سرحدی خطے کے عوام کو ہمیشہ سے ہی مشکل حالات میں زندگی بسر کرناپڑتی ہے اور جنگ ہو یا عام حالات ان کو آزادی سے نہیں رہنے دیاجاتا۔تاہم گزشتہ کچھ مہینوںسے ان کا جینا حرام ہوکر رہ گیاہے ۔ نہ انہیں گھروں کے اندر سکون حاصل ہے اور نہ ہی گھر وںکے باہر چین کی زندگی میسر ۔ہندوپاک سرحدی کشیدگی کی وجہ سے حالیہ کچھ عرصہ میں ان لوگوں کوبے پناہ مشکلات کاسامناکرناپڑاہے اور ابھی یہ مشکلات کم نہ ہوئی تھیں کہ فوج کی طرف سے ان کا قافیہ حیات مزید تنگ کردیاگیاہے ۔پونچھ کے بالاکوٹ سیکٹر میں فوج نے سرحدی آبادی پر اس قدر پابندیاں عائد کردی ہیں کہ انہیں تار بندی کے اندر اپنی زمینوں میں جانے تک بھی اجازت حاصل نہیں ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ تقسیم ریاست کے بعد کھینچی گئی خونی لکیر کے سبب خاندانوں کے خاندان تقسیم ہوئے جس کے بعد دفاعی مقاصد کے تحت ایل او سی پرتار بندی کی گئی جس کے اندر بڑ ے پیمانے پر لوگوں کی زیر کاشت زمینیں بھی آگئیں۔پہلے ان لوگوںکو اس تار بندی کے اندر دن کے وقت فوج کی اجازت سے جانے دیاجاتاتھا اور ان کے مال مویشی بھی تاربندی کے اندر واقع چراگاہوں میںچرنے کےلئے جاتے تھے لیکن اب فوج نے اس سلسلہ پر پابندی عائد کردی ،جس کی وجہ سے یہ لوگ عملی طو پر گھروں کے اندر محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ وجہ یہ ہوئی کہ گزشتہ دنوں تار بندی کے اندر سے ایک نوجوان منشیات کے ساتھ پکڑاگیا جس کے بعد فوج نے لوگوںپر نئی پابندیاں عائد کردیں ،جس سے لوگوں کو زبردستپریشانی کا سامناہے ۔مذکورہ نوجوان کو دو کلو ہیروئن کے ساتھ پکڑ کر پولیس کے حوالے کیاگیا۔لگ بھگ ایک سال قبل بھی بالاکوٹ میں فوج کی طرف سے اسی طرح کی پابندی عائد کردی گئی تھی لیکن پھر سیول انتظامیہ نے مداخلت کرکے لوگوں کو اپنی زمینوں تک جانے کی اجازت دلوائی ۔اگرچہ اس بار بھی یہ معاملہ سیول انتظامیہ کے نوٹس میں لایاگیاہے لیکن ابھی تک کوئی اقدام نہیں کیاگیا اور صرف یقین دہانیاں کی جارہی ہیں ۔بالاکوٹ کے ترکنڈی ،بھروتی، کانگا،دتوٹ،دھراٹی، پنجنی، سوہالہ،ڈبی وغیرہ علاقے ایسے ہیں جہاں کے لوگ تار بندی کے زخم روزانہ ہی سہتے چلے آرہے ہیں ۔پونچھ سے لیکرکیرن کرناہ تک حد متارکہ پر بس رہی آبادی کی زندگی قیدیوں کی مانند ہے ۔ خاص کر تاربندی کے اندر رہ رہے لوگوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے، جو نہ ہی تو کسی کوشادی کی تقریب میں بلاسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے گھر میں کسی کی موت ہوجانے پر کوئی تعزیت پرسی کیلئے آسکتاہے ۔اگرچہ دن کے اوقات میں فوج رشتہ داروں کو ان تک رسائی دے دیتی ہے لیکن رات کے وقت اُن پر کوئی افتاد بھی آئےتو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔یہ بات باعث تکلیف ہے کہ یہ لوگ اپنے رشتہ داروں کورات کے وقت پناہ نہیں دے سکتے ۔دو سال قبل پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں رہ رہا ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی سے ملنے بالاکوٹ آیا تاہم وہ اپنے رشتہ داروںسے دن کے وقت ہی ملاقات کرپاتاتھااور رات کو اسے مجبوراًنہ چاہتے ہوئے بھی تاربندی کے باہر کسی غیر کے گھر جاکر رہناپڑتاتھا ۔نہ جانے اس طرح کے کتنے واقعات ہیں جو سرحدی عوام کے مصائب و آلات کو بیان کرتے ہیں ۔فوج کی طرف سے سرحدی مکینوں پر کی گئی ناکہ بندی قابل تشویش ہے اوراس معاملے میں ریاستی حکومت کوفوری طور پر مداخلت کرکے فوجی حکام سے معاملہ اُٹھانا چاہئے ۔اگر یہ لوگ ریاست کی شہری ہیں تو انہیں آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہونا چاہیئے اور انہیں اپنے کھیتوں میںجانے کی اجازت حاصل ہونی چاہئے ۔تاکہ وہ کاشت کاری کے ذریعہ اپنے لئے دو وقت کی روٹی کا گزارہ کرنے کے لائق ہوسکیں۔