسی کوئی بات دکھائی نہیں دی ۔
’’جل پری ۔۔۔۔۔۔ شہر کہاں ہے ؟‘‘
’’یہی شہر ہے ،گھوم پھر کے دیکھ لو ،میری ضرورت پڑے تو اسی جکہ آکر تین بار پکارنا‘‘ ۔
کہہ کر وہ چلی گئی کیوں کہ وہ بہت جلدی میں تھی ۔
میں نے ماسک پہنا ،سینی ٹائیزر سے ہاتھ صاف کئے اور باہر کی طرف نکلا ۔ ایک پرانے طرز کا چھوٹا بازار تھا ،وہی دیہات جیسے مٹی سے بنے چھوٹے چھوٹے مکان جن کے چھتوں پر گھاس تھی ۔لوگ گھوڑوں ،خچروںپر آتے جاتے تھے اور اکا دکا بیل گاڑیاںبھی چل رہیں تھیں ،ہماری جیسی گاڑیوں جیسا نام نشان نہیں تھا۔میرے موبائیل پر وہاں بھی سگنل نہیں تھی ۔کچھ دیر ادھر ادھر گھوم پھر کے میں ایک نانوائی کے دکان پر جاکر اسے پوچھا ۔
’’بھائی صاحب ایک روٹی دے دو‘‘ ۔
میں نے پانچ روپے کا سکہ اسے دیتے ہوئے کہا ۔سکہ دیکھ کر اس کی آنکھیں چندیا گئیں ۔
’’چھوٹے نہیں ہیں بھائی صاحب ۔۔۔۔۔۔ پھر کھبی دے دینا‘‘۔
اس نے ایک روٹی اور مٹی سے بنا بڑا لسی کا گلاس میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا ۔
اسی وقت ایک خاتون ایک بڑی ٹوکری لے کر آئی اور ایک چھوٹا سا کالا سکہ نانوائی کو دیاجس نے پچاس سے زیادہ روٹیاںٹوکری میں ڈال کے اس کو دے دی۔ میں نے لسی کے ساتھ روٹی کھالی جس دوران نانوائی سے باتیں کرتے ہوئے یہاں کی زندگی کے متعلق کافی جانکاری بھی حاصل ہوئی ۔اس کے بعدمیںپھر اسی میدان میںجاکر بیٹھ گیااوراس شہر کے لوگوں کی طرز زندگی، جو اس دیہات سے زیادہ مختلف نہیں تھی، کے بارے میں سوچتا رہا ۔نہ ہماری طرح بڑے بڑے رہائشی مکانات ،نہ موٹر گاڑیاں نہ ڈھنگ کا لباس نہ تعلیم نہ ترقی نہ بجلی اور نہ ہماری جیسی دوسری سہولیات پھر بھی لوگ اس قدر خوش ، مطمئن ،صحت مند،بیماریوں سے مبرا، سینکروں برس جی کر پر سکون زندگی گزار رہے ہیں، آخر راز کیا ہے ؟ سب سے زیادہ میں اس بات سے متاثر ہوا کہ لوگ باگ رات کو بھی چلتے پھرتے تھے یہاں تک کہ عورتیں اور بچے بھی ،نہ کوئی خوف نہ ڈر ۔ قریب آدھی رات تک سنجیدگی سے سوچنے کے بعد میں نے دل ہی دل میں اسی شہر میں رہنے کا فیصلہ کرلیا اور میدان ،جہاں اب بھی مشعال جلاکر بہت لوگ بیٹھے بے فکری سے حقے کے کش لیتے ہوئے گپ شپ میں مصروف تھے اور کچھ لوگ سوئے بھی تھے ،میں ہی سرور کی کیفیت ٹانگیں پھیلا کر سوگیا ۔
صبح میری آنکھ کھلی تو نانوائی میرے سامنے موجود تھا ۔
’’ بھائی صاحب ۔۔۔۔ ۔ چلو وہاں ہاتھ مُنہ دھوکر دکان پر آکر ر وٹی کھا لو‘‘۔
اس نے اپنائیت کے انداز میں کہا ۔ ہاتھ مُنہ دھوکے میں دکان پر گیا اور لسی کے ساتھ روٹی کھالی ،جس دوران میں نے اسے پوچھ لیا ۔
’’بھائی صاحب ۔۔۔۔۔۔ یہ شہر کون سا ہے؟‘‘
’’پریگ‘‘۔
اس نے مختصر ساجواب دیا ۔
’’یہاں کوئی کام ملے گا ؟‘‘
’’میرے پاس ہی رہو ،تمہاری ساری ذمہ داری میری‘‘ ۔
’’مجھے کرنا کیا ہوگا ؟‘‘
’’بس یہاں بیٹھنا ہوگااور کچھ نہیں لیکن شادی کرنی پڑے گی‘‘ ۔
’’شادی ۔۔۔۔۔لیکن ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’سارا خرچہ میں کروںگا اور آپ کو رہنے کے لئے جگہ بھی دونگا‘‘۔
اس نے حقے کا کش لیتے ہوئے کہا ۔
’’کتنا خرچہ ہوگا؟‘‘
’’دو تین ٹکے ‘‘۔
’’یہ ٹکا کتنا ہوتا ہے؟‘‘
’’تمہیں نہیں معلوم ۔۔۔۔۔۔یہ دیکھو ،یہ پھوٹی کوڑی،تین پھوٹی کوڑی کی ایک کوڑی،دس کوڑی ایک دمڑی،دودمڑی ایک پائی،ڈیڑھ پائی ایک دھیلہ،دو دھیلے ایک پیسہ، دوپیسے ایک ٹکہ ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
وہ سکے دکھا کر مجھے سمجھاتا رہالیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔
’’ٹھیک ہے ‘‘۔
میں نے خوش ہوکر حامی بھرلی اور کچھ دیر تک اس سے باتیں کرنے کے بعد آکر سرور کی کیفیت میں اسی میدان میں بیٹھ کر نئے خواب بننے لگا ۔اسی لمحہ پری حاضر ہو گئی ۔میں نے اسے اپنے فیصلے کے بارے میں بتایا تو وہ اپنے عنابی ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے گویا ہوئی ۔
’’ اب میری بات پر یقین ہوگیا؟‘‘
میں نے اثبات میں سرہلایا تو اسی لمحہ تخت حاضر ہوگیا ۔
’’چلوپہلے اپنا وعدہ پورا کرلو‘‘ ۔
میں چاہ کر بھی انکار نہ کر سکا اور با دل ناخواستہ ہی اس کے ساتھ تخت پر سوار ہو کر اسی جھیل کے پاس پہنچ گیا جہاں وہ مجھے ملی تھی ۔اس نے مجھے سنہرے کاغذ میں لپٹا ہوا پیالہ دیا ،غار تک پہنچنے کا راستہ ، اپنی سہیلی تک پیالہ پہنچا نے کا طریقہ بتانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ وہ سخت پریشانی اور بے چینی میںہے اور یہ پانی پیتے ہی اُسے سکون نصیب ہوگا۔ میں پیالہ ،جس سے بے حد عمدہ خوشبو آرہی تھی، لے کر غار کی طرف روانہ ہو گیا ۔
’’کیوںنہ میں سنہری کاغذ اٹھاکر دیکھ لوں کہ اس پیالے میں کیا ہے؟ جو اتنی عمدہ خوشبو آرہی ہے‘‘ ۔
’’نہیں ۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ تو خیانت ہوگی‘‘۔
میں کشمکش میں مبتلا ہوگیا کہ کیا کروں ،آخر اچانک ایک جگہ بیٹھ کر میں نے ادھر اُدھر دیکھا اور پیالے سے سنہری کاغذ ہٹایا تو یہ دیکھ کر میری آنکھیں چندیا گئیں کہ پیالہ خالص سونے کا تھا اور اس سے نکلی ہوئی خوشبو چاروں اور پھیل گئی ۔
’’ارے نادان ۔۔۔۔۔۔ کہاں بھٹکتے رہو گے ،پانی پھینک دو اور پیالہ لے کر واپس اپنے گھر جائو ساری زندگی عیش وآرام سے گزرے گی‘‘ ۔
میرے اندر سویا ہوالالچ کا بے لگام گھوڑابیدار ہو کر ہنہنانے لگا،کچھ لمحے سوچنے کے بعد میں نے عجلت میں پیالے کا ڈھکن اٹھا کر جوں ہی پانی گراناچاہا تو ایک جھٹکے سے کسی نے پیالہ میرے ہاتھ سے چھین لیا ۔میں نے نظریں اٹھاکر دیکھا تو سامنے جل پری تھی ۔
’’ کمینے آدم زاد۔۔۔۔ آخر دکھا ئی نا اپنی اوقات‘‘۔
پری نے مجھے خشم ناک نظروں سے گھورتے ہوئے کہا ۔
’’جل پری ۔۔۔۔ مجھے معاف کردو ،مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ۔مجھے ایک اور موقعہ دو ،میں واپس جا کر ’’پریگ ‘‘شہر میں رہنا چاہتا ہوں‘‘۔
میں خفت اور خجالت کی وجہ سے سر جھکائے ہوئے ہاتھ باندھ کر منتیں کرنے لگا۔
’’پریگ میں رہوگے ۔۔۔۔۔۔ ’’کل یگ ‘‘کے نادان انسان،ابھی تم نے ’’دعا پریگ ‘‘کی سیر کرکے وہاں کے پیار اورسادگی کی ایک جھلک ہی دیکھی ہے اور یہ تمہارا امتحان تھا ۔اس پیالے میں چشمہ سکون کاپانی ہے ،جو تمہارے لئے ہی تھا اور جس سے پی کر تم ’’ترتیا یگ‘‘ کے خلوص کی چاشنی اور ’’ست یگ ‘‘کی سچائی کی مٹھاس بھی دیکھتے اور تمہیں سکون ہی سکون اور چین ہی چین نصیب ہوتا ،لیکن نا بینائوں کو روشنی دکھانا ہی بے کار ہے۔ اس بے قیمت پیالے کے جھانسے میںآکر تم نے اپنے آپ کو اس انمول دولت سے محروم کردیا،کیوں کہ تمہاراندرون لالچ اور حرص کی کالک سے لتھڑا ہوا ہے اور اپنے کالے کرتوتوںکے سبب بے سکونی پریشانی اور خوف وڈر کی زندگانی ہی تمہارا مقدر ہے ‘‘۔
جل پری نے اپنے لہجے میں برف کی سی خنکی ڈال کر کہا اور سونے کا پیالہ لے کر غائب ہوگئی ۔میں پشیمان ہو کر پریشانی کے عالم میں اپنا ریزہ ریزہ وجود لئے بوجھل قدموں سے واپس گھر کی طرف چلنے لگا ۔
���
اجس بانڈی پورہ(193502) کشمیر
ای میل؛ [email protected]
موبائل نمبر؛9906526432