سناٹا افسانہ

رحیم رہبرؔ

جگری دنِ کے ہنگاموں  میں اضافہ کرتی تھی۔ بے انتہا حسین ہونے کے باعث اسکو دیکھ کر نگاہیں بکھر جاتی تھیں! وہ جونہی بازار میں نمودار ہوجاتی تو گھوم پھر رہے خریدار سکتے میں پڑ جاتے تھے! لوگ بُھول جاتے تھے کہ جگری خود سے بیگانہ ہے۔ گوکہ وہ خود سے باتیں کرتی تھی۔ کبھی قہقہے مارتی تھی اور کبھی چھوٹے بچے کی طرح بلکتی تھی۔ جنون کی حالت میں وہ زور زور سے چلاتی تھی۔
وہ۔۔۔ ۔۔ وہ ظالم تھے۔۔۔۔۔ وہ روشنی کی تختی پر ظلمات لکھتے تھے۔۔۔ ان کو رات کا سناٹا پسند تھا۔
انہوں نے امبر سیب کے بوٹے اُکھاڑ دیئے۔۔۔ کانی شال کو دھیمک کھا گئی۔۔۔ وہ نادان تھے چند ٹکوں کے عوض پشمینہ شال کو نیلام کر ڈالا۔۔۔۔ انہوں نے حبہ خاتون کو سُرمہ کھلایا۔۔۔۔ زعفران کے پھول اُس سُریلی آواز کے لئے ترس رہے ہیں، جسکو سُن کر وہ جھوم جاتے تھے! ارے۔۔۔ میں ۔۔۔ میں ۔۔۔ اکیلی ہوں۔۔۔ سوکھی ڈالی کی طرح۔ میں ہوا کے جھونکوں سے ڈرتی ہوں!‘‘
جگری پاگل نہیں تھی۔ وہ ایک فلسفی تھی۔ وہ گھونگے الفاظ میں جان ڈال کر ایک خوبصورت باب رقم کرتی تھی۔ وہ سُکھ ناگ کے مانند پھر پتلی تھی۔ اس کو پیچھے مُڑ کر دیکھنا پسند نہیں تھا۔
’’پھر وہ بازار میں کہاں غائب ہوجاتی تھی۔ وہ کہاں سے آتی تھی اور کہاں جاتی تھی۔ اسکو شب کے سکوت کے ساتھ اتنی نفرت کیوں تھی۔ خدا نخواستہ اگر کوئی ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
خیر ایسے ہی بہت سارے سوال میرے کینواس پر اُبھر کر آتے تھے۔
مجھے جگری سے بہت لگائو تھا۔ مجھے اُسکی ہر ایک ادا پسند تھی۔ جگری پھول جیسی شرماتی تھی۔ میں جانتا تھا کہ لوگ جگری کے بارے میں اناپ شناپ بولتے ہیں۔ ایک شخص جگری کو دیکھ کر میرے قریب آیا اور بولا۔۔۔
’’بڑی چالاک ہے سالی۔۔۔ پاگل پن کی ایکٹنگ کرتی ہے۔۔۔ چھوکری ہے۔۔۔ بے شرم۔۔۔ آوارہ پھرتی ہے۔‘‘
اس کی باتیں سُن کر مجھے بہت غصہ آیا اور بولا۔
’’بیوقوف ایسا نہیں کہتے۔ تمہاری بھی بہن ہے۔۔۔ بہن نہیں بیٹی تو ضرور ہوگی۔۔۔ بیٹی نہیں ماں تو ہوگی۔۔۔ ذرا شرم کر۔‘‘
میں نے فیصلہ کیاکہ جگری کو میں اپنائوں گا۔ دوسرے دن یہ ارادہ باندھ کر میں جگری کو ملنے بازار چلا گیا۔ ایک کے بعد ایک بازار کی دکانوں کے سارے شٹر کھل گئے۔ میونسپلٹی کے خاکروب فٹ پاتھ اور سڑک صاف کرنے کے بعد فارغ ہوگئے۔ میں پولیس بیٹ کے قریب جگری کا بڑے ہی انہماک سے انتظار کررہا تھا۔ اسی اثناء میں بڑے ڈسٹ بن کے قریب لوگ اکھٹا ہونا شروع ہوگئے۔ اچانک دن کے ہنگاموں میں رات کا سناٹا چھا گیا۔ میں ڈسٹ بن کے قریب پہنچا۔ تب لاش کو ڈسٹ بن سے نکالا گیا تھا۔
لاش میلی چادر میں لپٹی ہوئی تھی۔ ایک خاکی نے لاش سے چادر اُٹھائی۔۔۔ میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ یہ جگری کی لاش تھی۔ اُس کے چہرے اور چھاتی پر تشدد کے نشان عیاں تھے۔۔۔!
���
ا?زاد کالونی پیٹھ کا انہامہ
موبائل نمبر؛9906534724