سید منیب علی
فلکیات میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو انسان کو متجسس بنا دیتی ہیں لیکن کئی لوگ بلیک ہولز کے بارے میں سن کر بہت زیادہ حیران ہوجاتے ہیں، بلیک ہول ہر کہکشاں کے مرکز میں پائے جاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان بلیک ہولز کے اس کائنات میں موجود ہونے کی وجہ سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ آخر یہ بلیک ہول پراسراریت سے بھرے کیوں ہیں؟ بلیک ہول کے گرد کہکشاں میں موجود تمام ستارے گردش کر رہے ہوتے ہیں، ہماری اپنی کہکشاں، جس کا نام’’ ملکی وے‘‘ ہے، کے مرکز میں ہمارے سورج سے تقریبا 10 لاکھ گنا بڑا بلیک ہول موجود ہے، جسے فلکیاتی اصطلاح میں ’’سپر میسِیو بلیک ہول ‘‘کہا جاتا ہے۔
اس کے گرد تقریبا 23 کروڑ ستارے گردش کررہے ہیں جن میں سے ایک ہمارا سورج بھی ہے، اگرچہ یہ سورج ہے، تاہم درحقیقت یہ ایک ستارہ ہی ہے!.مگر بلیک ہول کے پاس اتنی طاقت کہاں سے آجاتی ہے؟ کیا یہ بھی کسی دوسری چیز سے انرجی حاصل کرتا ہے؟درحقیقت بلیک ہولز کائنات کی سب سے چھپی ہوئی چیزوں میں سے ایک ہیں جن کو ڈھونڈھنا نہایت مشکل ہے، آج ہم ان کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہوئے بھی کم ہی معلومات رکھتے ہیں، بلیک ہول کی مثال کچھ اس طرح سے ہے کہ اگر آپ اس نظام شمسی کے سورج کو ایک فٹ بال میں قید کردیں تو یہ سورج بلیک ہول بن جائے گا۔
آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق کسی بھی چیز کی کشش ثقل اس میں موجود مادّے اور اس کی کثافت پر منحصر ہوتی ہے (کسی بھی چیز کی کثافت اس میں موجود مادّے کی مقدار کو اس کے حجم پر تقسیم کرکے نکالی جاسکتی ہے)۔ منددرجہ بالا مثال میں سورج (جس کا قطر تقریبا 6 کروڑ کلو میٹر ہے) کو فٹ بال (جس کا قطر تقریبا ایک فٹ ہوتا ہے) کے حجم میں قید کرنے کے بعد اس کی کثافت میں اضافہ ہوجائے گا، اس حالت میں سورج کی کشش اس قدر زیادہ ہوجائے گی کہ یہ روشنی کو بھی نکلنے نہیں دے گا، جس کے بعد سورج روشنی کی عدم موجودگی کی وجہ سے سیاہ نظر آئے گا اور اسے بلیک ہول کہا جائے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بلیک ہول روشنی تک کو نکلنے نہیں دیتا تو اس کے گرد گردش کرتے کروڑوں ستارے اس سے کیسے محفوظ ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی بھی ستارے کے بلیک ہول بننے کے بعد بھی اس میں مادّے کی مقدار وہی رہتی ہے اس لیے آس پاس کے ستاروں یا سیاروں پر لگنے والی کشش ثقل بھی وہی رہے گی، چوں کہ بلیک ہول بننے کے بعد ستارے کا حجم انتہائی کم ہوجاتا ہے تو اس کے گرد ایک حد تک کشش بہت زیادہ ہوجائے گی کہ اگر کوئی بھی چیز اس حد کو پار کرجائے تو پھر اس کا واپس آنا ناممکن ہوجائے گا، بلیک ہول کے گرد اس حد کو فلکیاتی اصطلاح میں ’’ایونٹ ہورائزن‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
آج تک سائنسدان اس بات کا دعوی کرتے تھےکہ اگر کوئی ستارہ کسی بلیک ہول کی ایونٹ ہورائزن کے اندر یا قریب آجائے تو وہ بلیک ہول پہلے اس ستارے کی باہری سطح کے چیتھڑے اڑائے گا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ستارے کو نگل لے گا لیکن چند سال قبل سائنسدانوں نے پہلی دفعہ اس منظر کا اسپیشل دوربینوں کی مدد سے نظارہ کیا، یہ نظارہ 15 کروڑ نوری سال دور 2 متصادم کہکشاؤں کے جوڑے، جس کا نام “ارپ 299” ہے، میں دیکھا گیا جب ایک ستارہ، جو ہمارے سورج سے تقریبا 2 کروڑ گنا بڑا ہے، ایک بلیک ہول کے قریب آتے ہی بکھر گیا، اس ستارے کا بہت سا حصہ بلیک ہول نے نگل لیا لیکن کچھ ذرّات آس پاس بکھر گئے۔
ایونٹ ہورائزن کے پاس کشش کی وجہ سے شدید دباؤ اور رگڑ پیدا ہوتی ہے، جس سے مادہ طاقتور ایکس ریز اور قابل مشاہدہ روشنی خارج کرتا ہے جو کہ اب سائنسدانوں نے دیکھی ہیں۔ اس کے علاوہ اس ستارے کے مادّے کا کچھ حصہ بلیک ہول کے قطبین کی طرف سے بھی نکلا، جس کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب تھی، فلکیاتی اصطلاح میں بلیک ہول کے قطبین کی طرف سے خارج ہوتے۔
اس تیز رفتار مادّے کو ’’جیٹس ‘‘کہا جاتا ہے اور ان جیٹس کا بھی پہلی دفعہ مشاہدہ کیا گیا اور دیکھا گیا کہ یہ جیٹس در حقیقت کس طرح وجود میں آتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ منظر زمین سے 15 کروڑ نوری سال دور ہوتے دیکھا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کہکشاؤں کی حالت کیا ہوگی، یہ کوئی نہیں جانتا لیکن ہاں، جو حالت 15 کروڑ سال پہلے تھی اس کی خبر لے کر روشنی اب زمین تک پہنچی ہے۔
یعنی یہ کہکشاؤں کا جوڑا جب آپس میں ٹکرایا تھا تو اس وقت زمین پر زندگی اپنے ابتدائی مراحل سے گزر رہی تھی اور انسان کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فزکس اور ریاضی کی مدد سے جو پیش گوئی سائنسدان سالوں سے کرتے آئے ہیں وہ حقیقت ہے اور اس سے یہ بھی واضع ہوتا ہے کہ آج کی سائنس صحیح اور حقیقی راستے پر گامزن ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس ملک پاکستان میں سائنس کی تعلیم حاصل کریں، تاکہ دنیا پاکستان اور اس کی دریافتوں کو بھی اسی طرح شوق سے پڑھے، جس طرح لوگ امریکا اور یورپ کو دیکھتے ہیں۔