سالانہ7لاکھ لوگ خود کشی کرتے ہیں

عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 280ملین یعنی اٹھائیس کروڑ لوگ ذہنی دباؤ کے شکار ہیں۔جوکہ دنیا کی کُل آبادی کا تقریباً4 فیصد ہے ۔مطلب یہ کہ ہر 100افراد میں سے 4 لوگ ذہنی دباؤ کے مرض میں مبتلا ہیں۔ان میں 5 فی صد بڑی عمر کے لوگ بھی شامل ہیں ۔بڑی عمر کے لوگوں میں سے بھی جو لوگ60 سال کی عمر تجاوز کرچکے ہیں ،اُن میں ذہنی دباؤ کا تناسب اوروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے ۔
 رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا میں اوسطاً 7لاکھ لوگ خودکشی کرتے ہیں ،جن میں اکثریت اُن نوجوانوں کی ہیں، جنکی عمریں عام طور پر 15 سے 29 برس کے درمیان ہوتی ہیں۔خودکشی اس وقت دنیا میں اسبابِ موت کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔در حقیقت خودکشی ذہنی دباؤ کا ہی نتیجہ ہے۔مگر بدقسمتی سے ذہنی دباؤ کے شکار کروڑوں لوگوں میں سے 75 فیصدی لوگ علاج و معالجے سے محروم ہیں۔اس پہ مستزاد یہ کہ اس انسانی جسم و ذہن کو مفقود کرنے والی بیماری کے متعلق لوگ اوّل تو فکرمند ہے ہی نہیں ، اور جو ہیں بھی،وہ اس سے بچنے اور بچانے کے ایسے حل اور تجاویز پیش کرتے ہیں ،جو ایک عام فرد کے لیے تقریبًا ناقابلِ عمل ہوتے ہیں۔اس مضمون میں ہم کوشش کریں گے کہ چند قابلِ عمل حل بتائیں تاکہ دماغی طور صحت مند لوگ پیشگی طور پر ہی اس بیماری سے خود کو بچاسکیں اور جو اس میں پہلے سے ہی مبتلا ہیں، وہ بھی ان مایوسیوں کی تاریکیوں سے باہر آسکیں۔اس مرض میں مبتلا افراد میں جو علامات پائی جاتی ہیں ،ان میں سے چند حسبِ ذیل ہیں :
۱۔خوشی محسوس نہ ہونا،۲۔ کسی کام پہ توجہ مرکوز نہ کر پانا،۳۔ خطرناک حد تک کسی بات کا پچھتاوا ہونا،۴۔ خودکشی کے خیالات آنا ،۵۔ تنہائی پسند ہونا،۶۔خود کو دوسروں سے کم تر سمجھنا،۷۔اپنا مستقبل تاریک دِکھنا ،۸۔بات بات پر جھگڑنا وغیرہ۔
ایک دماغی طور پر صحت مند انسان ذہنی دباؤ کا شکار کیوں ہوتا ہے ؟ اسکی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔جیسے:۔۱۔کسی عزیز کے اس دنیا سے چلے جانے کا غم ،۲۔ کوئی خطرناک منظر دیکھنا ،جیسے کسی کو بے دردی کے ساتھ قتل ہوتا دیکھنا،یا سڑک حادثے میں کسی کو اپنے سامنے تڑپتا اور مرتا دیکھنا،۳۔ ماضی میں ہوچکی غلطیوں پر حد سے زیادہ پریشان ہونا،۴۔مستقبل کے لیے خطرناک حد تک فکر مند ہونا،۵۔منشیات میں ملوث ہونا،۶۔امیدوں کے مطابق کام نہ ہونا ،۷۔ بھروسہ مند لوگوں سے دھوکہ کھانا،۸۔مناسب وقت پر رشتہ نہ ہونا،۹۔لوگوں کی طرف سے قابلِ تحسین کاموں کو نہ سراہا جانا،وغیرہ۔
یہ تھیں چند باتیں جن کو تمہیداً بیان کرنا ضروری تھا۔اب آتے ہیں اصل مسئلے کی طرف کہ ذہنی دباؤ سے بچنے کی عملی تدابیر کیا ہیں ؟
۱۔ سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کریں کہ یہ جو زندگی آپ گزاررہے ہیں ، یہ دنیا کی زندگی ہے،جنت کی نہیں ! یہاں خوشیاں بھی ہیں اور غم بھی ۔جو یہ کہے کہ دنیا سراسر عذاب ہے وہ کذّاب ہےاور جو یہ کہے کہ دنیا سراسر عیش کا سامان ہے ،وہ بھی "بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست " کے گمراہ فلسفے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی عاقبت خراب کرے گا ۔اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد انسان کی زندگی میں جو بھی غم آئیں گے ،وہ اُن کو برداشت کرنے کے لیے پہلے سے ہی ذہنًا تیار ہوگا اور نتیجتاً ذہنی دباؤ سے بچ جائے گا۔
۲۔ماضی کے بارے میں فکرمند ہونا چھوڑدیں ،کیونکہ گزرا ہوا وقت کبھی واپس نہیں آتا۔ماضی سے سبق لے کر آگے بڑھ جائیں !اسی طرح مستقبل کے بارے میں بھی پریشان ہونا بند کریں ۔ بقول ڈاکٹر عائض القرنی کہ اُس دن کے بارے میں فکرمند ہونے کا کیا فائدہ ،جس کا سورج بھی ابھی طلوع نہیں ہوا ہے؟
۳۔آپ یوں سمجھئے کہ آپ کے پاس صرف آج کا ہی دن بچا ہے ۔اس دن کو بہتر سے بہتر طریقے پر گزارنے کی کوشش کریں۔نہ ماضی میں گم ہوجائیے اور نہ مستقبل کی پرواہ کیجئے۔
۴۔رزق اور موت کےبارے میں فکرمند ہونا چھوڑدیں۔رزق اور موت دونوں اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔مکے میں جب مسلمانوں پرظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تو اللہ تعالی نے اُنہیں ہجرت کی اجازت دے دی۔اب اس امر میں دو چیزیں مانع تھیں ،ایک موت کا ڈر اور دوسرے رزق کے متعلق تحفظات۔پہلے کے جواب میں اللہ تعالی نے سورۃ العنكبوت،آیت نمبر 57میں فرمایا ہے:’’ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے، پھر تم سب ہماری طرف ہی پلٹا کر لائے جاؤ گے‘‘۔اب جب ہر انسان کو مرنا ہے تو موت سے کیا اور کیسا ڈر ؟وہ تو آج یا کل آنی ہی ہے ! اب حق بیانی اور حق کے راستے پر چلنے سے کیوں گھبرائیں ؟
دوسرے کے جواب میں اللہ تعالی سورۃ العنکبوت کی آیت60میں فرماتے ہیں کہ:’’کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ اُن کو رزق دیتا ہے اور تمہارا رازق بھی وہی ہے، وہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔‘‘
اب جب اللہ نے رزق کا معاملہ اپنے ذمّے لیا ہے۔تو آپ کو فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔بس کوشش کرتے رہیں ،اللہ فضل فرماتا چلا جائے گا۔
۵۔لوگوں سے( چاہے وہ آپ کے کتنے ہی قریبی کیوں نہ ہوں) ،کم سے کم اُمیدیں وابستہ رکھیں۔یہ بڑی بڑی امیدیں رکھنا اور پھر انکو پورا ہوتے نہ دیکھنا انسان کو ذہنی مریض بنانے کے لیے کافی ہے۔بقول ڈاکٹر اسرار صاحبؒ کہ داعیانِ دین کو ناکامی کیلئے پہلے سے ہی ذہنًا تیار رہنا چاہیے۔
۶۔ہر وقت خود کو کسی نہ کسی اچھے کام میں مصروف رکھا کریں۔ذہن خالی ہوگا تو شیطان کا گھر بنے گا۔شیطان کا نام ہی ہے" ابلیس "جسکے معنی ہیں مکمل طور پر ناامید ہوجانے والا ۔یہ بدبخت ’’ہم تو ُڈوبے ہیں صنم ،تم کو بھی لے چل ڈوبیں گے ‘‘کے مصداق آپ کو بھی ناامیدی کی کشتی میں سوار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔فرصت کے اوقات کو مطالعہ ،ورزش ،کتابوں کی ترتیب اور صاف ستھرائی کے کاموں میں گزاریں۔الغرض یہ کہ وقت کو ضائع نہیں کرنا ہے۔ 
۷۔شیو خیرا(shiv khera ) نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بے روزگار کم اور کام نہ کرنے والے لوگ زیادہ ہیں۔کیا ایک پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان کیلئے کسی پرائیویٹ اسکول یا ادارے میں پڑھانا یا کسی پرائیویٹ کمپنی میں کام کرنا، اس سے بہتر نہیں ہے کہ وہ گھر میں بے کار بیٹھا پڑا رہے ؟کیا دس ہزار ماہانہ کمانا اس سے بہتر نہیں ہے کہ آپ کچھ بھی نہ کمائیں ؟
۸۔ہر کام کو مکمل کرنے کی کوشش کریں ،ادھورے کام بندے کو ذہنًا پریشان کردیتے ہیں ۔
۹۔کچھ لوگ آپ کی زندگی میں ضرور ایسے ہونے چاہیے ،جن سے آپ اپنی پریشانیوں کے سلسلے میں رہنمائی حاصل کریں۔
جن ابوبکر ؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غارِ ثور کے جاں گسل مرحلے پر تسلی دے کر فرمایا تھا کہ ’’لا تحزن ان اللہ معنا‘‘وہی ابوبکرؓ بعد میں اس قابل ہوا کہ اُمت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر تسلی دے کر فرمایا کہ’’ اگر کوئی محمد کی بندگی کرتا تھا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے چلے گئے اور اگر کوئی اللہ کی بندگی کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے۔اس کے لیے کبھی موت نہیں ‘‘ ورنہ وہاں بڑے بڑے اصحاب شدّتِ غمِ فراق سے مغلوب ہوچکے تھے۔۔بقولِ اقبال ؎
ہوئے مدفون دریازیرِ دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جوبن کر گوہر نکلے 
۱۰۔ہر کام کو پابندی کے ساتھ کرنے سے بھی انسان ذہنی دباؤ سے بچ جاتا ہے۔اگر آپ میں لکھنے کی صلاحیت ہے تو ہفتے میں ایک یا دو تحریریں پابندی کے ساتھ لکھا کریں اور اسی ترتیب کو لے کر آگے بڑھیں اور دوسرے معاملات میں بھی ایسا ہی کریں۔
۱۱۔ سب سے بڑھ کر اللہ سے ہی امیدیں وابستہ رکھیں،اُسی کے سامنے اپنا دُکھڑا بیان کریں ،لوگوں کے سامنے خود کو ذلیل نہ کریں۔اُس قدردان خدا کے آگے ہی جبینِ نیاز جھکائیں،وہ مایوس نہیں ہونے دیتا،وہ رات میں سے دن اور دن میں سے رات نکالنے والا ہے۔وہ آپ کی مشکلات کو بھی آسان کرے گا۔مگر یہ ہماری کوتاہی ہے کہ ہم دستِ سوال دراز کرتے ہی نہیں ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہر ذہنًا پریشان انسان کو قلبی سکون عطا فرمائے اور انکے لیے جو چیز دنیا و آخرت کے لحاظ سے بہتر ہوں ،وہ انہیں عطا فرمائے۔آمین