سید مصطفی احمد
ادب کی طرح صحافت سماج کی عملی کے علاوہ بسری یا عملی تفسیر ہوتی ہے۔ اس نظریہ سے لوگ مجھ سے اختلاف کرسکتے ہیں مگر صحافت ایک ایسا فن ہے جو سماج کے ہر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے لوگوں تک اپنی بات رکھتا ہے۔ اگر پورے سماج کی ترجمانی کرنی ہے، تو سماج کی کل واقفیت رکھنا نہایت ضروری ہے۔ ایک پہلو کو پکڑنے سے دوسرا پہلو ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے، یہ صحافت ہے۔ ہر پہلو کو ہر زاویے سے دیکھنا اور پھر ایک اعتدال پسند راستہ چن لینا ہی صحافت ہے۔ سماج اختلافات کی آماجگاہ ہے۔ ان کو جذباتی رنگ دینا جہالت اور نادانی ہے۔ چوری، قتل، جنسی زیادتیاں، وغیرہ ہمارے سماج کے حصے ہیں۔ ان سے دور بھاگنے کا مطلب ہے زندگی سے دور بھاگنا۔ اب ان کے ساتھ ساتھ چلنا ہی زندگی ہے۔ ان حالات کو اس طریقے سے پیش کرنا کہ ہر خبر اس کے حقیقی روپ میں سامنے آئے اور اس سے نقصان کم مگر فوائد زیادہ ہوں، صحافت میں شمار ہوتا ہے۔
یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے کہ یہاں صحافت ناتجربہ کار افراد کے ہاتھوں میں تھما دی گئی ہے۔ میں ان لوگوں کو صحافی نہیں کہہ سکتا۔ ان لوگوں کو صحافی کہنا،اس پیشے کی بے حرمتی ہے۔ ہاتھ میں مائیک اور ساتھ میں ناتجربہ کار کیمرہ تھامے ہوئے شخص کو کسی حادثاتی مقام پر باتوں کو آسمان تک لے جانے کو یہاں صحافت کہا جاتا ہے۔ جذبات کی رو میں بہہ جانا اور خود ہی سزا مختص کرنا ،بیوقوف صحافت کی نشانی ہے۔ نجی معاملات کا کھلے عام پرچار کرنا اور خود مفتی،قاضی اور قانون بننا،ان نام نہاد صحافیوں کا شیوہ ہے۔ روتے چلاتے لوگوں کو اپنی چینلز کی زینت بنانا کونسی صحافت ہے؟۔ ان کی نیم مردہ حالات میں ان سے سوال و جواب کرنا بے وقوفی ہے۔ ہر ایرے غیرے سے سوال کرنا اور جواب طلب کرکے ان باتوں کو ثبوت کے طور پر لوگوں کے درمیان پیش کرنا، کہاں صحافت کے زمرے میں آتا ہے؟
اس صورتحال کے پیچھے بہت سارے وجوہات کا عمل دخل ہیں۔پہلا ہے بے روزگاری۔ کشمیر میں بیروزگاری عروج پر ہے۔ اس لئے ان پڑھ اور ناتجربہ کار صحافیوں نے اس دنیا میں اپنے قدم جمانے شروع کئے ہیں۔ کچھ ہزار روپے خرچ کرکے یہ لوگ صحافت کا لبادہ اوڑھے ہیں۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں آن لائن کمایا جاسکتا ہے۔ تو یہ نادان بھی اس کھیل کا حصہ بن گئے۔ کچھ افراد کو زبان کا صحیح استعمال بھی نہیں آتا ہے اور کئی لوگوں کو تواریخ پر بھی نظر نہیں ہے۔ کسی کے کپڑے صحافی ہونے کے موافق نہیں ہیں،تو کوئی زبان درازی کر رہا ہے۔ گھر میں بھی اور کوئی کام نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ جس آدمی نے ڈگریاں حاصل کی ہوں، اس کے لئے مزدوری کرنا بے عزتی ہے۔ اس لئے نام نہاد صحافی اس پیشہ میں کود پڑے۔
دوسرا ہے یہاں کا صحافتی نظام۔ حقیقی صحافیوں کو یہاں کوئی نہیں پوچھتا ہے۔ وہ لوگ سماج کے اصل مسائل کی بات کرتے ہیں۔وہ بنیادوں پر کام کرنا جانتے ہیں۔ان کے یہاں صحافت مقدس پیشہ ہے۔ وہ اس سے کماتے بھی تھے اور اس کے ذریعے سماج میں سدھار لانے کی بھی کوشش کرتے تھے۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ ان کے لئے یہ ادارہ اب ان کے گھر کے چولہے کو جلائے رکھنے میں ناکام ہوا۔ تو انہوں نے اس پیشے کو ہی خیرباد کیا اور دوسری کسی نوکری کی تلاش میں نکل گئے۔ اس کے برعکس آج کے صحافی پہلے توصحافی ہی نہیں ہیں۔ ان کو لوگ مسخرے سمجھتے ہیں۔ لوگ بھی اب مادیت پرستی کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس ماحول میں بریکنگ نیوزہونی چاہئے۔ بڑا چڑھا کر خبروں کو پیش کرنا لوگوں کو بھی حد سے زیادہ پسند ہے۔ مادیت کی دوڑ میں پل پل کی خبر رکھنا ضروری ہے۔ کتنا منافع ہوا اور کتنے موت کے منہ میں چلے گئے، یہ سب جاننا زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔ اب کون ان حالات میں پاک صحافت کی فکر کرے۔ لوگوں تک خبر پہنچنی چاہئے، پھر پہنچانے والا کوئی بھی ہو۔ اس سے بھی صحافت کی خستہ عمارت اور کمزور پڑ گئی۔
تیسرا ہے گورنمنٹ کا رویہ۔ اگر حکومت ایسے اقدامات کرتی جس سے کسی بھی ان پڑھ کا صحافت جیسے مقدس پیشہ میں داخل ہونامشکل ہوتا، تو امکان تھا کہ یہ پیشہ مرہم کا کام کرتا۔ ایک نظام ہوتا جس کے اندر رہ کر صحافی بنائے جاتے۔ ان کی مکمل ٹریننگ ہوتی اور آخر پر ان کو اس فیلڈ میں آنے کی اجازت ہونی چاہئے تھی مگر اس کے الٹ ہوا۔ حکومت کو بھی ان نام نہاد صحافیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ٹائم میگزین اور انگریزی روزنامہ دی ہندو جیسے جریدے اور اخبار حکومت کو سونے نہیں دیتے تھے۔ ہر خبر کا مکمل احاطہ کرتے تھے۔ حکومت بھی ہوشیار رہا کرتی تھی مگر آج ایسا نہیں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس حکومت کو فائدہ ہی ملتا ہے۔ یہ صحافی ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔یہ حکومتی کاموں کا پرچار کرتے ہیں اور بے بنیاد تبصروں سے لوگوں کے اذہان پر چھا جاتے ہیں۔ اب ان لوگوں سے مرہم کی امید رکھنا، دیوانوں کے خواب کی مانند ہے۔
اس کا تدارک کرنے کے لئے عام لوگوں کا حساس ہونے پڑے گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے زخموں پر مرہم پٹی ہو،تو ہمیں خود ان نام نہاد صحافیوں سے بچنا ہوگا۔ کوئی دریا میں غرق ہوگیا یا پھر کوئی دوسرا حادثہ پیش آیا، اس وقت ہم سب کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور ان حادثات کو ایک شوبننے سے روکنا چاہئے۔ ہر حادثہ اپنے ساتھ کئی قسم کے نقصانات لاتا ہے۔ اس کے بعد اس کو بار بار دہرانا اور اس کے عوض پیسہ اور شہرت کی دوڑ میں لگ جانا، مصیبتوں کے اور پہاڑ کھڑا کرتاہے۔ہم سماج میں رہتے ہیں۔ ہر کوئی آج کے زمانے میں دوسروں کے حادثات سے واقف ہے۔ اس کا مستقبل میں غلط نتائج نکل سکتے ہیں۔ عورتوں، بچوں اور مردوں کا رونا پیٹنا اب یہ نام نہاد صحافی سیو(save)کر لیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ پھر جو ہوتا ہے وہ اس مغموم فیملی کے ساتھ ہوتا ہے جو پہلے سے ہی مایوس ہے۔ پہلے زمانے میں مرنے والے کی دھندلی سی یادیں ہوتی تھیں اور رفتہ رفتہ شکل آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی تھی۔ اب ایک مہلوک شخص کی شکل بار بار سوشل میڈیا پراپلوڈکی جاتی ہے اور اس سے مالی مراعات حاصل کی جاتی ہیں اور اُس وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان لوگوں پر اس کیا اثر ہوگاجن پر یہ قیامت ٹوٹ پڑی ہے! وہ زندہ رہ کر بھی مردوں کی طرح ہونگے۔
اس کے علاوہ ہمیں خود صحافت سیکھنی چاہئے اور ان صحافیوں کا ساتھ دینا چاہئے جو صحافت کی قدر کرنا جانتے ہیں۔ اب جو یہ نام نہاد صحافی ہیں، ان کو سماج کے ذی شعور افراد کی وساطت سے سمجھایا جائے کہ صحافت کس چیز کو کہتے ہیں اور اس کے لئے کیا کیا ضروریات ہیں۔ ہر کسی کو جاگنا ہوگا تاکہ اور زیادہ نقصان نہ ہو۔ یکطرفہ رپورٹنگ صحافت نہیںہے بلکہ یہ گناہ ہے اور ذہنی عذاب بھی۔ میری گزارش ان افراد سے ہے جو ہاتھ میں مائیک لے کر گھوم رہے ہیں کہ مہربانی کر کے پہلے اپنا ہوم ورک کر کے آئیں اور پھر صحافت کی دنیا میں قدم رکھیں۔ جذبات اور چیخیں صحافت نہیں ہے ۔ اگر آپ لوگ زخموں پر مرہم پٹی نہیں لگا سکتے، کم از کم نمک پاشی کرنے سے بھی پرہیز کریں۔ ہمارے زخم پہلے سے ہی رس رہے ہیں اور آپ لوگوں کی وجہ سے یہ ہر روز تازہ ہوتے ہیں۔اسلئے براہ کرم لوگوں کے المیوں کو اپنی کمائی کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ صحافتی اصولوں کی آبیاری کرتے ہوئے حقیقی صحافت کریں جو معاشرے کی مرہم پٹی بھی کرے اور فلاح وبہبود کے راستے بھی کھولے۔
رابطہ۔حاجی باغ، ایچ ایم ٹی،سرینگر کشمیر
(مضمون میں ظاہر ک گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)