سرینگر+بڈگام+گاندربل+کنگن/ /پارلیمانی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں سرینگر شہر کے 8اسمبلی حلقوں میں پولنگ مراکز میں اکا دکا ووٹر نظر آئے تاہم کچھ علاقوں میں گروپوں کی شکل میں لوگ ووٹ ڈالنے کیلئے آتے رہے۔شہر کے پاین علاقوں میں بائیکاٹ کا خاصا اثر رہا البتہ مجموعی طور پر خاموشی چھائی رہی۔ پائین شہر کے قریب90پولنگ مراکز پر کوئی بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔ گاندربل اوربڈگام اضلاع کے کئی علاقوں میں لمبی قطاریں نظر آئیں۔پائین شہر کے بیشتر علاقوں میں رائے دہندگان نے ووٹ ڈالنے کی کوئی بھی دلچسپی نہیںدکھائی،تاہم ضلع کے فقیر گجری علاقے میں لوگوں میں گہماگہمی اور جوش و خروش نظر آیا۔ پائین شہر کے دولت آباد پولنگ مراکز پر ایک بوتھ میں شام4بجکر30منٹ پر702ووٹوں میں سے118اور دوسرے بوتھ پر748میں سے67ووٹ دالے گئے تھے۔اسی طرح سے اس کے بغل میں ریہ ٹینگ کے پولنگ مرکز پر812میں سے133ووٹ ڈالے گئے تھے۔ جڈی بل کے امامیہ اسکول میں قائم پولنگ مرکز پر شام5بجے کے قریب500ووٹ ڈالے گئے تھے۔ یہی صورتحال حول کے کرالہ پورہ میں بھی دیکھنے کو ملی جہاں129میں سے6بجے تک26ووٹ ڈالے گئے۔ایک طرف جہاں ان علاقوں میں کچھ ووٹنگ ہوئی،وہی شہر میں قریب90پولنگ مراکز پر کوئی بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔جن پولنگ مراکز پر کوئی بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا،وہ بیشتر عیدگاہ،خانیار،حبہ کدل اور بٹہ مالو اسمبلی حلقہ انتخابات کے حدود میں آتے ہیں۔ ۔ بمنہ میں کئی خواتین کو خاموشی کے ساتھ چہرے کو چھپائے ہوئے پولنگ بوتھ کے اند ر جاتے ہوئے دیکھا گیا جہاں وہ ووٹ کا استعمال کر ررہی تھیں۔اگر چہ یہاں لمبی یا چھوٹی قطاریں نہیں تھیں تاہم پولنگ بوتھ کے باہر اچھی خاصی گہما گہمی تھی اور ایک ایک دو دو کر کے لوگ ووٹ ڈال جارہے تھے۔سرینگر شہر کے بیرونی علاقوں میں اچھی خاصی تعداد میں ووٹ ڈالے گئے تاہم اندرونی علاقوں میں پولنگ بوتھ خالی رہے۔ضلع بڈگام میں کہیںخاموشی تو کہیںقطاریں نظر آئیں۔کرالہ پورہ کے ایک پولنگ مرکز پر صبح12بجے تک969میں سے4جبکہ دوسرے مرکز پر888میں سے12ووٹ ڈالے گئے تھے۔اسی طرح کی صورتحال واتھورہ کے ہائر اسکینڈری میں بھی دیکھنے کو ملی،جہاں اس وقت تک882ووٹوں میں سے صرف2ووٹ ڈالے گئے تھے۔ تاہم بڈگام کے کئی علاقوں میں اچھی خاصی ووٹنگ بھی ہو رہی تھی۔ بڈگام کے دیہی ترقی دفتر میں واقع پولنگ مرکز پر قریب ایک بجے تک542میں سے198ووٹ ڈالے گئے تھے،جبکہ دوسرے مرکز پر797میں سے161ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اسی طرح کی صورتحال بیروہ کے گنڈی پورہ علاقے میں بھی تھی جہاں قریب2بجے تک955ووٹوں میں سے474ووٹ ڈالے گئے تھے،جبکہ سنہ پاہ علاقے میں بھی جم کر ووٹنگ ہو رہی تھی۔ بڈگام کے وتر ونی علاقے میں بھی اچھی خاصی ووٹنگ کا نظارہ دیکھنے کو ملا،جس کے دوران937ووٹوں میں سے552ووٹ ڈالے گئے تھے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ تھا کہ بڈگام کے ہی نصرا للہ پورہ علاقے میں 3 بجے تک صرف2ووٹ ڈالے گئے تھے،جبکہ اس پولنگ مرکز پر کسی بھی جماعت کا کوئی بھی ایجنٹ بھی موجود نہیں تھا۔یہی صورتحال نزدیکی علاقے سوئیہ بگ کی بھی تھی۔ ادھر بڈگام کے رازوین علاقے میں 2بجے تک1432ووٹوں میں سے کوئی بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا تھا۔چاڑورہ، ناگام،چرار شریف، سرسیار،وانپورہ، اور دیگر کئی علاقوں میں اچھی خاصی ووٹنگ ہوئی البتہ کنہ دجن ، پکھر پورہ، کمرازی پورہ اور ملحقہ علاقوں میں اکا دکا ووٹ ہی پڑے۔خانصاحب میں اچھی طرح پولنگ ہوئی۔
گاندربل
سرینگر پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں گاندربل اور کنگن میں بائیکاٹ کا اثر بھی رہا،پولنگ اسٹیشنوں پر لمبی لمبی قطاریں بھی تھیں اور کہیں کہیں وقفہ وقفہ سے اکا دکا ووٹر آتے رہے۔ضلع گاندربل کے دو اسمبلی حلقوں میںکل 235 پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے تھے۔نونر گاندربل واحد ایسا گائوں ہے جہاں ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔یہاںگرلز ہائر سکنڈری سکول نونر میں 3پولنگ مراکز قائم کئے گئے تھے جن میں،1068،631،879ووٹ بلرتیب تھے۔یہاں کسی بھی پارٹی کا کوئی پولنگ ایجنٹ بھی نہیں تھا۔7 اپریل 2019 کو شوپیان جھڑپ میں نونر کا بی ٹیک طالب علم23 سالہ نوجوان راحیل رشید جاں بحق ہوا تھا۔ضلع کے 210پولنگ مراکز پر بھاجپا کا کوئی پولنگ ایجنٹ نہیں تھا، جبکہ 75مراکز میںپیپلز کانفرنس کا کوئی ایجنٹ نہیں دیکھا گیا۔چھتر گل اور کنگن ہائر سکنڈری سکول میں قائم کئے گئے پولنگ اسٹیشنوں پر جہاں گزشتہ سال گوہر احمد راتھر کنگن،عامر احمد لون چھترگل فورسز کی فائرنگ میں ہلاک ہوئے تھے، میں بائیکاٹ کا اثر رہا۔کنگن ہائر سکنڈری سکول میں چار پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے تھے جن میں ووٹوں کی کل تعداد 3830 تھی جن میں صرف 390 رائے دہندگان نے اپنے حق کا استعمال کیا،کنگن بازار میں بند دوکان کی سیڑھی پر بیٹھے ہوئے شبیر احمد نامی شہری نے کشمیر عظمی کو بتایا کہ "پارلیمانی انتخابات میں بائیکاٹ کا اثر اس لئے رہا کہ ہمیں پارلیمنٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،چونکہ گزشتہ سال گوہر احمد راتھر بے گناہ شہری کو پولیس نے ہلاک کردیا وہ زخم ابھی بھی تازہ ہیںاور آج ووٹ ممکن نہ تھا"۔بی ہامہ،تولہ مولہ،سالورہ ،دودرہامہ سمیت کچھ علاقوں میں بائیکاٹ کا ملا جلا اثر رہا جبکہ دیگر علاقوں ٹھیون کنگن،مرگنڈ،اکہال،لار،شالہ بگ سمیت دیگر علاقوں میں لمبی لمبی لائنیں دیکھنے کو ملیں جہاں مرد ووٹروں کے ساتھ ساتھ خواتین کی خاصی تعداد نے اپنے رائے دہی کا استعمال کیا۔گوٹلی باغ میں عبدالکریم خان جس کی عمر 100 سال 2 ماہ اور 4 دن تھی، اپنی تیسری پیڑی کے ہمراہ ووٹ ڈالنے آیا ۔کنگن قصبے میں بائیکاٹ کا اثر رہا تاہم مامر، وانگت، بابا نگری، گگن گیر،سرفراو،گنہ ون میں لمبی قطاریں تھیں جبکہ دیگر علاقوں میں اگر چہ لائیں نہیں تھیں تاہم وقفے وقفے سے ووٹر آتے رہے۔گنہ ون بی ایسا واحد پولنگ مرکز ہے جہاں سب سے کم صرف7 ووٹ ڈالے گئے۔بعد دوپہرپولنگ مراکز پر عمر رسیدہ اور اپاہج ووٹروں کے لئے ویل چیر بھی دستیاب رکھے گئے۔ چھون اور مامر میں شام کے وقت پتھرائو ہوا جبکہ دن میںژیرہ ون پولنگ بوتھ پر پتھرائو کیا گیا۔