سرحدی تنائو اور سفارتی کشیدگی کا شاخسانہ

سرینگر //بھارت اور پاکستان کے درمیان سال2018کے دوران زبردست سرحدی وسفارتی کشیدگی کے باعث جموں وکشمیر کے آر پار سفر کی سہولت بھی متاثر ہوئیں ۔حدمتارکہ پر گولہ باری اور دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں کشیدگی جاری رہنے کے باعث آر پار سفر کرنے والوں کی تعداد میں گذشتہ برس کے مقابلے میں نمایاں کمی آئی۔منقسم جموں وکشمیر کے بچھڑے لوگوں کو آپس میں ملانے کیلئے 13سال قبل کھولے گئے راہداری مراکز سے اگرچہ کشیدہ حالات کے دروان بھی لوگوں کی آمد ورفتکا سلسلہ جاری رہا تاہم ان تاریخی راستوں سے سفر کرنے کا رجحان اس برس کم ہوتا دکھائی دیا ۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے ریاست کے تین راہدری پوئنٹوں سے رواں سال جنوری سے نومبر تک صرف 2232لوگوں نے سفرکرکے اپنے عزیز واقارب سے ملاقات کی۔ ان افراد میں 1918نے مظفرآباد سے سرینگر کا سفر کیا جبکہ 315افراد سرینگراور وادی کے دیگر مقامات  سے ایل اوسی پار اپنے رشتہ داروںسے ملنے گئے ۔ذرائع نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پونچھ اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں راولاکوٹ کے درمیان 2005میں شروع کی گئی بس سروس کے ذریعے اگرچہ آر پار لوگوں کی آواجاہی کا سلسلہ کشیدہ حالات کے بیچ بھی جاری ہے تاہم گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال اس راہداری پوئنٹ سے کم تعداد میں لوگوں نے آر پار سفر کیا ہے ۔ذرائع نے بتایا کہ جہاں سال2017میں 88لوگ پونچھ سے اُس پار اپنے رشتہ داروں کو ملنے گئے اور وہاں سے 1002افراد نے یہاں کا دورہ کیا تاہم اس کے بہ نسبت رواں سال یکم جنوری سے 30نومبر 2018تک صرف 27لوگ پونچھ راجوری اور دیگر پہاڑی علاقوں سے سرحد کے اُس پار اپنے رشتہ داروں کو ملنے گئے ہیں جبکہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے مختلف علاقوں سے اس راہداری پوائنٹ کے زریعے 1012افراد نے یہاں کا سفر کر کے اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کی ۔اسی طرح کرناہ کے سرحدی علاقہ ٹیٹوال اور چلہانہ کے درمیان 2005میں قائم کئیگئے کراسنگ پوائنٹ سے اس سال کل 15افراد نے آر پار کا سفر کیا ۔ان افراد میں صرف ایک شہری مظفرآباد سے یہاں آیا جبکہ ٹنگڈار کیرن اور مژھل سے سرحد پار صرف 14مسافروں نے سفر کر کے اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کی ۔معلوم رہے کہ اس کراسنگ پوائنٹ کو سرما آتے ہی بند کر دیا جاتا ہے جبکہ لوگوں نے کئی بار مطالبہ کیا کہ اس کو پورا سال لوگوں کی آواجاہی کیلئے کھلا رکھا جائے جبکہ اس کراسنگ پوائنٹ سے ہر گزرتے سال کے دوران آر پار سفر کرنے والے لوگوں کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے گذشتہ سال اگرچہ 25افراد نے آر پار سفر کیا تھا تاہم اس سال صرف 15افراد ہی اس کراسنگ پوئنٹ سے آر پار سفر کر سکے ۔اسی طرح اوڑی سے کاوان امن بس سروس کے ذریعے روان سال یکم جنوری سے 24نومبر 2018تک کل 1179افرادنے اپنے رشتہ داروں سے ملنے کا موقعہ حاصل کیا ۔ذرائع نے بتایا کہ کاروان امن بس سروس اوڑی سے274افراد نے اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کی جبکہ مظفرآباد سے سرینگر 905مسافر آئے۔ معلوم رہے کہ 16 فروری2005 ء کو جنرل پرویز مشرف کے وزیر خارجہ خورشید قصوری اور بھارتی اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے وزیر خارجہ نٹور سنگھ کے درمیان مذاکرات ہوئے جس کے بعد سرینگر مظفر آباد ،ٹیٹوال چلہانہ اور پونچھ راولاکوٹ کے درمیان 7اپریل 2005کو یہ راہداری پوئنٹ کھولے گے۔لیکن منقسم خاندانوں کا کہنا ہے کہ یہ بس سروس جوامیدوں کے عین مطابق بے بس سروس ثابت ہوئی ہے اس کے ذریعے آرپارآنے جانے والے لوگوں کیلئے ویزے اور پاسپورٹ کی شرط لازمی قرارنہیں پائی بلکہ دونوںحکومتوںنے اس دوران سفری دستاویز کے طور پرایک پرمٹ جاری کیا تھامگر پچھلے تین برسوں سے اس پرمٹ کاحصول نہایت ہی سخت بنادیاگیاجس کی وجہ سے ابھی بھی ہزروں کی تعداد میں لوگ آر پار سفر نہیں کرسکے ۔