سرینگر // ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کشمیر نے کہا ہے کہ کشمیرکے اسپتال جراثیم کش ادویات سے نہ ختم ہونے والے بیکٹیریا سے بھرے پڑے ہیں۔ ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر نثارلحسن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کشمیر میں کام کرنے والے سرکاری اسپتال جراثیم کش ادویات سے نہ ختم ہونے والے بیکٹیریا کیلئے پیدائش کی جگہوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر اسپتال سرینگر میں بیکٹیریا مثلاً Acinetobacter, Pseudomonas, Klebseilla اور Escherichia col ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور ان بیکٹیریا جراثیم پر ادویات کا کوئی اثر نہیں ہوپارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جراثیم کش ادویات مثلاًcarbapenemsاور colistinبھی صدر اسپتال میں پائے جانے والے جراثیم کا کچھ بھی نہیں بگاڑ رہے ہیں۔ سال 2017-18کے میں شیر کشمیر انسٹیچوٹ آف میڈیکل سائنسز کے اینٹی بائیوگرام کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر نثار نے کہا ہے کہ سیکمز میں پائے گئے بیکٹیریا میں 80فیصد انتہائی نگہداشت والے وارڈوں سے صاف کئے گئے بیکٹریا imipenem سے بھی ختم نہیں ہورہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مریض اسپتال علاج و معالجہ کیلئے آتے ہیں مگر یہاں جراثیم کے زد میں آکر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جراثئم نہ صرف اسپتالوں میں موجود ہے بلکہ پورے سماج میں پھیلے ہیں جسکی وجہ سے لوگ انکی زد میں آکر بیمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اسپتالوں میں انفکیشن کو قابو کرنے کیلئے سہولیات کی عدم دستیابی اور صفائی کا خاطر خواہ انتظام موجود نہ ہونے کی وجہ سے جراثیم کو پھلنے کا موقع ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار اسپتالوں میں مریضوں کی مکمل تشخیص کے بعد انفکیشن سے لڑنے کیلئے تاکہ بیکٹیریا کا انفکیشن ختم ہو مگر اسپتالوں میں اینٹی بائکٹ ادویات کا زیادہ اسپتال جراثیم کو پھیلنے میں مدد دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مریض معمولی نویت کے انفکیشن مثلاًpneumonia, urinary tract infection اور دست سے مرجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اینٹی بائوٹک کے بغیر نہ تو کینسر کیلئے علاج ، ٹرانسپلانٹ اور نہ ہی عام نویت کی جراحی مکمن ہوپائے گی اور مستقبل قریب میں لوگ کھانسی اور زخم لگنے سے بھی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔