سرحدی آبادی کا کچھ خیال کریں!

 جموںوکشمیرمیں سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے فوج کی جانب سے کی گئی تار بندی کی وجہ سے2.5لاکھ کنال اراضی اور ہزاروں مکانات تار بندی کے اُس پار رہ گئے تاہم آج تک اراضی اور مکان مالکان کو کوئی معاوضہ فراہم نہیں کیاگیا۔ان باتوں کا انکشاف وزارت داخلہ نے    حق اطلاعات قانون کے تحت دائر ایک عرضی کے جواب میں کیا ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ضلع پونچھ ہے جہاں ایک لاکھ 43 ہزار 643 کنال اراضی سرحد پر تار بندی کی وجہ سے حصار کے اُس پار رہ گئی ہے اور نتیجہ کے طور یہ اراضی بنجر بن چکی ہے۔ کٹھوعہ سے لیکر کپوارہ اور اوڑی سے لیکر پونچھ تک پھیلی کنٹرول لائن حقیقی معنوں میں انسانی آبادی کیلئے وبال جان بن چکی ہے کیونکہ جہاں حد متارکہ پر لاکھوں کنال زرعی و غیر زرعی اراضی اس باڑ بندی کی زد میں آکر لوگوں کی دسترس سے باہر ہوچکی ہے وہیں ہزاروں مکانات بھی ایسے ہیں جو اس کی زد میں آچکے ہیں اور ان مکانوںمیں رہنے والے لوگوں نے یا تو انہیں خالی کردیا ہے یا اگر کوئی ان میں رہائش پذیر بھی ہے تو ان کی زندگی اجیرن بن چکی ہے کیونکہ وہ ہمہ وقت محصور رہتے ہیں۔تار بندی کے اُس پار قائم ان مکانوں کیلئے واحد راستہ فوج کی جانب سے قائم کئے گئے وہ مرکزی دروازے ہوتے ہیں تو شام ہونے سے قبل ہی بند ہوجاتے ہیں اور صبح 9بجے کے بعد ہی کھلتے ہیں۔ایک وقت تھا جب کانگریس حکومت کے دور اقتدار میں پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی نے کی سفارشات پر مرکزی وزارت داخلہ نے ایک تجویز طلب کی تھی تاکہ سرحد پر رہائش پذیر لوگوں کی مالی معاونت اور محفوط پناگاہیں فراہم کی جائیں،جو5مرلہ زمین سے زیادہ نہ ہو اور اس سلسلے میں سابق قانون ساز کونسل میں ایک قرار داد بھی منظور کی گئی تھی ۔اس کے بعد 2013میں اس بات کا اعلان بھی کیا گیاتھا کہ تا ر بندی کی زد میں آنے والے لوگوں اور سرحدوںکے انتہائی قریب رہائش پذیر عوام کو محفوظ مقامات کی جانب منتقل کیاجائے گا جہاں انہیں5مرلہ اراضی کے پلاٹ فراہم کئے جائیں گے تاکہ گولہ باری کے وقت انسانی جان و مال کے زیاں کو روکا جاسکے تاہم بعد ازاں وزارت داخلہ کے ساتھ مشاورت کر کے اس پر اتفاق پایا گیا کہ الگ الگ اراضی فراہم کرنے کی بجائے سرحدی آبادی کو اپنے ہی علاقوں میں مشترکہ پناہ گاہیں فراہم کی جائیں، جس سے سرحدی آبادی بھی منتقل نہ ہو اور ہنگامی حالات کے وقت وہ اپنے آپ کو بچابھی سکیں۔ بعد ازاں مرکزی وزارت داخلہ کوتجویز پیش کی گئی جس میں20ہزار125کیمونٹی بنکر تعمیر کرانے کی سفارش کی گئی جس پر1006کروڑ25لاکھ روپے خرچہ آنے کا امکان تھا اور اس وقت یہ بنکر مختلف اضلاع میں زیر تعمیر بھی ہیں ۔سرحدی آبادی کو کمیو نٹی بنکروں میں بسانا اس سنگین مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ لوگ جن علاقوں میں رہائش پذیر ہیں ،وہ سرحد کے انتہائی نزدیک ہونے کی وجہ سے نہ صرف ہمہ وقت گولہ باری کے خدشات کی زد میں رہتے ہیں بلکہ یہ سارے علاقے زیر زمین بچھائی گئی بارودی سرنگوں کی لپیٹ میں ہیں اور آج تک سینکڑوں لوگ ان بارودی سرنگوں کی زد میں آکر یا تو لقمۂ اجل بن گئے یا پھرہمیشہ کیلئے اپاہج بن کر رہ گئے۔ چند روز قبل ہی پونچھ میں میاں بیوی اور ان کا بیٹا گولہ باری کی نذر ہوکر اپنی متاع حیات سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ سرحدی آبادی کے سروں پر موت ہر وقت لٹکتی رہتی ہے اور ایک معمولی سا سہو یا چھوٹی سی غلطی بھی ان کیلئے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے ۔سرحدی آبادی کے مسائل و مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک تو وہ اپنی ملکیتی اراضی سے محروم ہوگئے اور کھیتی باڑی سے ہاتھ دھو بیٹھے ،دوم انہیں اس اراضی کا کوئی معاوضہ بھی نہیں مل رہا ہے۔ایسے میں یہ لوگ جائیں تو کہاں جائیں؟۔یہ ایک عمومی صورتحال نہیں بلکہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کا فوری حل ناگزیر بن چکا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ سرحدی آبادی کو درپیش مشکلات کو سنجیدگی سے لیکر سیاست کرنے کی بجائے انکے حل کیلئے عملی اقدامات کرے ۔اس ضمن میں جہاں سرحدی آبادی کو تار بندی کے دائرے سے نجات دلانے کی ضرورت ہے وہیں اُ نہیں اُس اراضی کا معاوضہ بھی فراہم کیاجانا چاہئے جو تار بندی کی زد میں آچکی ہے ۔اس کے علاوہ کم از کم سرحدی مکینوں کو اُس علاقہ سے نکالنے کی ضرورت ہے جہاں زیر زمین بارودی سرنگیں بچھائی گئی ہیں تاکہ وہ ناکردہ گناہوں کی پاداش میں موت کا نوالہ نہ بن جائیں ۔حکومت جتنی جلدی اس انسانی مسئلہ کو حل کرتی ہے اتنا ہی بہتر رہے گا اور جتنا اس میں تاخیر کی جائے گی ،اتنا ہی تباہ کن نتائج برآمد ہونگے کیونکہ ہندوپاک تعلقات کے بارے میں کبھی کچھ وثوق کے ساتھ کہا نہیںجاسکتا ہے ۔یہ پل میں تولہ اور پل میں ماشہ بن جاتے ہیں اور خدا نہ کرے ،کشیدگی اگر اسی طرح بڑھتی رہی تو اس کا خمیازہ سب سے پہلے سرحدی آبادی کو ہی بھگتنا پڑے گا ۔اس لئے سب سے پہلے اس آبادی کو تحفظ فراہم کر ناہوگا اور اس ضمن میں انہیں زمین و مکان کا معاوضہ فراہم کرنے کے علاوہ با عزت و محفوظ زندگی گزار نے کا حق میسر رکھنا چاہئے ۔