سفر نامہ امریکہ 3

چند  دن ایریزونا کے شہروں فینیکس اور ٹمپے میں گزارنے کے بعد لاس اینجلیس جانے کا پروگرام بنا۔یہ کیلی فورنیا ریاست کا ایک اہم شہر ہے ۔ فینکس شہر اور لاس اینجلیس کو ملانے کے لئے شاہراہ موجود ہے ۔یہ شاہراہیں جدید خطوط پر تیار کی گئی ہیں جن پر سفر کافی آسانی سے طے ہوتا ہے ۔ان پر چلنے والی بسیں آرام دہ ہیں اور ان میں ٹائلٹ کی سہولیات بھی میسر ہیں۔اس قسم کی شاہراہوں کی تعمیر اب بھارت میں ہونے لگی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ اور بھارت میں ترقی کے لحاظ سے کتنا فرق ہے۔اس شاہراہ پر مختلف جگہوں پر تھوڑی دیر سستانے اور کھانے پینے کے شفاف اسٹال موجود ہیں جب کہ بھارتی شاہراہوں پر یہ سہولیات بڑے ہی بھونڈے طریقے پر موجود ہیں۔ یہاںخود بس اسٹیشنوں پر صفائی ستھرائی کا اعلیٰ انتظام ہے اور بس ٹکٹ آن لائن بھی دستیاب ہوتی ہے بلکہ اس پر چند ڈالر کی رعایت بھی ملتی ہے ۔وقت پر بس اپنے نمبر پر لگتی ہے اور قطار میں مسافر کھڑے ہوکر بس میں سوار ہوتے ہیں۔گرے ہائونڈ نامی بس سروس میں لاس اینجلیس تک کا سفر چار گھنٹے میں طے ہوا جس کے دوران ایک دو جگہ چائے وغیرہ پینے کے لئے میسر تھے۔راستے میں ہوا کے زور سے بجلی پیدا کرنے کا پلانٹ نظر آیا جس پر بڑے بڑے ستونوں پر پنکھے ہوا سے گھومتے ہیں اور بجلی پیدا کرتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک کی یہی خاصیت ہے کہ وہ کسی بھی چیز سے فائدہ اٹھانے کا ہنر جانتے ہیں۔بھارت کے ایک دو ساحلی شہروں پر پون بجلی کے پلانٹ موجود ہیں تاہم یہاں اب بھی پن بجلی سے ہی کام لیا جاتا ہے۔ 
سہ پہر لاس اینجلیس شہر پہنچے ۔یہاں بس اسٹینڈ کے علاقے میں کہیں کہیں گندگی بکھری نظر آئی ۔جہاں تک مجھے یاد ہے بس اسی جگہ تھوڑا بہت کوڑا کرکٹ پورے سفر کے دوران دیکھنے کو ملا بلکہ بعض جگہوں پر سڑکوں کی اوپری سط  تھوڑی بہت ٹوٹی پھوٹی بھی تھی۔ اوبر ٹیکسی بلا کر ہوٹل پہنچے جو پہلے سے آن لائن بک گیا تھا۔لاس اینجلیس شہر ہالی وڈ فلم انڈسٹری کے لئے مشہور ہے ۔اس علاقے میں فلمی ستاروں کی رہایش گاہیں ، فلمی اسٹیڈیو، فلموں سے وابستہ میوزیم موجود ہیں۔یہاں فلمی ستاروں کی حسین اور چٹپٹی کہانیاں بڑے شوق سے سنی اور سنائی جاتی ہیں۔جس علاقے سے بھی گزر ہو اس میں یہ خبریں آتی ہیں کہ اس جگہ فلاں فلم کی شوٹنگ ہوئی، فلاں فلمی ستاروں کا رومانس پروان چڑھا، فلم سے وابستہ لوگوں کی رہایش گاہیں موجود ہیں ۔ایک دلچسپ کہانی ایک معروف فلم ایکٹرس سے متعلق ہے کہ اپنے شوہر کے ساتھ شادی کا بوسہ لیتے ہوئے اس نے اعلان کیا کہ کوئی میری ماں کو بتائے کہ میں زندگی بھر اس آدمی کے ساتھ بندھ گئی ہوں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ شادی فقط تین مہینے چلی۔ ٹراؤل ایجنٹوں نے جہاں شہر دکھانے کا پروگرام ترتیب دیا ہے ،وہیں فلموں سے وابستہ افراد کے رہایشی علاقوں کی سیر کا بھی الگ سے انتظام ہے ۔ سیاح کو للچانے کے لئے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ فلمی ستارے ہاتھ ہلا کر اپنے مداحوں کا شوق پورا کرتے ہیں۔مجھے یہ سن کر یاد آیا کہ ممبئی فلم نگری سے وابستہ اہم ستارے امیتابھ بچن، شاہ رخ خان ، سلمان وغیرہ بھی اپنے بنگلوں کی بالکونیوں پر نمودار ہوکر اپنے مداحوں کی طرف ہاتھ وغیرہ ہلا کر انہیں خوش کرتے ہیں۔اگرچہ میں اور میرا بیٹا فلموں سے متعلق جانکاری رکھتے ہیں لیکن کسی اداکار کے گھر کے سامنے کھڑا ہوکر انتظار کرنا کسی بھی صورت ہمیں منظور نہیں، اس لئے فلمی علاقے کے ٹور کا کوئی ٹکٹ ہم نے نہیں لیا۔اس علاقے میں بیورلے ہلز وسطی علاقے میں ہے ۔یہ علاقہ ہالی وڈ فلمی ستاروں کے زر کثیر خرچ کرکے تعمیر کردہ بنگلوں کی آماج گاہ ہے۔دوسرے دن شہر کے وسط میں تجارتی علاقے میں پہنچ کر ہم نے سٹی ٹو رکا ٹکٹ لیا اور دو منزلہ بس میں بیٹھ کر شہر گھومنے نکلے ۔ان بسوں میں کانوں میں صوتی مشین لگا کر کومنٹری سنتے رہے اور اہم معلومات برقی طور فراہم ہوتی رہی۔ اس لئے کسی موجود گائڈ کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔اس دوران میڈم تسوداس میوزیم جانے کا موقع بھی ملا جہاں عالمی سطح کی منفرد شخصیات کے مومی مجسمے موجود ہیں ۔اس میوزیم میں جانے کا ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے کیونکہ امریکہ میں شاید ہی کوئی چیز مفت ملتی ہے۔مومی مجسموں کے ساتھ کھڑے ہوکر فوٹو لینے کا رواج عام ہے لیکن ہمیں اس شوق نے کبھی دل نہ چرایا کہ ہم کسی شخص کے مومی مجسمے کے ساتھ کھڑے ہونے کے لئے پندرہ بیس ڈالر خرچ کریں۔میری سوچ یہ ہے کہ جن اشخاص کے مومی مجسمے وہاں موجود ہیں، شاید ہم بالمشافہ ملاقات کے وقت بھی ہم ان کے ساتھ فوٹو کھینچنے کی خواہش ظاہر نہ کریں پھر مجسمے کی بات ہی کہاں ۔میوزیم کے باہر ایک دو مجسمے کھڑے تھے انہیں دیکھ کر اندازہ لگایا کہ موجودہ زمانے میں کس طرح لوگ پیسہ کمانے کا ذریعہ پیدا کرسکتے ہیں۔ 
امریکی انتظامیہ کے بارے میں عالمی سطح پر شکایات، بغض اور نفرت پائی جاتی ہیں جس کے لئے امریکی سرکار کی چودھراہٹ بڑے پیمانے پر ذمہ دار ہے لیکن خود امریکی باشندے ملنسار ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بڑے تپاک اور خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں۔سامنے سے آنے والوں کی طرف سے ہنستے ہوئے سر ہلا کر سلام کرنا عام سی بات ہے۔ یہ لوگ کسی بھی طبقے کے ساتھ جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ایسا ہی نظارہ لاس اینجلیس شہر میں دیکھنے کو ملتا ہے جہاں ایک بڑے حصے میں گلابی رنگ چار سو نظر آتا ہے۔مکانات کی دیواروں ، دوکانات کے بورڈوں اور دیگر تنصیبات پر گلابی رنگ چھا یا نظر آتا ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے میںہم جنس پرست اور مخنث لوگ رہایش پذیر ہیں ۔ اسلامی قانون اور ہندو عقائد کے تحت ہم جنس پرستی بد فعلی ہے اور مستوجب سزا فعل بھی لیکن امریکی قوانین کے مطابق ہم جنس پرستی کوئی جرم نہیں ۔ اس سلسلے میں بھارت میں بھی بڑے پیمانے پر تحریک چلی ہے اور یہ کیس اس وقت بھی عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے بلکہ چند ہفتے پہلے اس سلسلے میں عدالت نے دفعہ۳۷۷ میں کچھ حد تک نرم رویے کا مظاہرہ کیا تھا۔اگرچہ ہماری دنیا میں ہم جنس پرستوں اور مخنث لوگوں کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور جگہ جگہ انہیں تضحیک کا نشانہ بننا پڑتا ہے لیکن امریکی باشندے انہیں اپنی ہی طرح زندہ جاوید افراد سمجھتے ہیں اور ان کے لئے کوئی مصیبت کھڑا کرتے ہیں نہ ان سے نفرت کر تے ہیں۔ 
برہان وانی 
امریکی باشندے عام طور پر برگر وغیرہ شوق سے کھاتے ہیں جو ایشائی ممالک کے افراد زیادہ پسند نہیں کرتے۔اس لئے ہم جگہ جگہ ہندوستانی، پاکستانی، لبنانی وغیرہ ریستوران گوگل میپ کے ذریعے ڈھونڈتے ۔نزدیک ہونے کی صورت میں گوگل سے ہی پتہ پوچھتے وہاں پہنچ جاتے۔وہاں کی انتظامیہ نے دیواروں پر یہ نوٹس چسپان کیا ہوتا ہے کہ یہاں حلال گوشت دستیاب ہے ۔امریکی انتظامیہ باشندگان ِ ملک کی صحت سے متعلق کافی ہوشیار اور چوکنا ہے ۔جہاں ہر ایک کھانے کی چیز پر کیلورک ویلو caloric value کی باضابط معلومات پرنٹ ہوتی ہیں ، وہیں میونسپل اداروں کے افسران باقاعدگی سے ہر ریستوران کے باورچی خانے کا معائینہ کرتے ہیں ۔ شفاف کچن کی صورت میں متعلقین سے A  سند جاری ہوتی ہے جو ریستوان کی دیوار پر چسپان کرنا ضروری ہوتا ہے۔ایسے ہی ایک ریستوران میں ہم کھانا کھانے گئے ، بعد ازاںبل ادا کرنے کی غرض سے میں نے کریڈٹ کار ڈ منیجر کی اور بڑھایا ۔میرے نام کے ساتھ وانی پڑھ کر اس نے سوال پوچھا کہ کیا وانی کوئی قبیلہ ہے ؟میں نے وانی ذات کے بارے میں بتایا کہ کشمیر میںیہ لوگ دراصل تجارت پیشہ افراد تھے۔اس نے فوراً برہان وانی کا ذکر چھیڑا ،شاید اسی وجہ سے اسے وانی لفظ میں دلچسپی پیدا ہوگئی تھی ۔برہان کے بارے میں سرسری تفصیل سنتے ہوئے اس نے کہا کہ میں نے برہان کے بارے میں چھپنے والے کئی ایک مضامین پڑھے ہیں ۔امریکہ میںمقیم کسی باشندے کے منہ سے یہ سن کر پتہ چلا کہ کئی ایک امریکی مسلٔہ کشمیر کے حوالے سے کافی دلچسپی لیتے ہیں۔
امریکی ریستورانوں میں ویٹروں کو ٹپ دینے کا بہت رواج ہے ۔بل بناتے ہوئے وہ خریدار کے سامنے رکھتے ہیں جس میں ٹِپ کے طور پندرہ، بیس، پچیس فیصد اضافہ کرنے کا کالم بھی ہوتا ہے ۔اس سلسلے میں دو باتیں پتہ چلیں:ایک یہ کہ امریکی خوشی خوشی ٹِپ دینے کے عادی ہیں بلکہ لوگ اس حد تک کہتے ہیں کہ اگر آپ ٹِپ دینے کی سکت نہیں رکھتے تو آپ کو ریستوران میں کھانے سے گریز کرنا چاہئے۔ایک اور واقعے میں پندرہ فیصد ٹِپ رکھنے کے باوجود خاتون ویٹر نے خریدار سے سوال کیا: کیا آپ کو میری سروس پسند نہیں آئی کہ فقط پندرہ فیصد ٹِپ دے دیا؟تاہم ہم اپنی استطاعت کے مطابق ایک ڈالر تک ہی ٹِپ دیتے یا کچھ بھی دینے سے کتراتے۔ 
بحر الکاہل کی کوسٹ لائن پر میلوں لمبا سنٹا مونیکا بیچ مقامی اور غیر ملکی سیاحوں میں کافی مقبول ہے۔یہاں کا دوہرے جوائنٹ والا ستون کوئی سو سال پرانا ہے اور اس کے اوپر لکڑی کے تختوں سے بنائی گئی آرام گاہ پر اشیائے خورد و نوش وافر مقدار میں مہیا ہیں اور نیچے پانی میں سینکڑوں لوگ تیراکی کرتے ہیں۔ قریب کی ایک پارک بحر کے کنارے پر واقع ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ روزانہ ہزاروں افراد کی موجودگی کے باوجود کہیں بھی سمندر میں کوئی آلودگی پھیلانے والی چیزیں پھینکی نہیں جاتیں۔ یہ عوام الناس کے شعور وسنجیدگی کا عالم ہے۔
بحر الکاہل کا لانگ بیچ علاقہ کافی مشہور ہے ۔یہاں جانے کا پروگرام بنا تھا ۔شراکت داری میں ایک خاتون کے ساتھ اوبر ٹیکسی میں جانے کا موقع ملا۔ڈرائیور ہر ایک مسافر سے باتیں کرتا ،ان کے مسکن سے متعلق دریافت کرتا ۔ہم نے جب کشمیر کا ذکر چھیڑا تو اتنی سی معلومات دی کہ یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک ریاست ہے اور یہاں مظاہروں اور تشدد کے حوالے سے آئے روز خبریں آتی رہتی ہیں۔گاڑی میں بیٹھنے کے کچھ دیر بعد ایک خاتون بھی آ بیٹھی جس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ڈرائیور نے یوم ِمادر کا ذکر چھیڑا اور یہ بھی بتایا کہ میں نے آج ماں کے ساتھ کس طرح دن کی شروعات کی ۔
"کیا تم ماں ہو ؟" اس نے خاتون مسافر سے پوچھا ۔
"میری پاس ایک کتا ہے"جوان سال خاتون نے جواب دیا ۔
اگرچہ ہم اس کے جواب پر مسکرائے لیکن جیسے پہلے ہی بتایا کہ امریکی کتے کو اپنے کنبے کا حصہ مانتے ہیں، اس لئے حیرانگی کی کوئی بات نہیں ۔
لانگ بیچ کا علاقہ وسیع ہے اور اس کے کناروں پر بڑے بڑے عالیشان ہوٹل اور تجارتی ادارے موجود ہیں۔ یہاں درمیانی درجے کے آبی جہازوں میں دور سمندر میں جا کر لطف اٹھایا جاتا ہے۔مزہ تو تب آتا ہے جب بیچ پانی بلیو وہیل مچھلی اور ڈالفن مچھلیاں اٹھکیلیاں کرتی دَکھتی ہیں۔ان مچھلیوں کے بارے میں سائینسی تفصیلات دینے کے لئے جہازی عملے میں ایک خاتون ماہر علم الحیوانات موجود تھی جو مسلسل لائوڈ اسپیکر پر ان مچھلیوں کے بود و باش کے بارے میں دلچسپ معلومات فراہم کر رہی تھی۔بلیو وھیل آبی حیوان ہے اور دنیا کا سب سے بھاری حیوان مانا جاتا ہے۔نر وھیل کی لمبائی قریب تیس میٹر ہوتی ہے جب کہ مادہ کی لمبائی پچیس میٹر کے آس پاس ہوتی ہے۔ وھیل کا وزن ایک سو چالیس ٹن ہوتا ہے۔اس کی زندگی اسی سے سو سال تک محیط ہوتی ہے۔یہ نصف کلو میٹر گہرائی تک ڈبکی لگاتی ہے تاہم کھانے پینے کے سلسلے میں کوئی سو میٹر تک اُچھلتے کودتے چلتی ہے۔بھاری بھر کم ہونے کے باوجود یہ چھوٹے چھوٹے آبی جانوروں اور مچھلیوں کو ہڑپ کر گزارہ کرتی ہے جس کے لئے اسے روزانہ چار کروڑ کیڑے درکار ہوتے ہیں۔تیرتے ہوئے اس کی رفتار آٹھ کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔اس کا دل ایک گاڑی کے وزن کے برابر ہوتا ہے اور اس کی زبان ایک بڑے ہاتھی کے وزن کے برابر ہوتی ہے جس پر ایک فٹ بال ٹیم کھڑا رہ سکتی ہے۔اس کی آواز زور دار ہوتی ہے جو یہ ساتھی جانوروں تک میلوں دور رابط کرنے میں استعمال کرتی ہے ۔اس کی آوا ز ایک سو اٹھاسی ڈسبل تک پہنچ سکتی ہے جب کہ ایک سو تیس ڈسبل انسانوں کے لئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔مادہ وھیل دو یا تین سال میں ایک بار بچہ جنتی ہے جو روزانہ پانچ سو لیٹر ماں کا دودھ پیتا ہے۔
ڈالفن مچھلیاں دو میٹر سے دس میٹر تک لمبی ہوتی ہیں جب کہ ان کا وزن پچاس کلو سے دس ٹن تک ہوتا ہے۔ان کی رفتار پچپن کلو میٹر فی گھنٹہ ہو سکتی ہے۔ڈالفن بھی دو سال میں بچہ جنتی ہے اور خوراک کے طور چھوٹی مچھلیوں اور آبی جانوروں پر گزارہ کرتی ہیں۔عام طور پر ڈالفن کی عمر چالیس سال ہوتی ہے۔اچانک مچھلیوں کے پانی سے باہر آکر اُچھل کود کا منظر دیکھ کر سیاح خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تصاویر کھینچ لیتے رہے۔کوئی اڑھائی گھنٹے کے اس سفر میں محسوس ہوا شاید سارے سفر میں یہی ایک سب سے زیادہ دلچسپ سفر تھا۔اس علاقے میں دور دور تک بڑے پلیٹ فارم تعمیر کئے گئے ہیں جو کہ اصل میں سمندر سے تیل نکالنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ ان رِگ پلیٹ فارموں پر اُتارنے کے لئے عملے کو ہیلی کاپٹر کا استعمال ہوتاہے اور چھوٹی کشتیوں کو بھی کام پر لگایا جاتا ہے۔
گرفتھ پارک ایک وسیع و عریض چڑیا گھر ہے جہاں انواع و اقسام کے پرندے اور دوسرے جانور رکھے گئے ہیں ۔ترقی یافتہ ممالک میں جانوروں کی رہایش کے لئے کس طرح اقدامات کئے جاتے ہیں، وہ یہاں معلوم ہوا۔ایک جگہ قریب قریب مکمل اندھیرا قائم کیا گیا ہے جہاں سیاح ہلکی روشی کے سبب ہی چل پھر سکتے ہیں ۔معلوم ہوا کہ بڑے خرگوشوں جیسے جانور اندھیرے میں ہی رہنے کے عادی ہیں، اس لئے ایسا ہی ماحول قائم کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے طریقے سے بود وباش اختیار کرپائیں۔کنگارو کے رہنے والے حصے کو آسٹریلیا نام دیا گیا ہے کیونکہ کنگارو اسی ملک کا باشندہ ہے۔بھارت سے منسلک ہرنی کو بھی یہاں رکھا گیا ہے۔رنگین سر اور گردن والا پرندہ بھی دلچسپی کا منظر تھا۔
لاس اینجلس شہری علاقے میں دلچسپی سے بھر پورٹار پٹس Tar Pits میوزیم ہے جس میںبرفانی عہد سے منسلک کئی حجریے Fossils موجود ہیں۔اس علاقے کی تاریخ دلچسپی سے خالی نہیں۔اصل میں اس کے نیچے سے کولتار موجود پایا گیاہے اور یہاں سے تیل نکالنے کا کام سالہا سال تک جاری رہا ۔اس سے پہلے یہاں نیچے گیس اور تیل موجود رہنے کے سبب بلبلے اٹھتے تھے اور آس پاس جانور پانی سمجھ کر اس جانب چلے جاتے ۔ تاہم دلدلی زمین ہونے کے سبب اس میں دھنستے چلے جاتے جو سینکڑوں سال گزرنے کے ساتھ فاسلز میں تبدیل ہوگئے۔آج بھی ان گڑھوںسے بدبو دار گیس خارج ہوتی ہے ۔ تفصیلات کے لئے ایک بڑا بورڈ نصب کیا گیا ہے جس پر لا برے اور ٹار پٹس میوزیم کی طرف سے آنے والوں کے لئے خوش آمدیدی ا لفاظ درج ہیں ۔مزید تفاصیل کے مطابق ٹار پٹس نے ہزاروں برس تک لاس اینجلس کے نباتات اور حیوانات کو ہڑپ لیا ہے ۔
(بقیہ اگلی سوموار کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)
(رابط[email protected]/9419009169  )