یہ دیکھ کر بڑا دُکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی نا اہل حکومتیں ایک لمبا عرصہ گذرجانے کے بعد بھی مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نہیں نکال پائیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ہندو ستان اورپاکستان بہت بار امن معاہدے بھی کر چکے ہیں اورسرحدوں پر فائر بندی کو روکنے کے معاہدات بھی کئے لیکن پھر بھی اس بیمار ذہنیت سے کبھی راحت نہیں پائی اور بار بار اپنے معاہدوں کو توڑ کر ایک دوسرے پر یلغاریں بولتے رہے ہیں۔ ننگالی بلاک کے چند گاؤں جیسے شاہ پور، گونتریاں، کیرنی اور قصبہ ہمیشہ سے ہی آر پار کی گولہ باری سے شدید نقصان سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔ اپنےعوام سے پار والے کہتے ہیں کہ ہندوستان نے گولی باری میں پہل کی اور انڈیا کہتا ہے پاکستان نے شروعات کیں، سچ جو بھی ہو اس سے قطع نظر نقصانات ہمیشہ آخر کار غریب اور بے بس عوام کو ہی سہنا پڑتا ہے۔ اس دشمنی کا آغاز 1947 میں ہوا تھا جب کشمیر کا پیچیدہ مسئلہ معرض وجود میں آیا۔ دوطرفہ فائر نگ سے نہ جانے کتنے لوگ مرے اور زخمی ہوئے ہیں، کتنی ماؤں نے بچوں، عورتوں نے خاوند اور بہنوں نے بھائیوں کو کھودیا ہے۔
گاؤں شاہ پور جو کہ تقریباََ زیرو پاک بورڈر پر واقع ہےجہاں پر لوگوں کو موجودہ جنگی حالات کے سبب بڑی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب جب فائر بندی کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو پہلے یہیں سے ہی شروعات ہوتی ہے اور بڑی تعداد میں لوگوں کا جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ ایک جمہوری ملک کے باشندے ہونے کے باوجود یہاں کے باشندگان کو حقِ حیات سے محروم کیا جاتا رہاہے لیکن نہ تو مرکزی اور نہ ریاستی حکومت اس اہم مسئلہ پر غور کر تی ہے کہ ہمیں کیا کیا پریشانیاں لا حق ہیں۔ یہ گاؤں پونچھ سٹی سے تقریباََ 35 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے جس کو ہندوستان کی ایک طرف سے آخری سرحد کہا جاتا ہے۔ یہاں ضلع سطح کی انتظامیہ اس قدر نالائق اور خودغرض ہے کہ ابھی تک وہاں پر کسی ایمبولینس وغیرہ کا انتظام نہیں کیا گیاہے جو کہ زخمیوں کو وقت پر ہاسپٹل پہنچاسکے۔یہی وجہ ہے کہ زخمی لوگ ضلع ہاسپٹل پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ اس علاقہ میں تقریباََ ہر دن فائر نگ جاری رہتی ہے پھر بھی حکومت اتنی لا پرواہ اور بے نیاز ہے کہ اس کو کوئی فکر ہی نہیں ہے کہ یہاں پر کیا ہو رہا ہے۔ ایم۔ایل۔اے حویلی جناب شاہ محمد تانترے صاحب نے بھی کبھی تکلیف نہیں کی کہ اس گاؤں کا دورہ کر کے عوامی مسائل حل کر نا دور کی بات ان کی جانکاری حاصل کریں۔ وہ جب سے ممبر اسمبلی بنے ، کوئی درشن یہاں کے شہریوں کو نہ دیا لیکن جب الیکشن قریب آئے گا تو ان کی یہاں آمد ہوگی صرف ووٹ بٹورنے کے لئے ۔ مشکل حالات میں کبھی بھی بے بس عوام کی طرف ایک نظر بھی نہیں دیکھااور نہ یہ جانا کہ ان کی کیا گھمبیرپریشانیاںہیں۔ ریاستی حکومت کی سربراہ محترمہ محبوبہ مفتی صاحبہ نے بھی اقتدار میں آنے کے بعد یہی کارکردگی پیش کی کہ اس سے پہلے کبھی نہ تو اتنے معصوم لوگوں کا قتل عام ہوا اور نہ ہی پیلٹ گن سے اتنے لاتعداد نوجوان زخمی ہوئے اور نہ ہی لوگ اس سے پہلے بی جےپی اور آرایس ایس کے رحم وکرم پر رہے۔ پی ڈی پی کا بھاجپا سے ہاتھ ملانے کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ مرکزی سرکار زیادہ سے زیادہ فنڈ دے گی جس کے لئے خاتون وزیر اعلیٰ یہ کہتی ہیں کہ یہ مفتی صاحب کا خواب تھا لیکن عوام اُن سے سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا یہی خواب تھا وہ جس میں معصوم لوگوں کا قتل عام ہو ؟پیلٹ گن سے کشمیری نوجوان زخمی اور نابینابنے پھریں؟ بی جےپی حکومت کی نگرانی میں مسلمانوں پر اور زیادہ ظلم اور زیادتی ہو ؟ مودی سرکار نے اقتدار میں آنے کے بعد سے آج تک صرف ہندو مسلم اور علاقائیت و عقائدکے نام پر جھگڑے کروائے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جمو ں و کشمیر میں ٹورسٹوں کے لئے اسپیشل سکیورٹی کا انتظام کیا جاتا ہے مگر محترمہ وزیراعلیٰ صاحبہ! کیا آپ نے اس بات پر کبھی غور کیا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے مفاد میں کیوں اس طرح کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا ہے ؟بیرونِ ریاست جگہ جگہ کشمیری طالب علموں کو اور عام لوگوں کو بی جےپی کے بھگت پریشان کرتے ہیں اور اگر اس اتیاچار پر منہ کھولنے کی جرأت کی تو جواب میںالزام دیا جاتا ہے کہ تم دہشت گردہو، دیش دروہی ہو اور نہ جانے کیا کیا ۔ہماری آپ سے درخواست ہے کہ اس طرح کی انسان دشمنانہ اور جاہلانا حر کات نہیں ہونی چاہیے تھی اگر پی ڈی پی نے واقعی قطبین کا اتحاد کیا ہے بلکہ عوام کو پریشانیوں سے راحت ملنی چاہیے تھی نہ کہ ان کو نت نئے دکھوں کا سامنا کر پاپڑے۔ بہر حال سرحدوں پرفائر بندی کی زد میں آنے ہمارے دوراُفتادہ گاؤں کی زندگیاں ہی داؤ پر نہیں لگی ہیں بلکہ اس دورِ ترقی میں بھی وہ بہت بہت پیچھے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں ہر وقت اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ کب دوطرفہ گولی باری شروع ہو اور اسی شورشرابے میں سب کچھ تہس نہس ہو ۔ جنگ جیسی صورت حال کا اثر نہ صرف عام لوگوں کی معمولاتِ زندگی پر بری طرح مر تب ہوتے ہیںبلکہ اس کا بہت گہرا منفی اثر نوجوانوں کی تعلیم وتدریس پر بھی ہوتا ہے۔ ظلم تو برابر ہی ہے چاہے کوئی پیلٹ گن سے لوگوں کو زخمی کرتا پھر ے یا پھر سرحدوں پر فائرنگ سے لوگوں کے جان ومال کا اتلاف ہو۔ بلاشبہ ہم لوگ امن چاہتے ہیں ،ہم سرحد وں پر تناؤ اور کشیدگی سے پاک فضا کے متمنی ہیںتاکہ یہاں کے عام لوگ بھی امن اور چین کی زندگی بسر کر سکیں، تعلیم کا اجالا گھر گھر بستی بستی پھیلے ، معیارِ زندگی میں بہتری لائی جائے ۔ بھارت اور پاکستان کی قیادت کو چاہیے کہ فائر بندی کے لئے کوئی مکمل اور ناقابل توڑ منصفانہ حل نکالیں تاکہ عوام روز روز کے درد سر ، مسائل ، مصائب اورپریشانیوںسے راحت پائے۔ ریاستی حکومت اور ضلع انتظامیہ سے مودبانہ گذارش ہے کہ مذکورہ بالا گاؤں میں رہائش پذیر لوگوں کے بچاؤ میں موثرتدبیریں کر یں اور خاص کر یہاں ہمہ وقت ایمبولینس کی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ہنگامی حالات کا مقابلہ کا میابی کے ساتھ کیا جائے ۔ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے بھی گزارش ہے کہ جیسے انہوں نے کشمیر میں پیلٹ متاثرین زخمیوںاور ناگفتہ بہ حالات کے بھینٹ چڑھ کر لقمہ ٔ اجل بننے والوں کی امداد کی ہے، اسی طرح سرحدوں پر دوطرفہ فائرکی زد میں آئے لوگوں کی بھی فراخدلانہ معاونت کی جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ محض اپنے سیاسی فائدے کے لئے کام نہ کرے بلکہ سب کے مفاد کے لئے اور حق و انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر بے لوث کام ہوناچاہیے۔ پر یشان حال اور خستہ سامان سرحدی عوام کے جائز مطالبات کو رشوت خوری علاقائیت اور مطلب پرستی سے مشروط نہ کیا جائے بلکہ ان غیر انسانی روشوں سےہٹ کر عوامی مفاد میںکام سر انجام دیا جائے اور ہمیشہ عوام کی مجموعی بھلائی کے لئے کام کرنے کی صحت مند روایت قائم کی جائے ۔اسی سے ہماری ریاست کو تعمیر و ترقی اور تحفظ و یگانگت کی مالا میں پر ونے مدد ملے گی۔
نذیر حسین پسوال
طالب علم شعبہ سیاسیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،202002