۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام ۔سارے جہاں کا درد ( ناول )
مصنف۔ پرویز مانوس
صفحات۔۳۷۵
قیمت۔۳۰۰؍روپے
پتہ۔ ۱۱۵۔ آزاد بستی نٹی پورہ،سرینگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ دنوں وادی کے معروف فکشن رائٹر،ادیب اور شاعر پرویز مانوس کی اور سے اپنا ناول ’’سارے جہاں کا درد‘‘برائے اظہار خیال ڈاک کے ذریعے موصول ہوا۔پرویز مانوس صاحب کا یہ تیسرا ناول ہے، محترم موصوف نے اُردو اور پہاڑی زبان میں دو درجن کے قریب کتابیں تصنیف کی ہیں ۔اس کے علاوہ شعر و شاعری کے ساتھ بھی خاصا شغف رکھتے ہیں سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر متحرک ہیں ۔مذکورہ ناول میں کشمیر کے حالات کے تناظر میں بے گناہی کی بھینٹ چڑھے ایک ڈائیور کی اسیری کو مرکزی نقطے کے طور پیش کیا ہے ۔وہیں اس کہانی کے اہم کردار ٹیکسی ڈرائیور غلام قادر،اس کی ماں زیبا ،بیوی پوشا،تین بیٹیاں ہانیہ ،ثانیہ اور تانیہ ،معروف سماجی کارکن عظیمہ آپا،فرحان،یاسر ، فاروقی صاحب اور وکیل رویش کھنہ ہیں ۔
ادب اور سماج کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے ۔ادب کے ذریعے ہم سماج کے درد کو پیش کر سکتے ہیں ۔افسانوں اور ناولوں کے ذریعے سماج کے اصل حالات کی عکاسی ہو سکتی ہے ۔پریم چند اور منٹو جیسے افسانہ نگاروں نے اپنی تخلیقات میں اُس دور کے حالات کی کیا ہی بہترین انداز میں عکاسی کی ہے ۔اسی طرح سے عصر حاضر میں دنیا میں موجودہ حالات کو مصنفین ناول اور افسانوں میں پیش کر کے سماج کواپنی اصلاح کا موقع فراہم کر سکتے ہیں اور کیا بھی جا رہا ہے ۔تاہم وہی کہانیاں سماج میں اپنا حقیقی اثر چھوڑتی ہیں جو غیر جانبداری سے اصل حالات کو پیش کریں ۔ناولوں کے ذریعے سے بھی آج کے دور میں حق پسند مصنفین نے اپنے اپنے معاشرے کے حالات کو پیش کیا ہے ۔ناول میں ایک فرضی نثری قصہ یا کہانی ہوتی ہے جس میں حقیقی زندگی کا عکس نظر آتا ہے ۔ ٹھیک ’’سارے جہاں کا درد‘‘ نامی ناول میں بھی ہمیں کشمیر کے ستر سالہ حالات کا عکس نظر آتا ہے ۔مصنف موصوف نے اپنے تمہیدی کلیمات میں لکھا ہے کہ افسانہ جب حدِ اختیار سے باہر ہو جائے تو کہانی جنم لیتی ہے جب تخلیق کار اپنے خیالات کو کہانی میں سمیٹنے میں ناکام ہو جائے تو ناول کا وجودپا جانا لازمی ہے ۔‘‘سارے جہاں کے درد میں تو بظاہر ایک فرضی کہانی نثری انداز میں پیش کی گئی ہے تاہم یہ کشمیر کے اُن المناک حالات اور واقعات کاعکس ہیں جوماضی کے ساتھ ساتھ یہاں آج بھی پیش آ رہے ہیں ۔ناول کے انتساب میں مصنف نے لکھا ہے کہ ’’سماج کے اُن صاحب ثروت بے حس افراد کے نام جو دوسروں کا درد محسوس کرنے سے قاصر ہیں اور سماج کے اُن سخی افراد کے نام جو دوسروں کے درد کو محسوس کر کے اُن کی داد رسی کرتے ہیں ۔‘‘ ان الفاظ کو پڑھ کے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس ناول میں جہاں ایک طرف عظیمہ آپا کا ایثار و ہمدردی ہے وہیں سماج کا ایک خود غرض طبقہ بھی ہوتا ہے جو ستم رسیدہ لوگوں کے خلاف ہر لمحہ صف آرا ہوتے ہیں ۔لالچی اور خود غرض لوگوںکی پہچان بھی تبھی سماج میں ہوتی جب کسی بے سہارا اور مظلوم پر کوئی ظلم یامصیبت آن پڑتی ہے ۔مذکورہ ناول میں عام فہم زبان استعمال کی گئی ہے جس کو ہر کسی کے لئے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آیے گی ،کرداروں کے درمیاں مکالموں میں تسلسل اور ربط برقرار رکھا گیا ہے ۔ضرورت کے مطابق ناول میں ہندی اور انگریزی الفاظ اور چند اشعار بھی استعمال کیے گئے ہیں جس سے پڑھنے میں ایک روانی ملتی ہے ۔ایک مکالمے کے بعد دوسرے کردار کو پڑھنے کے لئے قاری میں تجسس رہتا ہے جو کہ فکشن کا مقصد ہے اس ناول میں بھی پایا گیا۔ناول میں کشمیریت اور مذہبی روادی کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔واقعات اور مکالموں کو پڑھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ بس ایسا ہی حادثہ میری جان پہچان میں ہوا ہے ۔مجموعی طور ناول قاری کو مکمل طور پر انگیج کر کے رکھتی ہے ۔
کشمیر میں جیسا کہ ہم جانتے ہیں ستر سال سے عموماً اور گذشتہ تیس سالوں سے خصوصاً ہزاروں معصوم لوگ مارے گئے اور ہزاروں بے گناہی کی پادائش میں جیلوں کی نذر ہو گئے ہیں ۔ وہیں یتیموں کی ایک فوج تیار ہو گئی ہے اور گھروں کے گھر اُجڑ گئے ہیں ۔کشمیر کے ان ہی شورش زدہ حالات کی عکاسی کتابوں میں گاہے بگاہے دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے ۔بقول اروندھتی رائے ’’ کشمیر کہانیوں کی کان ہے ‘‘ یعنی اگر کشمیر کے اس شورش زدہ خطے پر خامہ فرسائی کی جائے تو ہزاروں کتابیں وجود پا سکتی ہیں ۔وہیں فکشن کو استعمال میں لا کے ہمارے ناول نگار اور افسانہ نگار کشمیر کی خونچگاں حالات کو اپنی کہانیوں میں پیش کر سکتے ہیں ۔مذکورہ ناول میں بھی کشمیر کے حالات کے تناظر میں درد و غم کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے ۔ غلام قادر کو عسکریت پسندوں کی اعانت کے الزام میں دہلی سے گرفتار کر کے جیل میں ڈالا جاتا ہے جہاں اس کو اپنی بے گناہی کو ثابت کرنے کے لئے اپنی زندگی کے قیمتی بیس برس تک جیل میں سڑتا ہے وہیں رویش کھنہ نامی وکیل اُسے رہائی دلواتا ہے جس کو غلام قادر نے کشمیر میں چند مشتبہ افراد جو آزادی کے نام پر فساد پھلا رہے تھے سے بچایا ہوتا ہے ۔اسی طرح سے شہر کی ایک امیر ترین خاتون عظیمہ آپا جو دھن دولت سارا عیش و آرام ہونے کے باوجود اپنی زندگی غریبوں ،مسکینوں اور ناداروں کی فلاح و بہبود میں گُزارتی ہے وہیں غلام قادر کے جیل جانے کے بعد عظیمہ آپا قادرکے اس ستم رسیدہ خاندان کا بھی سہارا بنتی ہے بلکہ اس خاندان کو مفلسی سے بھی نکالتی ہے ۔مصنف نے ناول کی تمہید میں ہمارے سماج کے اُس المناک باب کو کچھ ایسے پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جس سماج اور معاشرے کے حقوق کی خاطر کوئی فرد یہ سمجھ کر کھڑا ہو جاتاہے کہ میری پُشت پر ایک جم غفیر ہے لیکن جب وہ پیچھے مُڑ کر دیکھا ہے تو خود کو تنہا پا کر بے حد پچھتاتاہے ایسی کئی کہانیاں ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں لیکن اپنی عیش و عشرت کی زندگی گزارنے میں ہم اس قدر محو ہیں کہ ہمیں یاد تک نہیں رہتا کہ اس نام کا کوئی شخص ہماری زندگی میں بھی کبھی تھا۔‘‘
مذکورہ ناول میں کشمیر میں شورس کے سبب عوام کو تکالیف کا سامنا تو ہے ہی وہیں سیاسیت دانوں کی مکاری اور چال بازی کو بھی اس ناول میں آپ پڑھ سکتے ہیں کہ کس طرح سے سیاست دان اپنے مفادات کی خاطر اپنے ضمیر کا قتل کرنے میں بھی ہچکچاتے نہیں اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کے نام پر لوگوں کی زندگیوں کو غموں سے بھر دیتے ہیں ۔ناول میں ہانیہ اور فرحان کی محبت کی داستان کوبھی دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے ۔ فرحان کا ہانیہ کو کالج میں اظارمحبت کرنے بعد ہانیہ کا جواب فرحان کو کچھ اس طرح سے ہوتا ہے کہ ’’دیکھو مسٹر فرحان تم منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ہو تمہارے لئے کالج ایک تفریح گاہ سے زیادہ کچھ معنی نہیں رکھتالیکن ہم غریبوں کے لئے تعلیم ایک مقصد ہے ،ایک ہدف ہے ایک منزل ہے ،جتنا پیٹرول روزانہ تم اپنی لکشری گاڑی میں پھونک دیتے ہو اُتنے میں ہم دو وقت کا کھانا کھاتے ہیں ۔‘‘اس ناول کے مرکزی کردار غلام قادر کو جب رویش کھنہ نے بیس سال کے بعد رہائی دلوانے کے لئے اپنا رول ادا کیا توباعزت رہائی کے وقت جب جج نے حکومت سے کہا کہ اس کو قانون کے مطابق اتنے سالوں کی کمائی کے پیسے ادا کیے جائیں اور ایک گاڑی بھی دی جائے تاکہ یہ اپنی زندگی اچھی سے گزار سکے تو جواباً غلام قادر نے جج سے بات کی اجات مانگ کے کہاکہ ’’جج صاحب !کیا سرکار کا معاوضہ دینے سے میری زندگی کے قیمتی اُنیس سال چار مہینے اور بیس دن واپس لوٹ آئیں گے؟کیا میری جو جوانی جیل کی کال کوٹھری کی تاریکی کی نذرہو گئی دوبارہ آئے گی؟کیا میرے چہرے کی لالی مجھے واپس مل جائے گی ؟کیا میری ماں کی آنکھوں کی وہ بصارت واپس لوٹ آئے گی جو اُس نے میرے انتظار میںگنوادی؟کیا میرے بچوں کا وہ بچپن اُنھیں واپس مِل جائے گا جو اُنہوں نے باپ کے جیتے جی یتیموں کی طرح گزارا؟کیا میری شریک حیات جو جیتے جی مجھے سے بچھڑ گئی پھر سے زندہ ہو سکتی ہے ؟کیا میرے کردار پر لگا ہوا بدنامی کا یہ دھبہ معاوضے کی رقم دھو سکتی ہے ؟کیا یہ معاوضہ مجھے سماج اور معاشرے میں کھوئی ہوئی عزت دلا پائے گا؟نہیں جج صاحب !نہیں ،نہیں ،نہیں کہتے ہوئے زار و قطارروتے روتے کٹہرے میں گھٹنوں کے بل اس طرح بیٹھ گیاجس طرح کوئی جواری سب کچھ ہار چُکا ہو ۔‘‘یہی باتیں اور یہی سوالات ٹھک اُن بے گناہوں اور معصوموں کے اذہان میں بھی آتے ہوں گے جن کی جوانیاں بے گناہی کی پادائش میں زندان خانوں کی کال کوٹھریوں میں برباد ہو کے رہ گئی ہیں ۔جن کے گھراُجڑ کے اور والدین کی آنکھوں کی بینائی بھی اپنے پیاروںکے انتظار میں چلی گئی ۔
ناول میں جہاں ہماری آنکھیں غلام قادر کی زندگی اور گھریلوں حالات کو پڑھ نے نم ہو جاتی ہیں وہیں عظیمہ آپا کی دلیری ،شجاعت ،ہمدردی ،غمگساری ،پاکبازی ،کو پڑھ اور جان کے خوشی بھی ملتی ہے یہی کردار یعنی عظیمہ آپا جب اس دنیا سے انتقال فرماتی ہیں تو موت سے چند لمحے پہلے اپنے سارے بچوں کو جمع کر کے بے درد و لالچی سماج کے لئے ایک نصیحت کر کے چھوڑتی ہیں کہ ’’میرے بچو۔۔۔۔!لگتا ہے میرا وقت نزع آگیاہے میری باتوں کو غور سے سُنو!اس دُنیا میں انسان کا اپنا کچھ بھی نہیں ہے یہ چند سانسیں بھی پروردگارکی محتاج ہیں اس لئے جب تک سانسیں چلتی ہیں نیک عمل کرتے رہو۔رشتوں سے ہی یہ دنیا چلتی ہے آپس میں بدگمانی پیدا مت ہونے دینا،جب رشتوں میں نفرت ،حسد خود غرضی اور لالچ سرایت کر جاتی ہے رشتے ریشم کی ڈور کی طرح ہوتے ہیں معمولی سے جھٹکے سے ٹوٹ جاتے ہیں ،ان رشتوں کی آبیاری خلوص کے پانی سے کرتے رہنا۔میرے بچوں ہمیشہ بند مٹھی کی طرح رہنا تاکہ کوئی اس بات کا اندازہ نہ لگا سکے کہ اندر کیاہے ۔تم تینوں اس وراثت کے امین ہو ،اس دولت کو ہمیشہ مفلسوں اور محتاجوں کی بھلائی کے لئے خرچ کرنا،کہتے ہوئے ہچکی لگی تو سب کی جان نکل گئی نہیں اماں جی نہیں ۔‘‘مجموعی طور اس ناول میں ہمارے سماج میں شورش کے سبب جو بے گناہ اس تنازعے کی بھینٹ چڑھتے ہیں اُن کی زندگیاں تو عذاب بن ہی جاتی ہیں وہیں اُن کے گھر بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہتے ہیں ۔اس کہانی میں سماج کے اُس بے حس طبقے کا تعارف بھی ملے گا جو دولت کی ہوس اور لالچ نے اُن کی آنکھوں پہ پردے ڈال کے اُن سے ہمدردی اور غمگساری کے جذبے کو چھین لیاہے ۔
الغرض کہانی انتہائی دلچسپ ہے تاہم چند املا کی غلطیاں اور ٹائپنگ میں کچھ خامیاں اچھی نہیں لگتی ۔وہیں فرحان اور ہانیہ کی محبت کی کہانی کو زرا طویل دیا ہے جو اس سے مختصر بھی ہوسکتا تھا اُمید ہے دوسرے ایڈیشن میں اس کا خیال رکھا جائے گا۔کتاب کی قیمت مناسب معلوم ہوتی ہے کتاب کے سرورق پر غم میں ڈوبی انسانی سروں کی تصویر قاری کو اپنی اور متوجہ کرتی ہیں ۔کتاب کاٹائٹل دیدہ زیب ہے اور کتاب کے بیک کور پہ ناول کے مصنف کی تصویر کے ساتھ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی صاحب کی مصنف کے متعلق تعارفی کلمات پڑھنے سے ناول نگار کی شخصیت اُبھر کے سامنے آتی ہے ۔مذکورہ کتاب اُردو دنیا خصوصاً کشمیر میں اُردو زبان و ادب کے لئے ایک بہترین کنٹریبیوشن ہے ۔کتاب کو پڑھ کے قاری کو فائدہ ملنے کی قومی اُمید ہے ۔
(رابطہ۔ 9906664012)