افتخاراحمدقادری
آج کے دور میں انسانوں کی خوشامد اور ان کی خوشنودی حاصل کرنا ہر کام کا مقصد بنتا جارہا ہے۔ لوگ اپنے خالق کو بھول کر مخلوق کی خوشی کے خیال میں سر سے پیر تک ڈوبے جارہے ہیں، کیا نماز کیا روزہ، کیا حج و زکوٰۃ و سخاوت کیا دعوت و تبلیغ۔
آج ہم بگڑتے معاشرے اور زوال امت پر آنسو بہاتے ہیں اور اس کے تدارک کے لیے بساط بھر جد وجہد اور عروج کے لیے کوشاں ہیں مگر ہم میں ایک چیز کی کمی ہے جو مقصد کی تکمیل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ میرے خیال میں وہ شے جس کا فقدان ہے وہ اخلاص ہے۔ اس لیے کہ ہم اچھے کام کیوں کرتے ہیں؟ الله رب العزت اور اس سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ بھلے ہی ہم اپنی زبان سے لوگوں کے درمیان اپنے مخلص ہونے کا تذکرہ کریں لیکن ہم خود اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں، اس لیے کہ قرآن کریم میں ہے: ،،بل الانسان علی نفسہ بصیرہ،، تجربہ شاہد ہے کہ وہ بوٹا اگ ہی نہیں سکتا جسے پانی نہ ملے۔ اسی طرح وہ عبادت نتیجہ خیز ہوہی نہیں سکتی جس کی بنیاد اخلاص نہ ہو۔ حضرتِ مولی علی کرم اللہ تعالیٰ وجہ الکریم فرماتے ہیں: الٰہی! میں جہنم کے ڈر یا جنت کی طمع میں تیری عبادت نہیں کرتا بلکہ تو عبادت کا مستحق ہے اس لیے تیری عبادت کرتا ہوں ( روح تصوف)
حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی تربیت میں اخلاص پر خصوصی توجہ فرمائی اور خود حضورِ اکرم ؐ کے اخلاص کو قرآن مجید نے کیا خوب بیان کیا: ترجمہ تم فرماؤ بےشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب الله کے لیے ہے جو رب سارے جہان کا ( الانعام/ آیت. 162)
یہ حضورِ اقدسؐ کا جذبہ اخلاص ہے کہ صرف نماز و قربانی خدا کے لیے نہیں بلکہ میرا جینا اور مرنا سب خدا کے لیے ہے جبکہ آج ہمارا سارا کام دنیا کے لیے ہے۔ اے کاش! ہم اپنی نیتوں کو درست کرلیں اور اپنے اندر اخلاص پیدا کرلیں۔ غوثِ اعظمؒ فرماتے ہیں: ’’خدا کے ساتھ بغیر مخلوق اور مخلوق کے ساتھ بغیر نفس کے معاملہ کرو‘‘ ( روح تصوف) یعنی عبادات مخلوق کی خوشنودی کے بغیر ہوں اور معاملات نفس کی خواہش کے خلاف اخلاص پر مبنی ہوں۔حضرت ذوالنون مصریؒ اخلاص کی علامتیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اخلاص کی تین نشانیاں ہیں: عوام کی مدح یا مذمت بندے کے نزدیک یکساں ہو، اعمال میں اپنے اعمال کو دیکھنا بھول جائے اور آخرت میں اپنے صلے کا بے قراری سے منتظر نہ ہو۔
یاد رکھیں! اپنے اندر اخلاص پیدا کرنا کوئی معمولی کام نہیں بلکہ بہت کٹھن کام ہے۔ کسی بھی کام کو محض ربّ کی خوشنودی کے لیے کرنا آسان نہیں لیکن ناممکن بھی
نہیں، بس توجہ اور جد وجہد کی ضرورت ہے اور یہ مشہور ہے کہ من جد و جد یعنی جو کوشش کرتا ہے وہ پالیتا ہے۔ لہٰذا نفس سے جنگ کریں،دل کو غیر خوشنودی سے خالی کریں، پھر تھوڑا عمل بھی بارگاہِ خداوندی میں مقبول ہوگا۔
ایک مسلمان کی زندگی کا ہر لمحہ عبادت بن سکتا ہے بشرطیکہ کہ وہ فرائض کی بجاآوری کے بعد ہر عمل کی بنیاد خلوص نیت پر رکھے خواہ اس عمل کا تعلق دینی معاملات سے ہو یا خالصتاً دنیوی امور سے، اعمال اپنی اصل میں اس وقت ہی باعث اجر بنتے ہیں جب ان کے پیچھے خلوص نیت کی کار فرمائی ہو۔ نیت ہی ایک ایسی کسوٹی ہے کہ جس کی خرابی کی بنیاد پر خالصتاً دینی عمل بھی موجب عذاب بن جاتاہے اور اسی کے خلوص کے نتیجے میں خالصتاً دنیوی عمل بھی ذریعہ نجات بن سکتا ہے۔ نیت کے بغیر اخلاص کا تصور ناممکن ہے۔ الله تعالیٰ ہم سب کو آقائے کریمؐ کے اخلاص کا صدقہ عطا فرمائے۔
[email protected]