سماج میں منشیات کی بڑھتی وباء

ہمارے   سماج کو ویسے بہت سے مسائل درپیش ہیں، لیکن جس رفتار میں پچھلے کئی برسوں سے منشیات کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے، وہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ منشیات کا نشہ ایک ایسی لعنت ہے جو سکون کے دھوکے سے شروع ہوتی ہے اور زندگی کی بربادی پر ختم ہو جاتی ہے۔ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ منشیات  سے زیادہ 18 سے 30 سال کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں متاثر ہو رہے ہیں۔ لرزا دینے والی بات تو یہ ہے کہ نوجوان لڑکیاں بھی منشیات سے متاثر ہو رہی ہیں۔ منشیات ایک ایسی بیماری ہے جو نہ صرف انسان بلکہ گھر ، معاشرے اور پورے قوم کو تباہ کر دیتی ہے۔ ہر قوم کے معمار نوجوان ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے نوجوان ہی اس لعنت میں ملوث ہیں۔دنیا کے بیشتر ممالک میں منشیات کا استعمال بہت پہلے سے ہورہا تھا۔ لیکن اب کشمیر جیسی پاکیزہ معاشرے میں بھی یہ وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہ وہی سر زمین ہے، جہاں چند دہائیوں قبل ایسی چیزوں کا تصور بھی نہیں تھا۔ حال ہی میں کشمیر کے معروف اخبار روزنامہ’’ کشمیر عظمیٰ‘‘ میں چھپنے والی ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ 1980 کے بعد 8 برسوں میں سرینگر کے اسپتالوں میں 9726 کیس سامنے آئے جب کہ 2015 کے بعد اس میں ہر سال 6000 سے زائد کا اضافہ ہوا۔ ذہنی امراض سے متعلق نئی دہلی کے انسٹی چیوٹ کی سروے کے مطابق وادی میں 2015سے منشیات کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔میڈیکل انسٹی چیوٹ نئی دہلی کی سروے کے مطابق وادی میں 18سال سے 30سال کے درمیان نوجوان منشیات کا استعمال کرتے ہیں اور ہر روز ان میں اضافہ ہورہا ہے۔ پولیس کے انسداد منشیات  مرکز کے اعدادوشمار کے مطابق جنوری 2017کے بعد 5265کیس سامنے آئے۔جنوری 2015سے دسمبر 2016تک 3236کیس سامنے آئے تھے۔اس طرح 2015 میں ایسے کیسوں میں 62فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔
کشمیر میں پچھلے کئی برسوں سے منشیات کے استعمال میں اضافہ نہ صرف انتظامیہ بلکہ معاشرے کے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ جہاں تک انتظامیہ کا تعلق ہے، انتظامیہ کو چاہیے کہ منشیات کی سپلائی میں ملوث افراد خواہ وہ عام آدمی ہو یا کسی بڑے عہدے پر فائز، ان سب کے خلاف ایکشن لینا شروع کرے۔ اس مرض  میں ملوث افراد کے علاج معالجے کے لئے زیادہ سے  زیادہ سینٹرز  قائم کئے جائیں، تاکہ یہ وبا مزید پھیل نہجائیں۔ لیکن اگر منشیات کی لعنت کو سماج سے جڑ سے اکھاڑنا ہے تو اس کے لئے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سب سے پہلی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کا  مکمل خیال رکھیں اور انھیں سختی سے غلط سوسائٹی میں پڑنے سے روک لیا کریں۔ والدین اپنے بچوں کی حرکات پر نظر رکھیں کہ ہمارے بچوں کا اٹھنا بیٹھنا اور کھیلنا کودنا کن کے ساتھ ہیں۔ دوسری ذمہ داری ہر  محلے، بستی اور علاقے کے معزز افراد کی ہیں کہ وہ منشیات کی روک تھام کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے۔ یہ کمیٹیاں اپنے بستیوں میں گہری نظر رکھیں کہ ہماری بستیوں میں کہیں ایسے عناصر موجود تو نہیں ہیں، جو معصوم نوجوانوں کو منشیات کی لعنت کی طرف مائل کرتے ہیں۔ تیسری ذمہ داری ہمارے علماء اور مولوی حضرات کی ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ جمعہ خطبات میں لوگوں کو منشیات کے دنیوی اور اخروی نقصانات سے آگاہ کریں۔الغرض اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ منشیات کے خلاف ایک زور دار مہم چلائی جائے ، جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شرکت کریں۔ تبھی ہم منشیات کی لعنت سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ آخر پر اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے سماج کو اس لعنت سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
رابطہ :نیو کالونی، یاری کلان، چاڈورہ کشمیر
6005707791