اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکربے شمار نعمتیں عطا فرمائیں۔ اس پر احسا ن کیا، عقل سلیم کے ساتھ ساتھ وہ علم بھی دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ اس سے زندگی کا سلیقہ سکھایا۔ زندگی بھی ایک بہتریں انمول نعمت ہے۔ یہ مالکِ حقیقی کی دی ہوئی ایک امانت ہے جس سے اپنے مقرر ہ وقت پر امانت سمجھ کر ہی بِلا کسی خیانت کے اپنے مالکِ حقیقی کو لوٹانا ہوتی ہے۔عین اسی طرح جس طرح ایک مقروض اپنا قرض چکاکر اپنا کیاہوا وعدہ پورا کر کے سچا ہونے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ یہ کام دانا اور شکر گذار بندے اوراِس عظمِ نعمت کی قدر بھی اہلِ دانش ہی کرتے ہیں۔
زندگی موت وحیات کے بیچوں بیچ اس کشمکش کا نام ہے جس میںطفل،شباب اور بزرگی جیسے تین اہم بڑے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان مراحل کو طے کرنے میں صحت و مرض، راحت و تکلیف، خوشی و غم، عروج و زوال، ثروت و غربت، خیروشر، علم و جہالت، ایمان و کفر، امن و خوف، اندھیرا واجالا، خطاو غلطی، نیکی و بدی، اطاعت و نافرمانی،جیسے موڑ ساتھ ساتھ آتے ہیں۔ اِن ہی ناہموار راہوں سے زندگی کوگزارنا منزلِ مقصود تک پہنچنا دانش و عقلمند جیسے رہ گزروں کا ہی کام ہیں۔ زندگی بخشنے والے نے زندگی کو وجود میں لانے سے پہلے ہی اس کی تقدیر تحریر فرمائی۔ اِنسان ایک اعتبار سے مختار اور دوسرے اعتبارسے مجبور ہے اور اِس کا ایمان بھی اِسی اختیارو جبر کے درمیان ہے۔حقیقت کی آنکھیں کُھلنے پر ہی اس کا پھل دیکھ سکتے ہے جو یاتور نگین مہکتے پھولوں سے بھرا ہوا چمن ہوگا یا شعلوں سے بھرا ہوا ایک تندور ۔
انسان جس سے تمام مخلوقات پر سبقت حا صل تھی، زندگی کی مہلت پر اِس قدر اکڑرہا ہے کہ اپنے مقصدِ حیات کو آنے والے ناہموار موڑوں پر کہیں بھلا بیٹھا ہے۔ اب کسی اور مقصدکے پیچھے بھٹک گیا ہے۔ بہتریں زندگی وہی ہے جو دوسروں کے لیے خوشی کا باعث، راحت و سکون کا ذریعہ بن کر گذرے ۔ کئی اِنسان اِس گلزارمیں اپنا ابتدائی قدم اُٹھانے سے پہلے ہی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں مگر تھوڑی سی کش مکش کرنے کے فورً بعد ناکامی کامنہ لگنے پر ہی اِس نعمت کی خیانت کرنے لگتے ہیںجن میں حصولِ روزگار، پڑھائی، اولاد، عشق مجوسی، بے وفائی، تجارت، غربت، جیسے کئی اہم میدانوںمیں ناکامی ملنے پر یہ غلط اقدام اِس گلزار کو ویران بنا دیتے ہیں، اور اس کے ساتھ جڑی ہوئی کئی زندگیوں کو تباہی و بربادی کی طرف دھکیل دیتاہے۔
زندگی کے اس گلزار میں آئے روز کئی رنگیںمہکتے پھولوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ مرجھایا جارہا ہے۔ کہیں خام ٹہنی سمجھ کر معصوم کی جان لی جاتی ہے، کہیں زہر دیکر خاموش کیا جاتا ہے، کہیں تیل چھڑک کر آگ کے حوالے کیا جاتا ہے ، کہیں پھانسی کا پھندہ گردن میں ڈال کرلٹکایا جاتا ہے ، کہیں تیز ترین آلے سے مرغ کی گردن سمجھ کر انسان کی حسین شکل و صورت کو بگاڑ کے رکھ دیا جاتا ہے،کہیں گولی سے اِس نرم جسم کو چھلنی کیا جاتا ہے، کہیں پتھر سے مارکر قاتل اپناشکار کامزہ لیتا ہے،کہیں اِس معصوم ننھی سی زندگی کوبے دردی سے نچوڑا جاتا ہے، کہیںغرقِ آب کیا جاتا ہے، کہیں چند پیسوں کے عوض اِس سے جانور سمجھ کر خرید لیا جاتا ہے ۔ کہیں آپسی تنازعات کی شکار تو کہیں کھیل تماشا کرکے ڈرامائی انداز میں اس سے ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سلا دیاجاتا ہے۔ غرض اِس گلستان میں جگہ جگہ چمن کے مختلف گوشوں میں مختلف رنگوں کے پھولوں کو مختلف طریقے سے ظالم کے ہاتھوںمرجھایا جارہا ہے ۔
اِس گلستان میں ہر ایک چیز کا فنا ہوناواقعی ہے۔ اِس میں تمام چمکتی چیزیں، سورج کی طرح ڈوبنے والی ہیں۔ زندگی کو گلزار سمجھ کر یہاں ہر قدم سوچ و سمجھ کر اٹھانے سے ہی اس کی زینت بخشی جاتی ہے۔ اﷲتعالیٰ نے انسان کو جس احسنِ تقویم پر پیداکیا ہے ،اُس کے عجیب کرشموں میں سے ایک کرشمہ یہ بھی ہے کہ وہ عریاں فساد اور بے نقاب فتنے کی طرف کم ہی راغب ہوتا ہے اور اِس بناء پر شیطان اکثر مجبور ہوتا ہے کہ اپنے فتنہ و فسادمیں مبتلا کر دے۔ آج بھی جتنی غلطیوں اورحماقتوں میں شیطان نے انسان کو مبتلا کر رکھا ہے، وہ سب کسی نہ کسی پُر فریب نعرے اورکسی لباسِ زور کے سہارے مقبول ہورہی ہیں۔ اِنہی فریبوں میں سے ایک بڑا فریب یہ بھی ہے جو موجودہ زمانے میںاجتماعی یا سماجی خودکشی (Social Suicide ) کے نام سے بنی نوع انسان کو دی جارہی ہے جس کا ایک بڑھتا ہوا رجحان آئے روز دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ ہمارے لئے ایک المیہ ہے جس پرفورا توجہ دینا ہوگی۔
حالانکہ اِس گلستان کی میں تو بس چند روزہ قلیل زندگی ہی ہے۔ یہاں سے رُخصت ہوجانے کے بعد حقیقی اور ابدی زندگی شروع ہوجاتی ہے۔ یہ چند روزہ کا گلستان آخر کار خزان کے قریب پہنچ کر زرد پڑجاتا ہے ۔ اِس کی قدر اُس نادان پرندے سے پوچھ جو صُبح سویرے اپنا آشیانہ چھوڈ کر غذا کی تلاش میںانتہائی جستجو کے ساتھ اپنے چونچ و پنجوں میں چند دانے لاکر اپنے ننھے بچوں کو کھلانے کی خاطر واپس لوٹ کر آتاہے نہ اپنا آشیانہ بھولتاہے نہ اپنی راہ سے بھٹکتا ہے اور نہ اپنا مقصدکھو بیٹھتا ہے۔ لہٰذا اِنسان کو اِس پرندے سے بہتر سوچ ہوتے ہوئے بہترین طریقہ راہ اختیار کرکے بہترین زندگی بنانی چائے۔
اس گلستان کے اندر توبڑے سے بڑا تکلیف تو بس چند روزہ تکلیف سمجھ کر برداشت کریں اور اِس کے بعد آنے والی نئی زندگی ابدی ہے جہاں کے عیش و آرام بھی دائمی ہیں۔ اِس لئے سمجھدار انسان وہی ہے جو اس گلستان میں زندگی کی قدرکرے۔یہاں کے ہر ایک پھول سے اس کا حُسن و جمال، لطافت و بانکپن لے کر ایسی مہک پیدا ہو جس میں معطرکرنے کی خوشبو موجود ہو۔ آج کل کے پُر فتن اور پُرآشوب دور میں جہاں اِنسان اپنے مالکِ حقیقی کی نافرمانیوںکی بھرمارہے وہیں شیطان پے در پے کامیابیوں سے سر شار ہے جو یقیناً ایک دانشمند اِنسان کے لئے باعثِ عار ہے۔ ایسانہ ہو کہ ہم یہاں کے عارضی گلستان کے ساتھ ساتھ اپنے دائمی و ابدی گلستان کو بھی ویران بنادیں۔ لہٰذا دونوں جہانوں کی زندگی کی فکر کرتے ہوئے اپنے دونوں جہانوں کو گلزار بنائیں ۔