جموں//ضلع سانبہ کے وجے پور علاقہ میں قائم کردہ ریلیف کیمپ میں پناہ گزین کرپال رام اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ سرحدی متاثرین کے مسائل پر سنجیدگی سے تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ بی جے پی ، جس نے چار برس قبل 26مئی 2014کو بھرپور اکثریت کے ساتھ مرکز میں سرکار تشکیل دی تھی، سرحدی مکینوں کے ساتھ لمبے چوڑے وعدے کئے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی وعدہ وفا نہ ہو سکا ہے ۔80سالہ بزرگ کا کہنا تھا کہ اس نے پاکستان کے ساتھ ہونے والی جنگیںاور متعدد بار سرحدی کشیدگی بھی دیکھی ہیں لیکن نریندر مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سرحدوں پر حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں ۔انتخابات کے دوران بی جے پی نے ہمیں محفوظ مقامات پر متبادل مکان کی تعمیر کیلئے اراضی مہیا کروانے، ہنگامی حالات کے لئے بنکروں کی تعمیر، عمدہ بنیادی ڈھانچہ اور طبی سہولیات کی فراہمی کا یقین دلایا تھا لیکن یہ سب وعدے کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں۔ کرپال رام جو سرحد سے دو کلو میٹر دور واقعہ ڈگ گائوں کے رہنے والے ہیں نے بتایا کہ 1947کی جنگ کے وقت میں 9سال کا تھا، 1965اور1971کی جنگوں میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ دیکھی ہیں اور مجھے لمحہ بہ لمحہ یاد ہیں، سب سے مشکل ہمارے لئے بے گھر ہونا تھا۔ لیکن اب تو ہمیں گھروں سے ضروری ساز و سامان نکالنے کا بھی موقعہ نہیں ملتا۔ گائوں والوں کا کہنا تھا کہ 1971کی ہند پاک جنگ کے بعد بیشتر سرحدی علاقہ جات پر امن تھے لیکن ستمبر2014کے ہمارا جینا حرام ہو گیا ہے ، پاکستان کی طرف سے براہ راست رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اکھنور سے کٹھوعہ تک قریب 200کلو میٹر بارڈر پاکستان کے ساتھ لگتا ہے جس میں رواں سال کے دوران جنگ بندی معاہدہ کی قریب 900خلا ف ورزیاں ہو چکی ہیںجس دوران فورسز اہلکاروں سمیت 50افراد ہلاک جب کہ 300دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں لوگوں کو گھر بار چھوڑنا پڑا ہے ۔ 81سالہ گوپال داس ساکن رسم پور نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ 1999کی کرگل جنگ کے دوران فوجوں کو تیار رہنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن دونوں طرف سے ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی تھی جب کہ آج یوں لگتا ہے کہ مارٹر گولوں کی برسات ہو رہی ہو۔انہوں نے کہا کہ سرحد اور کنٹرول لائن کے قریب بسے لوگوں نے جوق در جوق بی جے پی کو ووٹ دے کر دو ممبران پارلیمان اور 21ممبران اسمبلی کی جیت میں اہم کردار ادا کیا لیکن اس کے بعد حالات میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے حکومت کوئی معنی نہیں رکھتی، ہم مشکلات سے دوچار ہیں لیکن عوامی نمائندے ہم سے ملاقات کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ حکومت کی طرف سے حال میں 14460بنکر بنائے جانے کے اعلان کے بارے میں گائوں والوں کا کہنا ہے کہ جب آر پار فائرنگ شرو ع ہوتی ہے تو گھر سے باہر پائوں رکھنا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے ایسے میں کیمونٹی بنکروں کی تعمیر کوئی معنی نہیں رکھتی ، ہمیں انفرادی بنکر چاہئیں تا کہ ہم فائرنگ کے وقت ان میں پناہ لے سکیں۔ انہوں نے سرحدی علاقوں میں ابتر طبی سہولیات کی شکایت کرتے ہوئے بتایا کہ طبی سنٹروں میں بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے زخمیوں کو شہروں کی طرف منتقل کرنے میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔