گورنر ستیہ پال ملک نے جموں کشمیر کی زمام کار سنبھالنے کے طویل عرصہ بعد پریس کانفرنس میں لوگوں کو یقین دلایا کہ دفعہ 370کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور ڈی لمٹیشن سے متعلق خبریں محض افوا ہ ہے اور کشمیریوں کو تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے مسلح نوجوانوں سے ہتھیار چھوڑنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری لیڈروں نے آزادی، اٹانومی اور سیلف رُول کے ’جھوٹے سپنے‘ دکھا کر نوجوانوں کو گمراہ کیا ہے۔ انہوں نے نہایت مبہم انداز میںنوجوانوں کو کشمیرکی خود نمائندگی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی آئین کے اندر اندر وہ جو چاہیں دلی سے مانگ سکتے ہیں۔ انہوں نے ملی ٹینٹوں سے براہ راست مخاطب ہوکر کہا کہ ، ’’جموں کشمیرکا اپنا آئین اور اپنا پرچم ہے۔ اور کیا چاہیے، اور اگر اور بھی کوئی شکایت ہے، کوئی مطالبہ ہے تو راج بھون میں آئیے اور چائے پر مجھ سے بات کیجئے، میں سننے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اسے عسکریت پسندوں اور حریت قیادت کے لئے سرکاری دعوت نامہ سمجھا جائے، گورنر نے بتایا کہ انہیں آفیشل طور پر کسی کو مدعو کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اس تضاد سے قطع نظر ، گورنر کے اس بیان کو اس کے درست پس منظر میں سمجھنا ضروری ہے۔
اول تو یہ ہے کہ جب سے نریندر مودی دوبارہ وزیراعظم اور پارٹی چیف امیت شاہ وزیرداخلہ بنے ہیں گورنر ملک نے دو مرتبہ دلی کا دورہ کرکے مسٹر شاہ کو کشمیرکے اندرونی حالات کے بارے میں بریف کیا۔امیت شاہ انتخابی مہم کے دوران دو مرتبہ کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن کو ختم کرنے کا وعدہ کرچکے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا انتخابی جیت کے بعد امیت شاہ کا اس بارے میں ارادہ بدل گیا ؟ یا پھر گورنر ملک نے امیت شاہ کو نادانستہ بائی پاس کیا؟ اگر پہلی بات درست ہے تو ضرور کسی دُور اندیش حکمت عملی کے تحت کشمیر میں خوف کی فضا کو ہٹانے کی کوشش ہے۔ جہاں تک دوسری یعنی ملک کا شاہ کو بائی پاس کرنے والی بات کا تعلق ہے ، تو ایسا خلاف توقع ہے، کیونکہ اندرا گاندھی کی ایمرجینسی کے بعد پہلی مرتبہ دلی میں نہایت مرکزپسند حکومت ہے ، جسکا چہرہ تو جمہوری ہے لیکن اس کی پرداخت میں آمریت کی آمیزش ہے۔ گورنر ملک کاسوشلسٹ ماضی اور اُن کی آزادانہ طبعیت ایک طرف، وہ مرکز کو اعتماد میں لئے بغیر اتنی بڑی بات نہیں کہہ سکتے۔ قابل ذکر ہے کشمیرمیں اس ماہ کے آخر پر شری امرناتھ گھپا کی سالانہ یاترا شروع ہونے والی ہے۔ یاترا کا پہلگام والا راستہ حساس ترین کولگام، پلوامہ اور اننت ناگ سے ہوکر گزرتا ہے۔ کشمیرمیں حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے تعینات مختلف ایجنسیوں کے بریف میں بتایا گیا تھا کہ یاترا کی سیکورٹی کے بارے میں لاپرواہی نہیں برتی جاسکتی۔اور پھر پہلگام روڑ پر ہی عرصہ دراز بعد فورسز پر مسلح ایمبُش میں افسر سمیت پانچ فورسز اہلکار ہلاک ہوگئے۔ پولیس کے مطابق جوابی کاروائی میں ایک ملی ٹینٹ بھی مارا گیا۔
یہ سب گورنر ملک کے بیان کے پیش منظر میں ہوا۔یہ حملہ ایسے پس منظر میں ہوا جب پاکستان کی لاکھ کوششوں اور یکطرفہ رعایتوں کے باوجود مودی حکومت مفاہمانہ روش سے احتراض کررہی ہے۔ پاکستان بھی جانتا ہے کہ مودی نے انتخابات پاکستان مخالف نعرے پر جیتا ہے، لہٰذا اُس جانب سے ویٹ اینڈ واچ کی پالیسی پر عمل ہورہا ہے۔ لیکن ایسے وقت جب پاکستان پوری دنیا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے مسلح انسرجنسی کو ایکسپورٹ نہیں کررہا ہے، کشمیر میں ایک حملہ ہوتا ہے اور دوسرے ہی دن گورنر ملک اس حملے کی منصوبہ سازی کیلئے پاکستان پر الزام عائد کرتے ہیں۔وہ بھی عین اُسی روز جب کرغزستان میں عمران خان اور نریندر مودی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔بہرحال، ہم واپس گورنر صاحب کے آفر پر آتے ہیں۔
ایک جانب گورنر ملک کے مفاہمانہ لہجے سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ یہاں کے نوجوان سیاستدانوں کی طرف سے خوابوں کی تجارت کے شکار ہوکر تشدد کے راستہ پر چلے گئے اور انہیں واپس لانے کے لئے ڈائیلاگ کرنا ضروری ہے، اور دوسری جانب وہ کہتے ہیں کہ سیکورٹی اور سراغرسانی کی بے مثال اور دبیض چادر کو چیرتے ہوئے پاکستان عالمی دباؤ کے بیچوں بیچ آج بھی کشمیر میں تخریبی ایکشن کرنے کا اہل ہے!چونکہ حکام کے استدلال پر سوال کرنے کی روش ناپید ہے، لہذا یہاں کے سیاسی حلقے دم بخود ہیں، لیکن مسلح نوجوانوں کو راج بھون میں مدعو کرکے گورنر صاحب نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ نئی دلی کی نمائندہ علامت اب یہاں کے ہندنواز حلقوں کا گورننس ڈھانچہ نہیں بلکہ گورنرہاؤس ہے، اور یہ پیغام کہ بات اُن سے کرنی ہے جو گراؤنڈ پر لڑرہے ہیں، نہ کہ اُن سے جو مسلح قوتوں کا حوالہ دے کر نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اگر واقعی اس بیان کے پس پردہ یہی سوچ ہے تو یہ وقت گزاری کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ مذاکرات بجائے خود ایک جمہوری ادارہ ہے، جو دیرینہ نتازعات کو حل کرنے اور عوام میں حکومت بیزاری کی وجوہات کی نشاندہی کرنے اور اُنہیں دُور کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جب امریکہ افغانستان میں مذاکرات کی بات کرتا ہے تو وہ یہ نہیں کہتا ہے کہ وہ قندہار، قندوز اور ہیلمند میں لڑنے والے جوانوں سے بات کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ نے باقاعدہ طالبان کے نمائندہ لیڈروں کو جرمنی، روس اور قطر کے دورے کرنے کی اجازت دی، یہاں تک کہ قطر میں باقاعدہ طالبان کا مذاکراتی دفتر ہے۔ اور یہ سب ایسے وقت ہورہا ہے جب طالبان نے سیز فائر نہیں کیا ہے اور پرتشدد واقعات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
واضح رہے گزشتہ پانچ ماہ کے دوران فوجی آپریشن کے دوران 115سے زیادہ ملی ٹینٹ مارے گئے جن میں سے پولیس کا دعوی ہے کہ چالیس سے زیادہ جیش محمد کے کمانڈر تھے۔ جیش نے ہی فروری کے پلوامہ حملے کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔ جہاں تک عسکریت پسندوں کی قیادت کا تعلق ہے تو پاکستانی زیرانتطام کشمیر میں سید صلاح الدین ہیں اور کشمیر میں حزب المجاہدین کے ریاض نائیکو۔ گورنر نے ان میں سے کسی کا نام نہیں لیا۔ کئی سال سے بالکل اسی طرح نہایت مبہم انداز میں’’نوجوان‘‘ کی اصطلاح استعمال کرکے بیانیوں کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ ورنہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ عمران راہی اور بابر بدر وغیرہ نے 1995میں اُسوقت کے وزیرداخلہ ایس بی چوہان کے ساتھ نئی دلی میں بات چیت کی، اُس سے قبل جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک نے یکطرفہ سیز فائر کا اعلان کرکے پرامن سیاسی مزاحمت کا اعلان کیا، بعد ازاں 2000میں حزب المجاہدین کے کمانڈر عبدالمجید ڈار نے دیگر کمانڈروں کے ہمراہ سرینگر کے ہوم سیکریٹری کمل پانڈے کے ساتھ بات چیت کی۔ بعد میں دیگر حریت رہنماوں کے ساتھ ساتھ سابق عسکری کمانڈر اور لبریشن فرنٹ کے قائد یاسین ملک نے2006میںاُسوقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ کے ساتھ بات چیت کی۔یہ سب کاوشیں بغیر نتیجہ اپنے اپنے اختتام کو پہنچی۔ اگر واقعی گورنر ملک کی محتاط ستیہ وانی مودی 0.2کی کسی دُور اندیش پالیسی کا حصہ ہے، تو حکومت سے یہ سوال پوچھا جانا ضروری ہے کہ مذاکراتی انسچوشن کو منہدم کرکے کون سے گراونڈمیں مذاکرات ہونے ہیں، اور اگر کوئی ایسا تھیٹر سجانے کی تیاری ہے جس میں بغیر کرداروں کے کوئی ڈائریکٹر سٹیج پر آکے محض ڈرامہ پڑھ کر سنائے تو وہ الگ بات ہے!
’’ ہفت روز ہ نوائے جہلم سرینگر‘‘