سرینگر اور جموں شہر۔۔۔۔۔ نئی وسعتیں نئی ضرورتیں!

  شہروں اور قصبہ جات کا نقشہ بدلنے کیلئے2005میں قومی سطح پرجواہر لعل نہرو نیشنل اربن رنیول مشن نامی سکیم، جسے عرف عام میں جنورم کے نام سے پکاراجاتا تھا،شروع کی گئی جس کے تحت اب تک ملک کی تمام ریاستوں میں موجود بڑے شہروں اور مرکزی قصبوں کو جازب نظر بنانے اور تمام ترین جدید سہولیات سے لیس کرنے کیلئے کھربوں روپے خرچ کئے گئے اور یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس مشن نے ملک میں شہروں اور قصبوں کا نقشہ بدلنے میں اہم رول ادا کیااور آج نہ صرف اس مشن کی بدولت شہر و قصبے انتہائی خوشنما بن گئے ہیں بلکہ لوگوں کو کافی حد تک بنیادی سہولیات بھی میسر ہیں۔ہماری ریاست میں بھی یہ مشن بڑے طمطراق کے ساتھ شروع کیا گیا تھااور ابتدائی ایام میں اس مشن کو شہروں اور قصبوں کی تقدیر بدلنے کا آلہ قرار دیا گیا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاستی انتظامی مشینری کی نااہلی عیاں ہوتی گئی اور یوں اس مشن کے تحت دستیاب کروڑوں روپے کافائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔جس کے نتیجے میں مرکز نے ماضی میں 800کروڑ کی فراہمی بھی روک دی تھی ۔سابق نیشنل کانفرنس حکومت نے  شہری اصلاحات کی غرض سے ایک بل اسمبلی کے اجلاس میں متعارف کیا تھاتاہم ایوان زیریں میں زبانی ووٹ سے منظور ہونے کے باوجود بل ایوان بالا میں ووٹنگ کیلئے نہیں لایا جاسکا کیونکہ خود حکمران اتحاد کے ممبران کو بھی بل کے تحت کئے جانے والے اصلاحی اقدامات پر اعتراض تھا اور کئی ممبران نے بل کو عوام کش بھی قرار دیاتھا۔چنانچہ ایوان نے مجوزہ بل سلیکٹ کمیٹی کو بھیج دیا تھا۔ اب جبکہ شہروں اور دیہات میں بلدیاتی اور پنچایتی اداروں کا انتخاب ہوا ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ وہ ان ضروریات کی طرف دھیان دے کر شہروں اور قصبہ جات کو جدید سہولیات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں ۔ظاہر ہے کہ اس کیلئے عام لوگ نہیں بلکہ انتظامی مشینری ذمہ دار ہے کیونکہ اگر سرکاری مشینری نے رقومات کا جائز صرفہ کرکے قوائد و ضوابط کے تحت بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے تعمیری کام کئے ہوتے تو شاید آج شہروں اور قصبوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔جموں صوبہ میں بالعموم اور کشمیر وادی میں بالخصوص شہر سرینگر اور قصبہ جات کی انتہائی ناگفتہ بہہ حالت دیکھ کر تو رونا آتا ہے۔شہر کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کردیا گیا ،خستہ حال سڑکیں ،ناقص نکاسی نظام ،بجلی کی غیر متواتر سپلائی،پینے کے صاف پانی کی ہاہاکاردیکھ کر کبھی کبھار تو یہ گماں ہوتا ہے کہ شہر شہر نہیں بلکہ قہر بن چکا ہے۔اس مشنکے تحت سالانہ سینکڑوں کروڑ روپے تو کاغذی طور ضرورصرف ہوتے رہے لیکن عملی طور شاید ہی کہیں ایسا لگتا ہے کہ کوئی پیسہ خرچ ہوا ہے۔مشن کے تحت سٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے لئے خریدی گئیں چند بسیں سڑکوں پرضرورپھرتی نظر آتی ہیں لیکن ان بسوں کا بھی عام لوگوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہورہا ہے کیونکہ بسوں کے روٹ اور اوقات ہی لوگوں کی ضروریات سے میل نہیں کھاتے ہیں۔یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ جنورم کے تحت خریدی گئی بسو ں کو جموں اور سرینگر شہروں میں چلانا تھا لیکن ضوابط کے برعکس یہ بسیں مختلف اضلاع کے درمیان چلائی جارہی ہیں۔اتنا ہی نہیں اس مشن کے تحت جھگی جونپڑیوں میں رہنے والے لوگوں کو گھر بنانے کا آپشن بھی میسر ہے لیکن جب کشمیر اور جموں شہروں پر نظر دوڑائی جاتی ہے تو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے کیونکہ بے گھر ہنوز مفلسی کے عالم میں ہیں اور اگر کہیں کسی کوبسایا بھی گیا ہے تو اس ضمن میں بھی بدعنوانیوں کے اعتراضات نہ صرف عوامی سطح پر سامنے آئے ہیںبلکہ عوامی ایوانوں میں بھی ان پر لے دے ہوتی رہتی ہے۔شہروں کے اندر جس عنوان سے ٹریفک میں طوفانی اضافہ ہوا ہے، اس کے مطابق یہاں بڑے پیمانے پر فلائی اووروں کی ضرورت ہے لیکن یہ کہنے کی بات نہیں کہ سرینگر میں سب سےبڑے جہانگیر چوک رام باغ فلائی اوور کو2012میں مکمل ہونا تھا، لیکن چھ برس کا عرصہ گذرنے کے باوجود بھی ابھی زیر تعمیر ہے۔ سڑکیں تنگ اور خستہ حال ہیں،ٹریفک نظام ابترہے ،ایسے میں حکومت ان پروگراموں کی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹے تو کیوں کر؟۔اربن رنیول مشن کے ہوتے ہوئے سرکارکے پاس شہری علاقوں میں بنیادی سہولیات دستیاب نہ رکھنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا تھاتاہم حقیقت حال یہ ہے کہ اس مشن کے ختم ہونے کے باوجود بھی شہر کا نقشہ نہیں بدلا اور آج بھی شہر و قصبہ جات بدحالی کا منظر پیش کررہے ہیںاب جبکہ جموں اور سرینگر کو میٹرپولیٹین شہر بنانے کی باتیں ہو رہی ہےتو امید کی جانی چاہئے کہ اس سکیم کے تحت شہر وقصبہ جات کی حالت سدھر جائے گی ۔وقت آچکا ہے کہ ارباب اختیار کو اپنا احتساب کرکے اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے لیت و لعل کی سزا شہروں اور قصبوں میں مقیم عام لوگوں کو نہ ملے اورانہیں تعمیری سکیموں سے بھرپور استفادہ حاصل ہوسکے۔