شہراز احمد میر ۔منڈی پونچھ
جموں کشمیر کے سرکاری اسکولوں میں گزشتہ سال سے طلباء کے داخلوں میں کافی کمی نظر آ ئی ہے۔ اس کمی کو لے کر محکمہ تعلیم کی طرف سے سرکاری اسکولوں میں اندراج کی مہم چلائی جارہی ہے۔ گاؤں،محلوں اورگلی گلی میں بیداری ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ لوگوں کو سرکاری اسکولوں میں بچوں کو داخل کروانے کے لئے سرکاری اساتذہ اپنی تقریروں بتا رہے ہیں کہ سرکاری سکولوں میں تعینات ٹیچرز نجی اسکول کے ٹیچر کی مقابلے میں زیادہ کوالیفائیڈ ہوتے ہیں۔ نیز بچوں کو مفت وردی، کتابیں اور ہر روز دوپہر کو الگ الگ قسم کا کھانا دیا جاتا ہے۔ لہٰذا والدین بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کرایں تاکہ بچوں میں تعلیم کا شعور بیدار ہو۔ اس مہم کے تحت غریب سے غریب شخص بھی اپنے بچوں کو تعلیم سے روشناس کروا سکتا ہے۔ سرکار نے یہ اہم قدم لیا کہ کسی غریب کا بچہ مالی مجبوریوں کی وجہ سے اَن پڑھ نہ رہ جائے۔ سرکار سالانہ اربوں روپے خزانہ عامرہ سے شعبہ تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔ اساتذہ کو اچھی خاصی تنخواہ دی جاتی ہے، اوردیگر سہولیات بھی۔ مطلوبہ ڈھانچہ بھی بہتر ہو رہا ہے،بجلی پانی اور بیت الخلا کا بھی انتظام ہے ،یہاں تک کہ دو ردراز کے اساتذہ کے لئے اسکول کے احاطہ میں کمرے بنائے جارہے ہیں تاکہ اُن کی شکایات میں کمی آئے۔
لیکن اس اندراج مہم کو لیکر فتح پور کے مقامی شخص عاشق حسین عمر 35 سال کا کہنا ہے کہ میگا انرولمنٹ ڈرائیو کا قول اور اس پر عمل کرنے میں کافی تضاد ہے۔اردو زبان میں ضرب الامثال ہے،’’اوروں کو نصیحت خود کو فیضیت،‘‘وہ یہ کہ بیشتر سرکاری ملازمین کے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔درجہ اول سے لیکر آٹھویں کلاس تک 95فیصد سے زائد سرکاری ملازمین کے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ نویں تا بارہویں تک یہ تعداد 70سے75فیصد ہے۔ اُس کے بعد ملازم پیشہ والدین کی پوری کوشش ہوتی ہے گریجویشن میں سرکاری کالجوں سے ہو، اس لئے یہ تعداد گھٹ کر 35سے40فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ یونیورسٹی سطح پر تو پی جی سرکاری یونیورسٹی سے کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جاتے ہیں۔اگر سرکاری اُساتذہ اِتنے کوالیفائیڈ ہیں تو پھر اُنہیں اپنے اوپر اور اپنے ساتھیوں پر اعتماد کیوں نہیں، وہ اپنے بچوں کو درجہ اول سے آٹھویں تک سرکاری اسکولوں میں کیوں نہیں پڑھاتے، کیوں کوالیفائیڈ سرکاری ٹیچر پرائیویٹ اسکولوں میں انڈرگریجویٹ اور بارہویں پاس ٹیچر سے اپنے بچے کو ہی پڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں،یہ کچھ اہم سوال ہیں؟ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ اس خصوصی اندراج مہم میں سرکاری ملازمین سے بھی کہاجاتا کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کریں، تبھی تو اُساتذہ کرام جو تقاریر کریں، اُس کا فوری اثر عام والدین پر پڑتا اور وہ فوری طور اپنے بچوں کا داخلہ شوق سے کرتے۔ لیکن بالکل ایسا نہیں ہے۔اس سلسلہ میں سماجی کارکن یار محمد تانترے عمر 45سال نے بتایا کے اکثر سرکاری ملازمین ایسے ہیں، جنہوں نے آبائی گاؤں میں اپنے بچوں کا داخلہ سرکاری اسکولوں میں کرا رکھا ہے لیکن اُن کے بچے جموں، سرینگر،یہاں تک کے دہلی کے نامی گرامی پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ ایسا صرف اس لئے تاکہ کل اُن کی ریزرویشن کٹاگری سرٹیفکیٹ لینے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔
محکمہ تعلیم کی جاری کردہ انرولمنٹ ڈرائیو کے بارے میں شبی الحسن کاظمی جو جموں یونیورسٹی سے ایم اے کے طالب علم ہیں، کاکہنا ہے کہ، یہ بالکل مذاق ہے جس کا عملی طور اُ س وقت تک کوئی اثر پڑنے والا نہیں، جب تک یوٹی انتظامیہ کی طرف سے باقاعدہ ایک حکم نامہ جاری نہیں ہوتا کہ تمام سرکاری ملازمین بھی اپنے بچوں کا گورنمنٹ اسکولوں میں داخل کروائیں ۔چند سال قبل ایک ایم ایل اے نے اسمبلی میں ایک پرائیویٹ ممبر بل لایا تھا کہ سرکاری ملازمین پر یہ لازمی قرار دیاجائے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کریں۔مگر کسی نے بھی اُن کی حمایت نہیں کی بلکہ بیروکریسی نے بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دیں تھیں۔ یہ اندراج مہم تبھی کامیاب تصور کی جائے گی جب سرکاری اُساتذہ ثابت کریں کہ میرا بچہ بھی گورنمنٹ اسکول میں داخل ہے۔اس تعلق سے ضلع پونچھ کے سکونتی و محکمہ تعلیم سے منسلک استاد عبدالکریم کہتے ہیں کہ’’تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین بھی برابر کے شریک ہیں۔ والدین کی ذمہ داری ہےکہ وہ اپنے بچوں کی نشونما میں اساتذہ کے ساتھ تعاون کریں۔ سرکاری اسکولوں پر بھروسہ کرکے اپنے بچوں کو سرکاری اداروں میں داخل کروائیں۔ ہفتے میں، پندرہ روز یا ماہانہ اسکولوں کا دورہ کریںاور اساتذہ کے ساتھ رابطہ میں رہیں۔ جو والدین سرکاری اسکولوں میں بچوں کو داخل کرتے ہیں، پھروہ اُنہیں حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘اس تعلق سے ایک معزز شہری محمد شفیع جس کا تعلق پونچھ کی تحصیل منڈی سے ہےنےکہا کہ سرکاری اسکولوں میں معیار ی تعلیم کے فقدان کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کروانے پر مجبورہیں، کوئی بھی شخص اپنی اولاد کی تعلیم سے سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں، اُن کی اسی مجبوری کا فایدہ اُٹھاکر پرائیویٹ اسکول لوٹ کھسوٹ کررہےہیں۔ پرائیویٹ اسکول ایک مافیا کی شکل میں اپنی من مرضی چلا رہے ہیں اور اپنی شرائط منوارہے ہیں۔ کتابوں،کاپیوں ودیگر اسٹیشنری، وردیوں، داخلہ فیسوں اور ٹیوشن فیسوں کے نام پر والدین کو خوب نچوڑتے ہیں۔ کچھ تعلیمی اداروں نے تو وردیاں، کتابیں، کاپیاں وغیرہ کے حصول کے لئے مخصوص دکانیں مقرر کررکھی ہیں،والدین کو اُنہی دکانوں سےان چیزوں کی خریداری کرنا پڑتی ہے۔
انتظامیہ کا اِس پر کوئی کنٹرول نظر نہیں آرہا۔محض کاغذی خانہ پُوری کے لئے آرڈر تو نکلتے ہیں لیکن اِن پر زمینی سطح پر عمل نہیں ہوتا۔ اُس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ بڑے صنعتکار، کاروباری، بیروکریٹس اور سیاسی لیڈروں کے بھی نجی تعلیمی ادارے ہیں،۔ اُن کیخلاف کون کارروائی کرسکتا ہے؟ پونچھ ضلع کے اندر ایک اندازے کے مطابق 1000سے زائد تعلیمی ادارے ہیں۔بے شک ان تعلیمی اداروں نے خواندگی میں اہم رول ادا کیا ہے لیکن وقت گذرنے ساتھ ان اداروں نے مافیا کی صورت اختیار کر لی ہے۔ سرکاری شعبہ تعلیم میں معیار ِ تعلیم کافقدان دن بدن نجی تعلیمی اداروں کو مضبوط سے مضبوط بناتا جارہا ہے۔حق تعلیم قانون (رائٹ ٹو ایجوکیشن)2010جوکہ جموں وکشمیر میں بھی اب مکمل طور نافذ العمل ہے،جس کے تحت پرائیویٹ اسکولوں میں 25فیصد کوٹہ غریب بچوں کے لئے مخصوص ہے۔ مطلب کہ اگر پرائیویٹ اسکول میں 100بچوں کا داخلہ ہو تو اُس میں 25غریب بچوں اور مالی طور کمزور بچوں کو داخلہ دینا ہے اور اُن سے کوئی فیس وصول نہ کرنا ہے۔ تعلیمی سال2023-24کے درمیان جموں وکشمیر میں اس سے 20000سے زائد غریب بچوں کو فایدہ ملنے کا ہدف ہے۔ لہٰذا آپ اپنے پاس جو بھی پرائیویٹ اسکول ہیں، وہاں پر اِس بات کو یقینی بنائیں کہ غریب بچوں کو داخلہ ملے، اگر کوئی انکار کرتا ہے تو اُس کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔
مندرجہ بالا خامیوں کو اُجاگر کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سب کچھ ہی ٹھیک نہیں ہے۔جموں وکشمیر میں کثیر تعداد میں سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جوبہت اچھا کام کر رہے ہیں۔اُنہیں کی وجہ سے تو خواندگی میں بہتری آئی ہے، ایسے سبھی اداروں اور اساتذہ کرام کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے اور اُنہیں بطور رول ماڈل بھی پیش کیاجانا چاہئے۔ تعلیم ایسا شعبہ ہے جس کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونی چاہئے۔ اس کی اہمیت اور تقدس کی شان ِ رفتہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔اگر صرف ایجوکیشن سیکٹر معیاری ہوجائے تو پھر طلبا زندگی کے جس شعبہ میں بھی جائیں گے وہاں کمال ہی دکھائیں گے۔ اگر زندگی کے مختلف شعبہ جات کے اندر بدنظمی، بدعنوانی، رشوت خوری، اور دیگر برائیوں کا خاتمہ ہم چاہتے ہیں تو اپنی پوری توانائی شعبہ تعلیم پر صرف کردیں، خود بخود سارانظام درست سمت اختیار کر لے گا۔ہمیں اِس بات کا بھی محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اندراج مہم چلانے کی ضرورت کیوں پڑی؟
بہرحال، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اپنی سطح پرسرکار ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ سرکاری سکولوں میں اندراج کو بڑھانے کی اور تعلیم کو ہر گھرتک پہنچانے کیلئے بہتر اقدامات کئے جائیں ۔ لیکن اکیلے سرکار کے قدم سے مسئلہ کا حل نہیں نکل سکتا ہے۔ اس کے لئے عوام کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو بھی اس سلسلے میں سرکاری اسکولوں پر اعتماد قائم کرتے ہوئے اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کرنا چاہئے تاکہ سرکاری کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کا زمینی سطح پر فائدہ ہو سکے۔(چرخہ فیچرس)