سرینگر //نچلی سطح پر ذہنی اور جسمانی طور معذور بچوں کیلئے سوپور میں 3سال قبل شروع کئے گئے سکول کو بند کر دیا گیا ہے اور سکول کی انتظامیہ ان بچوں کو تعلیم سے دوبارہ فیضاب کرنے کی تگ ودو میں لگی ہے لیکن لوگوں کے عطیہ پر کب تک سکول چلے، اس کو لیکر انتظامیہ پریشان ہے او ر حکومتی ا مداد کی طلب گار ہے ۔سوپور میں درد دل رکھنے والے کچھ لوگوں نے 3سال قبل ایسے بچوں کیلئے ’دا کامراز سکول‘ کھولا تھا اور اس کیلئے کچھ ایک لوگ عطیہ کر رہے تھے ،شروع میں اگرچہ سکول میں 20ایسے بچے داخل ہوئے، جو جسمانی اور ذہنی طور پر معذور تھے ،کچھ وقت تک ایسے بچوں کو سکول میں تعلیم تو دی گئی لیکن کورنا وائرس کی وبا ء کے پھیلنے کے بعد لگے لاک ڈائون کے نتیجے میں سکول کو بند کر دیا گیا اور پھر بچوں کو گھروں میں جا کر تعلیم دی جانے لگی ۔سکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سکول میں 12بچے ایسے ہیں جن کا داخلہ کرایا گیا تھا اور 10بچوں کو گھروں میں ہی تعلیم دی جاتی تھی لیکن کورونا وباء کے بعد معاشی بدحالی کے نتیجے میں سکول بند کر دیا گیا اور اب سکول کو دوبارہ سے کھولنے کیلئے چند ایک لوگوں نے دوبارہ سے کارروائی شروع کی ہے ۔سکول کے کاڈی نیٹر محمد اشرف نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس سکول کا قیام چند ایک لوگوں نے اس غرض سے عمل میں لایا تھا تاکہ علاقے کے معذور بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم دی جا سکے اور ان کو بھی سماج میں بولنے پڑھنے اور لکھنے کا حق دیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ بہت ہی محدود وسائل ہونے کے باوجود بھی سکول کو چلانے کی کوششیں ہوئی اور شروع میں اچھا ردعمل بھی ملا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکول بھی کورونا وائرس کی نظر ہو گیا اور مالی بدحالی کے نتیجے میں سکول کو بند کرنا پڑا۔،انہوں نے کہا کہ یہ سکول چند لوگوں کے عطیہ پر چلتا تھا اور سکول کیلئے سوپور بائی پاس پل کے نزدیک ایک عمارت جس میں دو کمرے اور ایک آفس ہے، خریدی گئی اور بچوں کی دیکھ بھال کیلئے ایک خاتون اور ایک استاد کو تعینات کیا گیا، جو اُن کی صحت کی دیکھ بال اور ان کو تعلیم دینے کا کام کرتے تھے ۔سکول کے جنرل سکریٹری بشیر احمد بٹ نے کہا کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کو گھر جا کر تعلیم دیتے ہیں اور ساتھ میں اُن کی ماہانہ طبی جانچ بھی کرائی جاتی ہے لیکن سکول میں درس وتدریس کا کام ٹھپ پڑا ہے اور اس کو دوبارہ سے کھولنے کیلئے حکومتی امداد اور لوگوں کی مدد کی انتظامیہ طلبگار ہے ۔بشیر نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ سکول میں اتنی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اپنی عمارت ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہم نے کوششیں کی تھیں ۔انہوں نے کہا کہ ایسے بچوں کیلئے سکولوں میں گرائونڈ ، ان کی جسمانی سرگرمیوں کیلئے ہال ، جم اور دیگر سہولیات ہونی چاہیے اور ساتھ میں ان کے ماہانہ طبی جانچ کیلئے بھی فنڈس ہونا چاہیے لیکن یہ سب سکول انتظامیہ کے پاس نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم حکومت تک پہنچ ہی نہیں پائے کیونکہ ہمیں کوئی راستہ ہی دکھائی نہیں دیا کہ ہم کیسے مدد مانگیں ۔انہوں نے کہا کہ سکول میں اپاہچ ، بہرے ، ذہنی طور پر معذور اور بولنے سے محروم قریب 20بچے زیر تعلیم تھے ۔انہوں نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ وہ سکول کو پھر سے بحال کریں لیکن اس کیلئے حکومتی امداد کے طلبگار ہیں۔