سعدہ بینزکون
سانس پھول جانے کا مسئلہ مختلف حالات جیسے زیادہ سخت ورزش یا تیزی سے چلتے یا بھاگتے ہوئے کہیں جانے سے ہوسکتا ہے۔مگر یہ اس وقت بہت تشویشناک لگتا ہے جب کوئی عام کام جیسے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس پھول جائے۔سانس پھولنے کے لیے ڈسپینیا (Dyspnea) کی طبی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے اور امریکا کے مایو کلینک کے مطابق اس کے ساتھ سینے میں شدید کھچاؤ، ہوا کی زیادہ ضرورت یا دم گھونٹنے جیسے احساسات بھی ہوسکتے ہیں۔اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں جن کے باعث یہ ذہشت زدہ کردینے والا تجربہ ہوتا ہے جن میں سے کچھ سنگین اور کچھ بے ضرر ہوتی ہیں۔اگرچہ آپ کو اندازہ نہیں مگر سانس لینے کا عمل بہت پیچیدہ ہوتا ہےپھیپھڑوں، سانس کی نالی، شریانوں، مسلز اور دماغ کے متعدد ریسیپٹرز جسمانی ضروریات کے مطابق سانس لینے کے عمل کے لیے کام کرتے ہیں۔تو اگر آپ کو دمہ ہے، تو اس بیماری میں سانس کی نالی تنگ، سوج اور بہت زیادہ بلغم تیار کرتی ہے، جس کے باعث جسمانی سنسرز شناخت کرتے ہیں کہ جسم کو مناسب مقدار میں آکسیجن نہیں مل رہی اور خطرے کی گھنٹی بجنے لگتی ہے۔ماہرین کے مطابق اس سے آپ کو لگ سکتا ہے کہ ہوا کے حصول کے لیے مزید کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
سانس پھولنا ہمیشہ بڑا مسئلہ نہیں ہوتا:
کوئی عام کام جیسے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس لینے میں مشکلات کئی بار لوگوں کو پریشان کردیتا ہے۔سنسناٹی یونیورسٹی کے کالج آف میڈیسین کی پھیپھڑوں کے امراض کی ایسوسی ایٹ پروفیسر سعدیہ بینزکون کے مطابق ضروری نہیں کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ ہو۔انہوں نے بتایا کہ اگر آپ کسی عمارت کے گراؤنڈ فلور پر رہتے ہیں اور سیڑھیاں چڑھنے کے عادی نہیں ہوتے، تو یہ غیرمعمولی نہیں کہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس کچھ پھول جائے۔انہوں نے بتایا کہ ایسے حالات میں سانس کسی حد تک پھول جانا عام معمول کا حصہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عام جسمانی سرگرمیوں سے سانس پھول جاتا ہے اور آپ کو یاد نہیں کہ آخری بار ورزش کب کی تھی تو بہتر ہے کہ اسے معمول بنالیں۔ایسا کرنے سے مسلز کے افعال زیادہ بہتر ہوتے ہیں اور انہیں کام کے لیے کم آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ وہ کم کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی خارج کرتے ہیں۔یعنی ورزش کرنے سے ہوا کی ضرورت میں کمی آتی ہے اور ورزش شروع کرنے سے پہلے یہ برا خیال نہیں کہ ڈاکٹر کے پاس جاکر دل اور پھیپھڑوں کی صحت کی جانچ پڑتال کرالیں۔اس کے برعکس اگر ورزش کرنا آپ کا معمول ہے اور پھر بھی روزانہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس پھول جاتا ہے تو یہ ضرور قابل تشویش ہے۔پروفیسر سعدیہ نے کہا کہ اگر سیڑھیاں چڑھنے کے مقابلے میں کم شدت والی جسمانی سرگرمیوں جیسے نہانے یا کچھ چلنے سے بھی لگتا ہے کہ سانس لیا نہیں جارہا تو یہ ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا اشارہ ہوتا ہے۔ان کے مطابق صحت مند جوان افراد کو عام سرگرمیوں میں سانس کے مسائل کا سامنا نہیں ہونا چاہیے۔
متعدد طبی مسائل بھی اس کا باعث بنتے ہیں :
کچھ امراض جیسے دمہ کے بارے میں تو لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ سانس لینے میں مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔مگر دیگر سنگین وجوہات میں نمونیا، کاربن مونو آکسائیڈ پوائزننگ، ہار اٹیک، ہارٹ فیلیئر، پھیپھڑوں کے امراض قابل ذکر ہیں۔ہر بیماری میں سانس پھول جانے کا میکنزم تھوڑا مختلف ہوتا ہے جس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ جسم کے کونسے حصے کے سنسرز اس عمل کا حصہ ہیں۔ان سب کی دیگر متعدد علامات بھی ہوتی ہیں تو ضروری نہیں کہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس پھول جانا واقعی صحت کی کسی سنگین خرابی کا نتیجہ ہو۔مگر اوپر درج امراض کے سنگین اثرات کے پیش نظر بہت زیادہ سانس پھول جانے پر ڈاکٹر سے معائنہ کرلینا چاہیے۔اگر سانس پھولنا ہی واحد علامت ہے تو بھی اگر سانس لینے میں حقیقی مشکل کا سامنا ہوتا ہے تو ڈاکٹر کا رخ کریں۔
ڈاکٹروں کی جانب سے جو اقدامات کیے جائیں گے ان کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آپ کو کن دیگر علامات کا تجربہ ہورہا ہے، اگر ہورہا ہے یا کن بیماری کو شبہ ہوسکتا ہے۔
تو وجہ جو بھی ہو سانس کے مسائل کا سامنا ہونے کی صورت میں جتنی جلد ڈاکٹر سے رجوع کرلیں اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔