سرد جنگ کی نئی بساط بچھ گئی

 تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ انسان تاریخ سے کبھی نہیں سیکھتا، چنانچہ وہ حال میں ماضی کی غلطیوں کو دہراتا ہے اور اس طرح تاریخ کی تکرار سامنے آتی ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں، 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹا اور سوشلزم آنجہانی ہوا۔ 1992ء میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ’’چہیتے‘‘ فرانسس فوکویاما نے ایک کتاب تحریر کی جس کا عنوان تھا ’’ لاسٹ مین اینڈ دی انڈ آف ہسٹری‘‘۔ اس کتاب کا ایک بنیادی خیال یہ تھا کہ انسانی تاریخ کا حالیہ سفر سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم کی کشمکش سے عبارت تھا۔ اس کشمکش میں سرمایہ دارانہ نظام نے سوشلزم کو شکست دے دی ہے، چنانچہ تاریخ کا سفر اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ اب ساری دنیا کے پاس کرنے کا صرف ایک کام رہ گیا ہے، وہ یہ کہ وہ مغربی تصورات اور اقوام کی پیروی (بلکہ نقالی) کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرے۔ تاریخ کا اختتام سرد جنگ کا اختتام تھا لیکن فوکویاما کو بہت جلد اپنا تھوکا ہوا چاٹنا پڑ گیا، اس لیے کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا یک قطبی یا Unipolar سے کثیر قطبی یا Multipolar ہونا شروع ہوگئی۔ چین امریکہ اور جاپان کے بعد دنیا کی تیسری معیشت بن کر ابھرا مگر چند ہی برسوں میں اُس نے جاپان کو پیچھے چھوڑ دیا اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 2040ء میں چین عالمی معیشت کا 21فیصد، امریکہ 13فیصد اور بھارت 7فیصد پیدا کرے گا۔ اس صورتِ حال کو مغربی دنیا ’’چین کا ابھار‘‘ یا اپنی زبان میں Rising China کہہ کر پکار رہی ہے۔ بلاشبہ چین ابھی فوجی میدان میں امریکہ کا حریف نہیں، مگر اس شعبے میں بھی چین امریکہ سے بہت دور نہیں، مگر مسئلہ صرف چین کا نہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس کی صورتِ حال انتہائی مخدوش تھی اور اس کے دوبارہ بڑی طاقت بن کر ابھرنے کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا۔تاہم صدر پیوٹن نے روس کے تن ِمردہ میں جان ڈال دی۔ انہوں نے روس کی معیشت کو مستحکم کیا، روس کی فوجی صنعت کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا، اور آج روس میزائل سازی سمیت کئی میدانوں میں امریکہ کے لیے چیلنج بن کر ابھر چکا ہے۔ وہ شام میں خود کو سیاسی اور عسکری طور پر امریکہ کی حریف قوت ثابت کرنے کی کوشش بلکہ ‘‘Acting’’ کررہا ہے۔ اسے ایکٹنگ کی ضرورت اس لیے محسوس ہورہی ہے کہ وہ اپنے حال اور مستقبل کے حوالے سے پُراعتماد نہیں مگر صدر پیوٹن کی قوم پرستی انہیں مجبور کررہی ہے کہ وہ اپنی ’’اجتماعی خودی‘‘ کا اظہار کریں۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے تاریخ نے خود کو دہرانے کا عمل شروع کردیا ہے اور خود مغرب کے ذرائع ابلاغ اور پالیسی سازوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ ایک بار پھر سرد جنگ کا دور لوٹ آیا ہے۔ اس سرد جنگ کے ابتدائی ایام کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک ڈیڑھ سال پہلے کی دنیا میں لوٹنا ہوگا۔
اس دنیا میں امریکہ کے صدر بارک اوباما تھے۔ وہ افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا رہے تھے۔ شام میں مبینہ طور پر بشارالاسد کی فوجوں نے ایک کیمیائی حملہ کیا تو بارک اوباما نے شام کو اس کی سزا دینے کی طرف توجہ دی مگر انہیں بتایا گیا کہ بشارالاسد کی حکومت گر گئی تو شام پر بھی بنیاد پرستوں کا قبضہ ہوجائے گا۔ چنانچہ اوباما نے شام پر حملے کا ارادہ ترک کردیا، البتہ انہوں نے عراق اور افغانستان میں امریکہ کے اتحادی ایران کے ساتھ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایک بین الاقوامی معاہدہ کیا۔ عام خیال یہ تھا کہ اوباما کے بعد ہونے والے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ہیلری کلنٹن آسانی کے ساتھ فتح یاب ہوجائیں گی اور ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن اس خیال کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ فتح یاب ہوگئے، ہیلری کلنٹن شکست کھا گئیں۔ یہ امریکہ کے ظاہر پر امریکہ کے باطن کی فتح تھی اور یہ فتح بتا رہی تھی کہ دنیا اب ہر جگہ امریکہ کے باطن کی شیطنت اور ننگے ناچ کا نظارہ کرے گی۔ بدقسمتی سے ہوا بھی یہی۔ ٹرمپ نے اقتدار پر گرفت مضبوط کرتے ہی امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کرکے اسرائیل نوازی کی نئی تاریخ رقم کی۔ البتہ چین اور روس کے سلسلے میں ٹرمپ کا رویہ قدرے مختلف تھا۔ ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران کہہ رہے تھے کہ چین امریکی معیشت کو Rape کررہا ہے اور ہم اقتدار میں آکر چین کو ایسا نہیں کرنے دیں گے، جب کہ اقتدار میں آنے کے بعد ٹرمپ نے چین کے سلسلے میں اپنے رویہ کو نرم کیا۔ یہاں تک کہ ٹرمپ 8 نومبر 2017ء کو چین کے دورے پر پہنچے اور انہوں نے چین کے ساتھ 300 ارب ڈالر کے سمجھوتوں پر دستخط کیے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ امریکہ اور چین کی دو طرفہ تجارت میں گہرا عدم توازن موجود ہے مگر چین نے وہی کیا جو اس کا قومی مفاد تھا۔ ہاں انہوں نے کہا کہ اس عدم توازن کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے ٹرمپ کے اعزاز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک بہت بڑی اور انتہائی اہم بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو بحرالکاہل میں مسائل کا سامنا ہے مگر بحرالکاہل اتنا بڑا ہے کہ اس میں امریکہ اور چین بیک وقت سما سکتے ہیں۔ چینی صدر کے اس تبصرے کے معنی یہ تھے کہ امریکہ اور چین حریف نہیں ہیں بلکہ وہ حلیف بن سکتے ہیں اور دنیا کے کیک کو مل بانٹ کر کھا سکتے ہیں۔ چینی صدر کے اس بیان سے لگ رہا تھا کہ چین اور امریکہ اتحادی بن کر ابھر چکے ہیں اور ان کے درمیان تصادم کا فلسفہ اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ احباب کی ایک مجلس میں اس امر پر گفتگو ہوئی تو ہم نے عرض کیا کہ بظاہر یہی لگ رہا ہے، مگر مغربی ذہن طاقت کی نفسیات میں اس حد تک ڈوبا ہوا ہے کہ وہ اپنی مادی قوت کی کمزوری کو مشکل ہی سے تسلیم کرے گا۔ مغربی ذہن صرف طاقت پرست نہیں، نسل پرست بھی ہے۔ وہ خود کو آقا اور باقی دنیا کو غلام کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ عالمی بالادستی اْس کی خواہش بھی ہے اور تجربہ بھی۔ چنانچہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آئندہ چند دنوں یا ہفتوں میں امریکہ کس رنگ میں سامنے آتا ہے۔ اتفاق سے یہ خیال درست ثابت ہوا۔ امریکہ نے 18 دسمبر 2017ء کو قومی سلامتی سے متعلق پالیسی جاری کی۔ اس پالیسی میں امریکہ نے چین اور روس کو اپنا حریف اور مدمقابل قرار دیا اور کہا کہ اب امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر توجہ دینے کے بجائے چین اور روس کی طاقت پر توجہ مرکوز کرے گا۔ قومی سلامتی سے متعلق دستاویز میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے چین کے ابھار میں اس خیال سے اس کی مدد کی کہ چین ’’لبرالائز‘‘ ہوجائے گا، مگر ہوا اس کے برعکس یہ ہے کہ چین طاقتور ہوگیا اور اس نے اپنے اثرات پوری دنیا میں پھیلا دیے۔ دستاویز میں روس اور چین کی عسکری طاقت میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
امریکہ کے قومی سلامتی سے متعلق ’’نئے تناظر‘‘ نے عالمی منظرنامے کو بدل ڈالا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ نے چین کی 130 درآمدات پر محصولات عائد کردیے ہیں، اور وہ ایک ہزار ایسی اشیا کی فہرست بنائے بیٹھا ہے جن پر کسی بھی وقت محصول عائد کرکے چینی درآمدات کو محدود کیا جاسکتا ہے اور چین کی معیشت کو مشکلات سے دوچار کیا جاسکتا ہے۔ اس کے جواب میں چین نے بھی امریکہ کی کئی درآمدات پر محصولات عائد کردیے ہیں۔ چین کسی بھی صورت میں امریکہ سے ’’تجارتی جنگ‘‘ نہیں چاہتا مگر اْسے معلوم ہے کہ وہ امریکہ کے آگے جھکے گا تو امریکہ اسے مزید جھکائے گا۔ چنانچہ چین ’’تجارتی طمانچے‘‘ کا جواب ’’تجارتی طمانچے‘‘ سے دے رہا ہے مگر اس کے ساتھ ہی کہتا جارہا ہے کہ سرد جنگ کی نفسیات ایک اذکارِ رفتہ یا Out dated نفسیات ہے اور ہمیں اس سے جان چھڑانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین امریکہ کو ’’مذاکرات‘‘ کی دعوت بھی دے رہا ہے۔
روس کا قصہ یہ ہے کہ اْس نے صدارتی انتخابات میں فتح کے حوالے سے ٹرمپ کی خفیہ مدد کی ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ میں تحقیقات جاری ہیں اور ٹرمپ کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ڈونلڈ ٹرِمپ روس کے صدر پیوٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ یہ تعلقات ’’امریکہ کا سرمایہ‘‘ ہیں، امریکہ کا ’’بوجھ‘‘ نہیں۔ مگر قومی سلامتی سے متعلق نئی امریکی پالیسی میں ٹرمپ نے سی آئی اے اور پینٹاگون کے ذہن کے مطابق بڑی قلابازی کھائی ہے۔ اس قلابازی کا ایک اظہار یہ ہے کہ برطانیہ میں روس کے ایک ڈبل ایجنٹ کو دیے جانے والے زہر کے حوالے سے امریکہ اور یورپی اتحاد کے رکن ممالک نے 100 سے زائد روسی سفارت کاروں کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کردیا ہے۔ اس کے جواب میں روس نے بھی امریکہ اور یورپ کے تقریباً 70 سفارت کاروں کو روس سے نکال دیا ہے۔ اس صورتِ حال کو عالمی مبصرین بجا طور پر ’’سرد جنگ کی واپسی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔
سرد جنگ کی واپسی کا ایک مظہر یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے مبینہ کیمیائی حملے کی آڑ میں شام پر سو سے زیادہ میزائل برسائے ہیں۔ میزائلوں سے ہونے والے حملے نے امریکہ اور اْس کے اتحادیوں کے، جمہوریت اور قانون کی پاسداری کے دعووں اور ان کی جعلی اخلاقیات سمیت ہر شے کو ننگا کردیا ہے۔ بشارالاسد وقت کا ہٹلرہے جب کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس شیطان کے باپ ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس خود کو جمہوریت پسند کہتے ہیں اور ساری دنیا میں ’’درسِ جمہوریت‘‘ کی ’’دکان‘‘ چلاتے ہیں، مگر ان کی جمہوریت پسندی کا یہ عالم ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے شام پر حملے سے قبل اپنے منتخب ایوانوں سے تو کیااپنی وزارتی کونسلوں سے بھی حملے کی منظوری لینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ امریکہ اور اْس کے مغربی اتحادیوں کو ہر بین الاقوامی معاملے میں اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور بین الاقوامی قانون یاد آتا ہے مگر انہوں نے شام پر حملے کے لیے اپنی لونڈی سلامتی کونسل سے منظوری لینے کی زحمت بھی نہ کی۔ شام میں ہونے والے حالیہ مبینہ کیمیائی حملے سے 40 افراد شہید ہوئے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کو 40 افراد کی موت کا ’’غم‘‘ ہے، مگر شام میں گزشتہ 7 سال کے دوران پانچ لاکھ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے کبھی پانچ لاکھ لوگوں کی ہلاکت کے حوالے سے شام پر حملہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ آخر یہ کیسی ’’رحم دلی‘‘ اور کیسی’’انسان دوستی‘‘ ہے جو پانچ لاکھ افراد کی موت کو ہضم کر جاتی ہے مگر صرف 40 لوگوں کی موت پر بھڑک اٹھتی ہے؟ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کا کہنا ہے کہ مسئلہ کیمیائی حملہ ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیمیائی حملے سے 40 افراد کی ہلاکت کیا روایتی ہتھیاروں سے مرنے والے ’’پانچ لاکھ‘‘ انسانوں کی ہلاکت سے زیادہ لرزا دینے والی ہے؟ جس وقت شام پر میزائل داغے گئے اْس وقت کیمیائی ہتھیاروں کے معائنے سے متعلق مغربی ادارے کے اہلکار شام میں موجود تھے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ اور اْس کے دو اتحادیوں نے حملے کے سلسلے میں ان اہلکاروں کی رپورٹ کا انتظار کیوں نہ کیا؟ ہوسکتا ہے کہ یہ اہلکار تصدیق کرتے کہ واقعتا شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے ہیں، اس صورت میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کا مقدمہ مضبوط ہوجاتا۔ مگر انہوں نے اس امر کی تصدیق ہی نہیں ہونے دی کہ کیمیائی حملہ ہوا ہے یا نہیں۔ یہ بالکل وہی صورتِ حال ہے جو عراق پر حملے سے پہلے پیدا ہوئی تھی۔ اقوام متحدہ کے اہلکار عراق میں اس بات کا جائزہ لے رہے تھے کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں یا نہیں؟ مگر امریکہ نے اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کی رپورٹ کا انتظار نہیں کیا۔ اِس وقت میزائل حملے کے حوالے سے بھی یہی ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس ایک جانب کہہ رہے تھے کہ وہ بشارالاسد کو سزا دینے والے ہیں، اور دوسری جانب انہوں نے حملے کا اعلان کرکے بشارالاسد کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے کیمیائی ہتھیار جہاں چاہے چھپا لے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کیمیائی ہتھیاروں کی تباہی کے سلسلے میں ’’سنجیدہ‘‘ ہوتے تو وہ شام میں اطلاع دیے بغیر حملہ کرتے، ٹھیک اسی طرح جس طرح امریکہ نے پاکستان میں اسامہ بن لادن کے خلاف بغیر اطلاع دیے کارروائی کی تھی، یا جس طرح سلالہ میں بغیر اطلاع کے پاکستانی فوجیوں کو نشانہ بناکر شہید کیا تھا۔
امریکہ، برطانیہ اور فرانس فرما رہے ہیں کہ مسئلہ کیمیائی ہتھیار اور ان کے مراکز تھے جنہیں مبینہ طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ مسئلہ کیمیائی ہتھیار نہیں، کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا حکم دینے والا بشارالاسد اور اس کی حکومت ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کتنی عجیب بات ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے کیمیائی ہتھیاروں کے مراکز پر تو حملہ کیا مگر بشارالاسد اور اس کی حکومت کے ٹھکانوں پر میزائل کیا، پھول بھی نہ گرایا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح روس اور ایران خون تشنہ بشارالاسد کے ’’محافظ‘‘ ہیں، اسی طرح امریکہ، برطانیہ اور فرانس بھی بشارالاسد کے ’’محافظ‘‘ ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کہتے ہیں کہ بشارالاسد کی طاقت روس اور ایران ہیں مگر امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے شام میں روس کیا ایران کے عسکری ٹھکانوں کو بھی ہاتھ نہ لگایا۔ یہ حقیقت تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ صدام حسین نے پانچ لاکھ لوگوں کو قتل نہیں کیا تھا۔ اْس نے پورے عراق میں بم باری نہیں کی تھی۔ اْس نے دس سے پندرہ لاکھ عراقیوں کو بے گھر، اور جلاوطنی کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ صدام کے ملک سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بھی برآمد نہیں ہوئے تھے، مگر اس کے باوجود امریکہ اور اْس کے اتحادیوں نے صدام حسین کو بخشا، نہ اْس کی حکومت کو مگر امریکہ، برطانیہ اور فرانس ایک جانب بشارالاسد کو ’’درندہ‘‘ اور ’’شیطان‘‘ کہتے ہیں اور دوسری جانب اس آمر اور اس کی حکومت کے ’’محافظ‘‘ بھی بنے ہوئے ہیں۔ ان تمام حقائق نے شام میں امریکہ اور اْس کے تمام مغربی اتحادیوں کو مادر زاد ننگا کردیا ہے۔ ثابت ہوگیا کہ مغرب کی ہر چیز دھوکا ہے۔ اس کی جمہوریت بھی، اس کی انسان دوستی بھی، اس کی قانون پسندی بھی۔ تو کیا سرد جنگ کی واپسی کی بات بھی دھوکا ہے؟ نہیں ،سرد جنگ کی واپسی ایک حقیقت ہے، مگر یہ سرد جنگ کی واپسی کا آغاز ہے۔ اس مرحلے پر امریکہ نے چین کو اقتصادی اور روس کو شام میں عسکری طمانچہ مارکر یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ ان قوتوں میں مزاحمت کی کتنی صلاحیت ہے۔ چین نے امریکی طمانچے کا جواب ویسے ہی طمانچے سے دیا ہے مگر اس کے ساتھ ہی مذاکرات کی پیشکش کرکے ثابت کیا ہے کہ اس کے جوابی طمانچے کی نوعیت ’’حقیقی‘‘ کم اور Tactical زیادہ ہے۔ روس نے اعلان کیا تھا کہ اگر امریکہ نے شام پر میزائلوں سے حملہ کیا تو وہ نہ صرف یہ کہ میزائلوں کو مار گرائے گا بلکہ وہ میزائلوں کے مراکز کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ تاہم روس یہ دونوں کام نہیں کرسکا ہے۔ مطلب یہ کہ سرد جنگ کے پہلے مرحلے میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کا پلہ بھاری ہے۔ نئی سرد جنگ کی بنیاد نظریات پر نہیں ’’مفادات‘‘ پر رکھی جارہی ہے۔ نظریات کو بدلنا مشکل ہوتا ہے البتہ مفادات بدل بھی جاتے ہیں۔
