سب سے بڑی کہکشاں اور سب سے چھوٹی بیٹری تحقیق و تکنیک

ویب ڈیسک

ماہرین فلکیات خلا میں تحقیقات کرکے نت نئی کہکشاں در یافت کررہے ہیں، اس ضمن میں فلکیاتی ماہرین کی ایک ٹیم نے کائنات میں اب تک کی سب سے بڑی کہکشاں دریافت کی ہے جو 16.3 ملین (ایک کروڑ 63 لاکھ) نوری سال جتنی بڑی ہے۔یعنی اس ایک کہکشاں میں ہماری ملکی وے جیسی 100 کہکشائیں سما سکتی ہیں۔’’ایلسایونیئس‘‘ (Alcyoneus) کہلانے والی یہ کہکشاں ہم سے تین ارب نوری سال دور ہے، جس سے طاقتور ریڈیو لہریں خارج ہورہی ہیں۔ اسی بناء پر یہ ریڈیو کہکشاؤں میں شمار کی جاتی ہے۔واضح رہے کہ عام کہکشاؤں کے مقابلے میں ان کہکشاؤں سے ریڈیو لہریں بہت زیادہ خارج ہوتی ہیں جنہیں ہماری آنکھیں تو نہیں دیکھ سکتیں لیکن ریڈیو سگنل پکڑنےوالا انٹینا انہیں ضرور محسوس کرلیتا ہے۔ ایلسایونیئس ریڈیو کہکشاں اگرچہ بہت پہلے دریافت ہوچکی تھی لیکن اس کی غیرمعمولی جسامت کا انکشاف ریڈیو دوربینوں کے عظیم الشان یورپی منصوبے ’’لوفار‘‘ (LOFAR) یعنی ’’لو فریکوینسی ایرے‘ ‘سے حالیہ برسوں میں کیے گئے مشاہدات پر نظرِ ثانی کے دوران ہوا ہے۔

لوفار کے تحت یورپ میں 52 مقامات پر آسمانی مشاہدے کےلیے 20 ہزار حساس ریڈیو انٹینا نصب ہیں جو ایک ساتھ مل کر کسی بہت بڑی ریڈیو دوربین کی طرح کام کرتے ہیں۔ بعض ریڈیو کہکشائیں بہت بڑی ہوتی ہیں جنہیں’’جی آرجیز ‘‘(GRGs) یعنی جائنٹ ریڈیو گیلیکسیز کہا جاتا ہے۔ لائیڈن یونیورسٹی ہالینڈ سے مارٹن اوئی کی قیادت میں برطانیہ، فرانس، جرمنی اور جنوبی افریقا کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم نے لوفارمنصوبے کے تحت اب تک دیکھی گئی دیوقامت ریڈیو کہکشاؤں کا نئے سرے سے جائزہ لینا شروع کیا۔اس جائزے کا مقصد ان ریڈیو تصویروں میں سب سے بڑی کہکشاں تلاش کرنا تھا۔ریڈیو کہکشاؤں میں ستاروں، گیس کے بادلوں اور مرکز میں ایک عظیم الشان ’’سپر میسیو بلیک ہول‘ ‘سمیت، وہ سب کچھ ہوتا ہے جو کسی دوسری کہکشاں میں پایا جاتا ہے۔البتہ ریڈیو کہکشاں کے مرکز سے باردار (charged) ذرّات پر مشتمل پلازما کی طاقتور بوچھاڑیں نکل رہی ہوتی ہیں جب کہ کان کی لو (lobes) جیسی دیوقامت ساختیں بھی نمایاں ہوتی ہیں جو لاکھوں نوری سال دور تک پہنچتی ہیں جنہیں صرف ریڈیو لہروں کی مدد ہی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ خصوصیات دوسری کہکشاؤں میں بہت کم ہوتی ہیں۔ ماہرین نے دیکھا کہ ایلسایونیئس میں کان کی لو جیسی ساختیں، اس کے مرکز سے ناقابلِ یقین فاصلے تک پھیلی ہوئی تھیں۔ محتاط پیمائش پر کہکشانی مرکز سے ان کی دوری کم از کم 5 میگا پارسیک (1 کروڑ 63 لاکھ نوری سال) معلوم ہوئی، یعنی یہ اب تک دریافت ہونے والی سب سے بڑی ریڈیو کہکشاں بھی ہے۔

ماہرین نے دنیا کے مختصر روبوٹ اور خردبینی سینسر بنائے ہیں لیکن انہیں بجلی دینے کا معاملہ اب بھی بڑا مسئلہ ہے، اس مسئلے کو دیکھتے ہوئے جرمنی یونیورسٹی آف کیم نٹس کے سائنس دانوں نے دنیا کی سب سے چھوٹی بیٹر ی تیارکی ہے جو دیکھنے میں نمک کے ذرّے کے برابر ہے۔ ان کے مطابق یہ سوئس رول سے متاثر ہوکر بنائی گئی ہے جو ازخود منظم (سیلف اسمبلی) کے تحت وجود میں آتی ہے۔اسے سب سے پہلے جسم کے اندر موجود مائیکروبوٹ اور سینسر میں استعمال کیا جائے گا۔ جنہیں بجلی دینا ایک پرانا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ماہرین نے بجلی جمع کرنے والے برقیروں (الیکٹروڈ) رول پراتھے کی شکل میں بنائے ہیں اور ان میں پولی میرک، دھاتی اور ڈائی الیکٹرک مٹیرئیل استعمال کئے گئے ہیں۔ یہ سب ایک ویفر پر لگائے گئے ہیں۔ یوں خردبینی بیٹری بیلن نما شکل اختیار کرجاتی ہے۔ اس طرح یہ بیٹری فی مربع سینٹی میٹر 100 مائیکروواٹ بجلی پیدا کرسکتی ہے اور اندرونی تناؤ کی وجہ سے برقی رو پیدا کرتی ہے۔ سائنسدانوں نے کے مطابق مائیکروفیبریکیشن کی بدولت یہ بہت ہی باریک سرکٹس کو بجلی فراہم کرسکتی ہے۔ ایسے آلات بدن میں رہ کر خون کی روانی، آکسیجن کا لیول یا خون میں گلوکوز کی مقدار معلوم کرسکتے ہیں اور انسانی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ طبی استعمال کے ساتھ ساتھ انہیں روبوٹک سسٹم اور انتہائی لچکدار برقیات میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔