نور شاہ
ویسے قربان علی کا گھرانہ مختصر تھا صرف چھ افراد پر مشتمل ، ان کی بیگم، بیٹا ، بہو اور دو بیٹیاں ۔ جب سے اُن کی دونوں بیٹیاں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اپنے ملک سے دوسرے ملک چلی گئی تھیں، یہ گھرانہ اور بھی مختصر ہوگیا تھا۔ قربان علی کی اہلیہ گلزارہ بیگم اکثر بیمار رہتی تھی اور قربان علی بھی ملازمت سے سبکدوش ہو چکے تھے اس لئے اُن کا وقت اپنی بیگم کی دیکھ بھال میں یوں گزر جاتا کہ انہیں وقت بیتنے کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔ لیکن ایک روز صبح سویرے سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی گلزارہ بیگم کی سانسیں کسی ان دیکھے لمحے کی نذر ہوگئیں اور وہ ابدی نیند سوگئیں ۔ بیٹیوں کو اطلاع تو دے دی گئی لیکن اُن کا آنا ممکن نہ ہو سکا کیونکہ وہ دونوں امتحانات میں مصروف تھیں۔ بہت سارے رشتہ دار ، ہمسائے ، یار دوست اور اپنے اُن کے گھر تعزیت کے لئے آتے جاتے رہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ آنا جانا بند ہو گیا۔ زندگی خاموش سے لمحوں سے گزرتی ہوئی معمول پر آنے لگی تو بیٹا دفتر جانے لگا۔ بہو گھریلو کام نپٹانے کے بعد اپنے بیمار باپ کی تیمارداری کے لئے میکے چلی جاتی اور شام گئے اپنے خاوند کے دفتر سے واپسی پر اس کے ساتھ گھر واپس چلی آتی۔ کسی بھی چھٹی کے دن نثار کا اپنی بیوی سمیت سسرال کی گلیوں کی سیر کو نکل جانا اب اُن کا معمول بن چکا تھا۔
خاموشی کے ان دیکھے لمحوں میں قربان علی کو محسوس ہونے لگا کہ اُس کی ذمہ داریوں میں بے حدا ضا فہ ہو گیا۔ کچھ نہ کرتے ہوئے بھی وہ بے حد مصروف نظر آنے لگے تھا کبھی اندر کبھی باہر، کبھی ایک کمرے میں کبھی دوسرے کمرے میں اور کبھی کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے کبھی پرانے فوٹو البم میں کوئی نشانی تلاش کرتے ہوئے ، ذراسی آہٹ ہوتی ، ذراسی آواز ابھرتی ، ذراسی دستک ہوتی تو وہ گھبرا کر نہ چاہتے ہوئے بھی کھڑے ہو جاتے ، اندر سے باہر آتے ، کچھ نہ دیکھ کر وہ پھر سے اندر چلے جاتے۔
اور جب رات گئے وہ اپنے تھکے تھکے سے وجود کو لے کر اپنے نرم گرم بستر کا سہارا لینے کی کوشش کرنے لگتے تو اُن کی سوچوں کی ندی میں ایک پھیلا پھیلا سا بکھرا بکھر ایسا سیلاب دکھائی دینے لگتا۔ وہ اس سیلاب کی گہرائیوں میں بہہ جاتے ، ڈوب جاتے ، ندی کے پانی کا ہر ہر قطرہ اُن کی یادوں کی کہانی کو تر کرنے لگتا، تب بھی اُن کے کان لمحہ لمحہ کسی نئی آواز کسی نئی آہٹ کسی نئی دستک سے آشنا ہونے کے لئے کھلے کھلے سے رہ جاتے۔ ان کی آنکھیں کسی کے انتظار میں کھلی کھلی سی رہ جاتیں ۔ اور جب کبھی رات کے اندھیاروں میں قربان علی کی ان کہی ذمہ داریاں نیند کی آغوش میں پناہ لینے کے لیے مچل مچل سی جاتیں تو اُن کی دل کی دھڑکنوں سے ایک دھیمی دھیمی سی بجھی بجھی سی آواز ابھرتی محسوس ہوتی کہ پرانی کتاب کی نئی کہانی میں سونا منع ہے۔
���
لل دید کالونی،گوری پورہ، راولپورہ،موبائل نمبر؛9906771363