سرحدی کشیدگی کسی مسئلہ کا حل نہیں

مینڈھر//گزشتہ چار دنوں سے سرحد پر نہ تھمنے والا خونی رقص جاری ہے اوردونوں ممالک کی افواج نے جدید اور مہلک ہتھیاروں کا استعمال کرکے نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانات کی جانیں بھی خطرے میں ڈال دی ہیں۔شدید گولہ باری کی وجہ سے سرحدی پٹی پر مقیم عوام کو اشیاء خور د و نوش کی قلت کا سامنا ہے اورمعصوم بچے ذہنی تنائو کے شکار ہو چکے ہیں اوران کے امراض میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے ۔ان خیالات کا اظہار نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر و ممبر اسمبلی مینڈھر جاوید احمدرانا نے اخبارات کے نام جاری اپنے بیان میں کیا۔انہوں نے کہا کہ ابد سے تا وقت جموں کشمیر کے عوام کی بد نصیبی اُن کے شامل حال رہی ،یہاں کی عوام نسل در نسل پریشانی اور تکلیف میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور رہی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ ریاست کی عوام خصوصاً سرحدی پٹی پر بسنے والے عوام کو زندگی میںایک لمحہ بھی سکون نصیب نہیں ہوا ۔انہوں نے کہا کہ یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی دونوں ہمسائے ممالک اپنے ہاں سے غربت اور ناخواندگی کے خاتمے کے بجائے ایک دوسرے پر مہلک اور جراثیمی ہتھیاروں کی دوڑ میںایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش میں مصروف ہیں۔رانا کاکہناتھاکہ چار روز سے مینڈھر کی سرحدی پٹی آگ اُگل رہی ہے ،دونوں اطراف سے اتنی شدید گولہ باری کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے سرحد پر مقیم عوام خصوصاً خواتین اور معصوم بچے ذہنی دبائو کے شکار ہو چکے ہیں۔انہوںنے کہاکہ کرشنا گھاٹی سے لے کر بالاکوٹ تک سرحدی دیہاتوں میں بسنے والے عوام کو اشیائے خورد ونوش اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے،تعجب کی بات ہے کہ تحصیل منکوٹ کے موضع دبڑاج میں محمد عباس نامی ایک شخص کے رہائشی مکان پر پاکستانی افواج کی جانب سے داغاجانے والا ایک گولہ اس وقت بھی مکان پر موجود ہے جس کو ابھی تک ناکارہ نہیں بنایا گیا ۔جاوید احمدرانا نے انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ مذکورہ بم کو جلد از جلد ناکارہ بنایا جائے تاکہ مکان مالک کے بچے اور مال مویشی اور دیگر املاک محفوظ رہ سکیں۔ممبر اسمبلی مینڈھر نے دونوں ممالک کے سربراہان سے اپیل کی کہ سرحدی تنازعات کا حل طاقت کے بل بوتے کے بجائے گفت اور شنید کے ذریعہ نکالا جانا چاہیے کیونکہ موجودہ دور میں طاقت کسی بھی مسئلے کا دائمی حل نہیں ہو سکتا۔جاوید احمدرانا نے کہا کہ دونوں ممالک کی جانب سے طاقت کا استعمال کرنے کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان یہاں کی معصوم عوام کو ہورہاہے۔انہوںنے اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے حکمرانوں کی سوچ و فکر سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہیں ریاستی عوام کے بجائے اس جنت بے نظیر کی مٹی کی ضرورت ہے۔