بشارت بشیر
ذو القعدہ کی آمد کے ساتھ ہی ذالحجہ کے شایان ِ شان استقبال کے لئے دنیائے اسلام جوش وجذبے میں ڈوبا نظرآرہاہے ۔ ابھی سے دنیا کے ہر گوشے سے اقبال مندانِ ازلی گروہ در گروہ کعبتہ اللہ کے گرد پروانہ وار جمع ہورہے ہیں ،مشتاقانِ دید پورے شوق وانہماک کے ساتھ ارض القرآن میں جوق درجوق وارد ہورہے ہیں، اللہ کے اس مبارک گھر کی زیارت و طواف اور سعی کے لئے اور لبیک کی صداؤں کیلئے وہ دیوانہ وارچلے آرہے ہیں ۔ یہ سلسلہ کعبتہ اللہ کی تاسیں سے قیام قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔کون سا اہل ِ ایمان ہوگا جس کا دِل اس خواہش کو لے کر بے قرار نہیں کہ کم از کم زندگی میں ایک بار حج بیت اللہ کی سعادت اُسے حاصل ہو۔یہ تمنا دِل میں لئے اَن گنت لوگ سفر آخرت پر روانہ ہوئے اور بے شمار خوش نصیبوں کی یہ مراد حین حیات میں بر آئی ۔اس مقدس گھر کے جوار میں صرف ہزاروں برس سے جاری زم زم ہی تشنہ کامانِ حق کی پیاس نہیں بجھا رہا ہے بلکہ ازلی و ابدی ہدایت کا سرچشمۂ نور بھی یہاں متلاشیانِ حق کو فیض یاب و سیراب کررہا ہے۔ارشادِ ربانی ہے۔’’بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لئے تعمیر ہوئی ہے، وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے ،اس کو برکت دی گئی اور تمام جہانوں کے لئے مرکز ہدایت بنایا گیا ،اس میںکھلی نشانیاں ہیں‘‘۔ان آیات میں اطاعت وبندگی ،وفاداری و جاں نثاری کے وہ نقش ونگار ہیں جو رُشد و ہدایت کے امام ِالناس سیدنا ابراہیم ؑ نے یہاں کے درودیوار میں ثبت کئے اور اس مقدس گھر کی تعمیر جس پیغمبرانہ جلال اور موحدانہ خلوص سے عظیم باپ اور سعادت مند فرزند( سیدنا اسمعٰیلؑ) نے کی ،اُسے اس حد تک بارگاہ الہٰیہ میں شرف ِ قبولیت حاصل ہوا کہ جب تک آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہو ،راہ رواں حق ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہر خطہ زمین سے کھینچ کھینچ کے یہاں آکے مستانہ وار کعبے کے گرد گھومنے اور طواف کرنے کا لذیذ عمل جاری رکھیں گے ۔بیت اللہ ۔۔۔ہاں مرکز امن و امان ،جو بھی اس میں داخل ہوا محفوظ و مامون ہوا (آل عمران)
یہ بات قرآن مجید میں الم نشرح ہے کہ سیدنا ابراہیم ؑ حنیف تھے،یک رو بھی اور اپنے توحیدی مشن کے ساتھ یکسو اور وعدہ بندبھی۔آپؑ نے ماسوا اللہ سے کٹتے ہوئے اللہ سے رشتہ جوڑ کر وفاداری اور اطاعت کی جو بے مثال تاریخ رقم کی ،اُس کا حرف حرف تاباں اور لفظ لفظ درخشندہ ہے۔ آپ نے ؑحیاتِ مستعار کا رُخ کلی طور اللہ کی جانب موڑ لیا ،اُسے ہی طلب و سعی کا مرکز بنالیا ،اسی پر اپنی مبارک نگاہیں مرکوز کرلیں ،جاں و تن سب اُسی کے سپرد کرلیا تھا ، والد سے والہانہ رشتہ ،وطن کی محبتیں ،گھر ،زوجہ محترمہ ،فرزند دل بندغرض اپنی ساری دنیا اور متاع ِحیات صرف اُسی کے حصول رضا کے لئے وقف کی …..مولا کے ہر ارشاد کی تعمیل میں ہر آن مستعد رہے۔نار ِ نمرود میں کودنے کا ارشاد ہو ،وطن مالوف چھوڑنے کا حکم ہو،باپ کے لئے استغفار تک ترک کرنے کی ہدایت ہو یا اپنی عفت مآب شریک حیات اور شیر خوار بیٹے کو وادی ٔغیر ذی زرع میں عالم تنہائی میں چھوڑنے کا حکم ہو ،کعبہ کی تعمیر کا ارشاد ہو یا شباب کی دہلیز پر کھڑے جوانِ رعنا فرزند کی قربانی کا حکم ۔۔۔ہر آن لبیک اللھٰم لبیک کی عملی صدائیں اُن کے روح و دِل سے نکل کر تعمیل وتکمیل کی ایک لازوال تاریخ رقم رتی رہیں۔حیرت کا عالم یہ کہ کسی بھی حکم کے تعلق سے اُس کی علت اور صِلہ و بدلہ کے بارے میں بھی کوئی سوال نہیںکیا بلکہ بے چوں وچرا ع ’’ سر تسلیم ِ خم ہے جو مزاج یار میں آئے‘‘ للہیت و عبدیت کی ایک ایسی تابناک سنت وضع کی کہ دنیا ئے محبت آج بھی سر دُھن رہی ہے اور َوالذین َا ٓمنو اشدُ حُبا للہ کی اس عملی تصویر و تفسیر کو دیکھ کر ہر زمین و زمن سے سلامُ‘ علیٰ ابراہیم کی صدائیں سُنائی دے رہی ہیں۔
بیت اللہ۔۔۔ رب ِجلیل کا آزاد و آباد وشاداب گھر ۔۔۔اس گھر کی تعمیر کا حکم دینے والے اللہ تبارک وتعالیٰ نے پہلے ہی اس بات سے آگاہ کردیا تھا کہ میری بندگی میں کسی کو شریک و سہیم نہ بنانا (الحج)اور جواب میں اس پیکر خلوص و وفا پیغمبر ؑنے کہا: ’’ہماری ذریت بھی تیری ہی فرمانبردار رہے‘‘اور اس مقدس گھر کی تعمیر کے دوران یہ دعا و مناجات لب ہائے مبارک پر تھی :’’اے ہمارے رب !ہم سے ہماری یہ خدمت قبول فرما،تو سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘اس گھر کے طواف کے ساتھ ساتھ حج کے جملہ مناسک میں حکمتوں کا ایک خزینہ مخفی ہے ۔یہ صفا و مروہ کا قرنوں سے چلا آرہا راہِ روان ِراہِ حق کی بھاگم دوڑ بھی کچھ یوں ہی نہیں بلکہ ایک عظیم المرتبت خاتون( بی بی ہاجرہؑ) کی اُس بے قراری کا برملا اظہار بھی ہے جو اپنے معصوم اور شیر خوار بچے کی تشنہ لبی کو برداشت نہ کرتے ہوئے تلاشِ آب میں اِدھر سے اُدھر اور وہاں سے یہاں عالم ِاضطراب میں سعی کررہی ہیں، انہیں رضائے ربانی کے حصول کے لئے اپنے شوہر نامدار ابراہیم خلیل اللہ ؑ نے اس لق و دق صحرا میں یکہ و تنہا چھوڑاتو نہ صرف یہ کہ جبین ِ نازپہ کوئی شکن تک نہ لائی بلکہ اس فیصلہ پر مطمٔن اور فرحاں و شاداں رہے ۔ اندازہ کیجئے شوہر نامدار اس لق ودق صحرا میں چھوڑ کے جار ہے ہیں ،پلٹ کر دیکھنے کی اجازت نہیں ،پلٹ کر دیکھ لیتے تو شاید شفقت ِپدری غالب آجاتی اور سیدہ ہاجرہؑ کی درماندگی بحر قلب میں تلاطم بپا کردیتی ،آپ ؑ تو تھے ہی رقیق القلب ،(وہ قلب مبارک جس کی مدح سرائی قرآن کرتا ہے )شوہر نامدار باذن اللہ جار ہے ہیں اور وفا شعار اہلیہ محترمہ بس اتنا پوچھنے پر اکتفا کرتی ہے کہ کیا ایسا کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہے؟سیدنا ابراہیم ؑ کے یک لفظی جواب ’’ہاں‘‘نے قلب ِہاجرہ کو سکینت ومصابرت اور اطمینان کی دولت سے مالا مال کردیا ،پھر ایمان و ایقان کی دولت نے ایسا کو ہِ استقامت بنا کے رکھ دیا، فرمایا پھر کوئی غم نہیں ’’اللہ ہمیں ہلاک نہیں کرے گا‘‘۔ حب ِ الٰہی سے سرشار ا س مادر ملت کی صفا و مروہ کے درمیان مضطربانہ دوڑ دھوپ اور اُچھل کودمولا کو اتنی بھائی ،اِسے اس قدر عرش ِالٰہی سے سند قبولیت حاصل ہوئی کہ قیامت تک آنے والے عمرہ و حج کے سعادت کے حصول کے خواہش مند کے لئے یہ دوڑ اور اسی انداز کی دوڑ لازمی قرار پائی ،آنے والا میر و فقیر ہو شاہ و گدا،اس ادائے ہاجرہؑ کو دہرانا حج کی ذمہ داریوں اور فرائض میں گردانا گیا ۔ ایک لطیف اور غور طلب نکتہ یہ ہے کہ کعبے کا طواف خلیل اللہ ؑ اور ذبیح اللہ ؑ سے منسوب ہوجب کہ سعی صفا ومروہ بی بی ہاجرہؑ کے نام لکھا گیا۔ اس نازک نکتے پر ان سرپھروں کو غور کرنا چاہیے جو اہل اسلام میں طبقہ ٔ نسواں کے ساتھ امتیاز بر تنے کی پھبتی کستے ہیں ۔
ہاجرہ ؑ۔۔۔اپنے شیر خوار بچے ( اسمعیلؑ) کے ساتھ صحرا و بیاباں میں ہیں، بھیانک اور ڈراؤنی راتیں ہیں ،شدت کی گرمیاں ہیںاور موذی جانوروں کے خطرات ہیں ، خوراک ناپید ہے ، لیکن قلب ِ مطمئنہ والی یہ امت کی ماں اس قدر دنیا و مافیہا کی فکروں سے آزاد، اپنے مولا پر اس قدر توکل واعتماد کہ کوئی سبیل ضرور پیدا ہوگی اور یہی یقین و توکل کی دولت تھی کہ چاہ ِزمزم پھوٹ پڑا اور اتنا بے تابانہ اور بے محابہ پھوٹ پڑا کہ رکنے کانام نہ لیا، تب سے اب تک تشنہ کاموں کی سیرابی ہورہی ہے اور ہوتی رہے گی۔اس سعی کا پیام واضح طور پر آج بھی یہ سنائی دے رہا ہے کہ جب بندگانِ خدا بس اپنے کو کامل طور اُس کے سپرد کریں،دِلوں کی دنیا کے لئے ماسواء اللہ کے لئے کوئی جگہ نہ رکھیں اور بس اُسے ہی آرزئووں اور اُمیدوں کا مرکز و محور بنائیں تو پھر انسانی عقل و فہم کو حیران کرنے والی امداد ونصرت مقدر بن کے رہ جاتی ہے۔من کان للہ کان ا للہ لہ(جو اللہ کا ہوا، اللہ اس کا ہوجاتا ہے)کا ارشاد اس سبق کو تر وتازہ کررہا ہے ۔
مسلم اُمہ آج جس گرد آب بلا میں پھنس چکی ہے ،بے کسی اور بے بسی کا عالم ہے،غیر یقینی صورت حال ہے، تو کیا ابراہیم ؑ و ہاجرہ ؑ کی طرح اللہ پر کامل توکل و اعتماد کئے بغیر گلو خلاصی ہوگی ؟اُس کی اطاعت کا قلادہ گردن میں ڈالے بغیر ،اُسے عظمت ِ رفتہ حاصل ہوجائے گی ؟کیا یہ ممکن ہے؟ہمارے حالات کیسے بدلیں گے ؟پتھریلے اور سنگلاخ معاشروں میںصالحیت اور نیکیوں کے چشمے کیسے پھوٹیں گے ؟کمزورکاوشیں کیسے پروان چڑھیں گی ؟ آخر یہ ہمیں ہو کیا گیا ہے ؟؟؟ذہن نشین رہے کہ وہ مولا جو سنگلاخ زمین سے زم زم کا چشمہ جاری کرسکتا ہے، آج کیوں ہمارے دلوں سے محبت ،مودت اور اخوت کے دریا بہا نہیں سکتا ؟اصل میں ہم سے جو اخلاص و وفا مطلوب تھی ،وہ ہم میں مفقود ہوئی ہے۔یاد رہے انتشار و افتراق کی سے زمین کے نیچے راحت،امن ،سکون ، مودت، محبت کا سرچشمہ تو موجود ہے لیکن ہم اسے ایک ساتھ نکالنے ،کھوجنے اور دھونڈنے کی سعی توکریں نا ۔ہماری پہچان بس ایک مسلم کی ہے ( اور یہ نام اور شناخت بھی ہمیں ابراہیم خلیل اللہ ؑکے طفیل ملاہے ) ،ہم نہ عجمی ہیں نہ عربی،کالے نہ گورے کیونکہ ان نسبتوں میں کوئی عزت و وقار نہیں اور اللہ کے یہاں وہی قوم سرفراز و سر بلند جو اُس کے رنگ ( صبغۃ اللہ)میںرنگ جائے اور بس۔
بیت اللہ تو ایک شعائر اللہ ہے ،علامت ِ وحدت ہے ،مرکز ِ دِل اور مطلوب و مقصود تو صرف اللہ ہے اور مشیت الٰہی یوں بیان کی گئی ہے،ترجمہ:’’جو اللہ کے دامن کو مضبوطی سے تھامے گا وہی راہِ راست پائے گا ‘‘(آل عمران۱۰۱۔۳)۔
حاصل کلام یہ کہ مشتاقان ِدید کے قافلوں کے قافلے ارض مبارک کی جانب روں دواں ہیں ،منیٰ عرفات ،مزدلفہ میں قیام اور رمی جمار کا عمل ہمیں نفس کے بے لگام گھوڑے کو لگام دینے کچھ اختلافات کے باوجود اکٹھے رہنے اور ہر آن شیطانی شرور سے آگاہ رہ کر ان سے بچنے کا سامان کرنے کا درس زریں فراہم کرتے ہیں ،اس سفر میمون پر روانہ ہونے والوں کو یہ روانگی ہر لحاظ سے مبارک ہو اور ان کی واپسی بھی اس انداز سے ہو کہ سرتاپا سے ایمان کی انقلاب انگیز تبدیلیاں ان کی سیرتوں سے صاف جھلک جھلک رہی ہوں اور رمی جمرات کا عمل تو بس اسی بات کا تقاضا کرتا ہے کہ شیطان جو ہمارا ازلی حریف ہے، اس سے بچائو کا ہر سامان کرنے کے ساتھ ساتھ تازیست اس کے خلاف نبر آزما رہیں گے اور واپسی پر پھر اس دشمن سے مقابلہ ہوگا ۔یاد رہے شیطا ن ِ مردود زاہد پہ زہُد کے طریقے سے ،عالم پر علم کے دروازے سے اور جاہل پر جہالت کے راستے سے چھپ کر وار کرتا ہے اور یوں اپنے اصل ہدف تک دل پسند طریقے سے پہنچتا ہے۔عالم عرب کے ایک نامور مفکر نے اس کے ہتھکنڈوں کو کس بھلے انداز میں بیان کیا ہے:
(۱)کہ یہ مسلمانوں کے درمیان لڑائی جھگڑے اور فتنے پیدا کردیتا ہے ،وہ بدگمانی پھیلاکربغض نفرت اور اختلاف پیدا کردیتا ہے(۲)وہ بدعات کو خوش نما بناتا ہے ،وہ ’’جدید عبادت ‘‘کے نام پر مسلمانوں کو اُکساتا ہے۔(۳)تاخیر ۔وہ سنجیدہ اور با مقصد کام کرنے والوں کو تاخیر پر آمادہ کرتا ہے ،نیکی کرنے والوں سے کہتا ہے کہ بعد میں کرلینا ،وہ سستی اور کاہلی پر اُکساتا ہے۔(۴) تکبر و غرور، یہ شیطان کی ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے وہ جنت سے نکالا گیا ۔(۵)شک۔شیطان انسان کو شک میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ نیکی ترک کریں۔(۶)ڈرانا۔ اہل ایمان کو اپنے لشکروں ،پیرو کاروں اور ساتھیوں سے ڈراتا رہتا ہے ،وہ صدقہ،خیرات کرنے والوں کو ڈراتا رہتا ہے کہ تم نادار ہوجائو گے۔(جاری)
(رابطہ۔7006055300)
m basharat bashir @ yahoo .com
���������������������