! زندگی عظیم نعمت، راہِ نجات خود کشی نہیں

زندگی ایک عظیم نعمت ہے۔ اس کی قدر و قیمت بیش بہا ہے۔ یہ صرف ایک بار ملتی ہے،جو کسی کی دی ہوئی امانت ہے،امانت کو ضائع یا خیانت کرنا جرم عظیم ہے۔ زندگی ایک امتحان بھی ہے۔خوشی اور غم ،آسانیاں اور مشکلات اس کا حصہ ہے، اس لئےانسان کی ساری خواہشیںدنیا میں پوری ہوجائیں، اِس تصور کے ساتھ زندگی بسر کی جائے ، تو بہت سارے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ ہمارے کشمیری معاشرےکو جہاں منشیات نے اپنی لپیٹ میں لیا ہے وہیں خودکشی کی وباء بھی تیزی سے سر اٹھا رہا ہے ۔ ہماری غفلت کی اگر یہی حالت رہی تو وہ دن دور نہیں جب اسکا تناسب بڑے پیمانے پر سامنے آسکتاہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر سال پوری دنیا میں چھ سے آٹھ لاکھ لوگ خودکشی کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ حالیہ سروے کے مطابق اس میں پچھلے برسوں کے مقابلے میں 6.7فیصدکا اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ کچھ ممالک میں اس کے اہل خانہ کو سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہر سال لاکھوں لوگ اس گھناؤنے عمل کے تحت اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات جب اس موضوع پر بات کرتے ہیں تو وہ کئی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ سب سے اہم اور بنیادی وجہ جس کی طرف ہمارا کم دھیان ہے،وہ ہے ’’انسان کا بے مقصد زندگی گزارنا‘‘۔ آ ج کے انسان کو صرف مادہ پرستی اور معدہ پرستی کی تعلیم سے نوازا گیا ہے،وہ آگے کچھ اور سوچنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر زندگی کا حقیقی مقصد یہی ہوتا تو جن اقوام کو یہ سب کچھ حاصل ہےتو وہاں خود کشی کا تناسب سب سے زیادہ کیوں ہے ؟ یورپ، دنیا کا فارغ البال اور ترقی یافتہ خطہ مانا جاتا ہے۔ تعلیم ہو یا معیشت ، ٹیکنالوجی ہو یا کوئی اور شعبہء زندگی، ہر میدان میں اعلیٰ سہولیات میسر ہیں۔ لیکن یورپ میں ہی خود سوزی کا گراف باقی پس ماندہ دنیا سے بہت اوپر ہے اور تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جہاںہر سال لاکھوں مردوزن اس قبیح عمل سے گزر کر موت کو گلے لگا لیتے ہیں، وہیں ایسی شخصیات بھی ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اب تک سات ایسی شخصیات نے خودکشی کر کے زندگی کی نعمت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جو نوبل انعام یافتہ ہیں، اُن کے پاس سب کچھ تھا دولت، شہرت ، عیش و عشرت کے سارے وسائل لیکن وہ کون سی شے ہے، جس نے انھیں زندگی پر موت کو ترجیح دینے پر مجبور کیا۔ ماہرین کے مطابق ان کے پاس بَس اپنے خالق کی معرفت نہیں تھی اور زندگی کے حقیقی مقصد سے نابلد تھے۔ اور بھی کئی سبب ہیںجو اس وباء کو جنم دے رہے ہیں۔ کہیں سیاسی استحصال ہے، کہیں معاشی بد حالی ہے، کہیں مفاد پرستی ہے ، کہیں غیر اخلاقی تعلقات ہیں ،کہیں گھریلو تشدد اور نوجوانوں کا نشہ آور ادویات میں مبتلا ہونا ہے۔اپنے خطہ کشمیر کی بات کریںتو یہاںمذکورہ بالا تمام عوامل کار فرما ہیں۔ یہاں آ ئے روز ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جنھیں دیکھ کر یا سُن کر بندہ شش و پنج میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہاں کی 90فی صد آبادی ڈپریشن کی شکار ہے۔ دنیا کی مشہور رفاعی تنظیم ڈاکٹر بغیر سرحدMSF نے یہاں قریب دو دہائیوں تک کام کیا۔ اُن کی ساری کاوش Mental health پر صرف ہوئی۔ یہاں پر کوئی ایک مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مسائل کی آ ماجگاہ بن چکاہے۔خود کشی کو بہرحال سماج میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے، تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین کا تناسب زیادہ پایا جاتا ہے۔الغرض معاشرے کے مختلف انگ اگر اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی ٹھان لیں گے تو اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے۔ والدین، نوجوان،اساتذہ ، ڈاکٹرس ،سرکاری مشینری، علماء و دانشور ،یہ سب معاشرے کے اہم اجزاء ہیں۔ لیکن اول نمبر پر والدین کا رول ہےکہ وہ گھر میں اخلاقی تربیت کا سامان کریں ۔ اگر وہ اپنی تربیت پر توجہ مرکوز کریں گے تو اس کا اثر ان کے بچوں پر ضرور پڑے گا۔اگر بالغ اولاد اپنی مرضی کی شادی کرنا چاہتے ہیںتو اس میں بے جا رکاوٹ نہ بنیں۔ بچہ اگر سائنس کے بجائے آ رٹس مضامین لینا چاہتا ہے تو اسکا حق نہ چھینیں۔اگرامتحانات میں کم نمبرات حاصل کرے تو اُس کی حوصلہ شکنی نہ کریں۔ علمائے کرام اس قبیح فعل سے باز رہنے کے لئے معاشرے کی حِس کو بیدارکریں اور سرکار قانون کا سہارا لے کر اس کا روک تھام کے لئے موثرقدم اٹھائے۔