’’ سرسید شناسی کے چند اہم زاؤیے‘‘

انگریزی   کا ایک مشہور مقولہ ہے’’جو کام ہم اپنی ذات کے لئے کرتے ہیں وہ ہمارے انتقال کے بعد ہی ختم ہوجاتاہے مگر جو کام ہم دوسروںیا دنیا کے لوگوں کے لئے کرتے ہیں وہ کام تا وجودِعالم قائم رہتا ہے‘‘۔ مسلمانوں کے لئے سرسید احمد خان تب تک بطور محسن زندہ رہیں گے جب تک دنیا قائم و دائم ہے۔سرسید  کے بعض خیالات اور افکار سے کسی کو لاکھ اختلاف ہو لیکن سرسید کی تعلیمی ، ادبی، سماجی ،ملّی اور سیاسی خدمات سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ۔سرسید احمدجس دور میں پیدا ہوئے وہ دور مسلمانوں کے لئے پر آشوب دور تھا ، کیونکہ ۱۸۵۷ ء کی ناکام بغاوت کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کو جبرو تشدد کا  چن چن کرنشانہ بنایا ۔ تاریخی سچ یہ ہے کہ ۱۸۵۷ء کی ناکام بغاوت کا سارا نزلہ انگریز نے مسلمانوں پر گرایا۔ اس آزمائشی دور میں سرسید ہی وہ شخصیت تھے جس نے ــنہ صرف’’ اسبابِ بغاوتِ ہند ‘‘ نامی کتاب لکھ کر انگریزوں کے غم و غصے کو دور کرنے کی کوشش کی بلکہ ایک اسٹریٹجی بنا کر  مسلمانانِ ہند پر زور دیا کہ  وہ اپنی ساری توجہ تعلیم و تدریس کی طرف مرکوز کریں تاکہ وہ جدید زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔اس دور پُرآشوب میں بقول سرسید :’’ میر ی تمنا ہے کہ میری ملت کے ہر شخص کے ایک ہاتھ میںادب و فلسفہ ہو تو دوسرے ہاتھ میں سائنس و ٹیکنالوجی اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے سر پر کلمہ طیبہ کا تاج ہو۔‘‘
    سر سید احمد خان اور علی گڑھ تحریک پر آج تک بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے لیکن یہ مثالی ہستی اب بھی ہمارے لئےinspiration ہے اور تشنہ ٔ  تشریح ہے کیونکہ اس سحر انگیز شخصیت کا تاریخ ساز کنٹری بیوشن اس قدر غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ،کہ ان کی حیات وخدمات کا تذکرہ بار بار کیا جانا عصری فضامیں بھی ہمارے لئے ہر اعتبار سے مفید و نافع ہے ۔ سر دجنگ کے خاتمے کے بعد سے ناموافق حالات میں گھِر کر مسلمانان ِ عالم عالمی سطح پر جو کچھ بھی سہہ رہے ہیں ، عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ ان ناگفتہ بہ حالات کا مقابلہ سر سیدجیسے مثالی ایمان وایقان ، استقامت و علم پروری ، ملّی دردمندی اور آگہی حامی سر گرمیوں سے کیا جائے تو کامیابی ہماری مقدر بنے گی ۔ اسی نقطہ نظر سے نسیم عباس نے’’ سرسید شناسی کے چند اہم زاؤئے‘‘ سے قلم بند کی ہے ۔ فاضل مصنف نے کتاب میں سرسید شناسی پر مفصل اور مدلل بحث کی ہے۔ اس کتاب کو ’’کتاب محل سرینگر ‘‘ نے دیدہ زیب سرورق کے ساتھ شائع کیا ہے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سرسید کی شخصیت پربراہ راست سو سے زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں ، وجہ ظاہر ہے کہ سرسید شناسی عصری معنویت کے پس منظر میں ایک اہم موضوعِ فکرہے۔ کتاب کے مصنف نسیم عباس احمر یونیورسٹی آف سرگودھا میں شعبہ ٔاردو میں استاد کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ کتاب کی ابتدا میں ’’ چند سطریں مزید‘‘ کے عنوان کے تحت موصوف لکھتے ہیں : ’’ سوچ ،فکر اور تصور کو احساس ، جذبے اور مادے سے علیٰحدہ نہیں کیا جاسکتا۔سوچ ہی احساس اور جذبے کی صورت میں ڈھل جاتی ہے۔ مادیت کے ارتقاء کی طر ح سوچ اور فکر کا ارتقا بھی تصادم اور کشمکش کی شکل میں ہوتا ہے اور اس کے پس منظر میں خارجی عوامل کام کر رہے ہوتے ہیں۔ذہنی ترقی بھی تصورات کے تصادم سے ہی جنم لیتی ہے۔ سرسید کے افکار کا جائزہ بھی ایک جدلی عمل ہے جس کی مخالفت، مداحی اور معرو ضی رویہ تاریخ کا حصہ رہا ہے اور انہی رویوں اور زاؤیوں کا مطالعہ اس کتاب کا موضوع ہے۔ـ‘‘
کتاب کے پہلے باب میں اردو میں سرسید شناسی کی روایت کے مختلف رجحانات کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ باقی چار ابواب میں پروفیسر عمرالدین،ڈاکٹر سید عبداللہ ، ڈاکٹر ظفر حسن اور ڈاکٹر محمد علی صدیقی جیسے سرسید شناسوں کے تحقیقی کام کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ان کے خصا ئص ، لغزشوں اور انفرادکو زیر بحث لایا گیا ہے۔چھٹا باب سرسید شناسی کی روایت میں ان سرکردہ چار سرسید شناسوں کا مقام متعین کرنے اور ان کے اثرات سے مخصوص ہے۔ ضمیہ جات (الف)میں سرسید کا سوانحی خاکہ(ب)تصانیف سرسید احمد خاں (ج) سرسید کے بارے میں تنقیدی کتب کا اشاریہ (د)چار سرسید شاناسوں کے سوانحی خاکے شامل ہیں۔
کتاب کے پہلے باب میں مصنف نسیم احمد احمر سرسید کے حوالے سے ایک اہم بات لکھتے ہیں : ’’ آج برصغیر میں مسلمان جس فکری بے چارگی اور پسماندگی کا حامل ہے، ایسے لمحے میں فکر ِسرسید کی نئی توضیح اور اس میں اضافے کی ضرورت سرسید کے اپنے زمانے سے زیادہ بڑھی ہوئی نظر آتی ہے۔یوں سرسید شناسی کی 
روایت ہمارے زمانے میں اس لیے بھی اہمیت اختیار کر لیتی ہے کہ ہمارے زمانے کے فکری انتشار میں فکر کی یہ روشن روایت ہمیں اپنے وجود کے مثبت زاؤیوں سے آشنائی عطا کرتی اور اجتہاد کی ضرورت پر زیادہ سے زیادہ زور دیتی نظر آتی ہے۔ آج مغرب میں تہذیبوں کے ٹکراؤ کے مصنوعی سوالات اُٹھائے جارہے ہیں،سرسید کی فکر ہمیں اپنی تہذیب کا زیادہ سے زیادہ شعور عطا کر رہی ہے۔‘‘
باقی چار ابواب جن میں سرسید شناسوں کو زیربحث لایا گیا ہے، ان میں ڈاکٹر سید عبداللہ’’ سرسید اور تصورِ سیاست‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ سرسید کی نظر میں دین اور سیاست دو جدا شعبے نہ تھے۔انہوں نے اپنے زمانے کے سیاسی مسائل کو حل کرتے وقت دین سے مدد لی اور سیاسی مغائرتوں کو دور کرنے کے معاملے میں بھی مذہب کی سند لی۔ اس معاملے میں اُن کا نقطہ نظر سرتاپا مذہبی معلوم ہوتا ہے۔سیاست کی بحثوں میں غالباََ انہوں نے تمدنی ، جغرافیائی،اقتصادی،اور عقلی ، معیاروں کو بہت کم مدنظر رکھا ہے۔ حالات زمانہ کے ماتحت اُن کا مطمح نظر ملکی اور جغرافیائی کم تھا،دینی اور مذہبی زیادہ تھا۔‘‘
 غرض یہ کتاب سرسید شناسی کے حوالے سے ایک اہم کتاب ہے اور ہر اُس عام شائق اور محقق کو اس  کتاب کا بغورمطالعہ کرنا چاہیے جس نے سرسید کے حوالے سے بہت کم پڑھاہو،کیونکہ یہ کتاب ایک ساتھ سرسید کی سیاسی ، سماجی ، ادبی اور مذہبی شخصیت پر روشنی ڈالتی ہے۔
رابطہ:7889378038