زندگی رُکنے کا نام نہیں

جہانگیر بہت ہی مضبوط دل کا محنتی لڑکا تھا۔ بیوہ ماں نے محنت مزدوری کر کے گریجویشن تک تعلیم دلوائی تھی۔ اسے کسی سرکاری عہدے کا شوق نہ تھا نہ ہی کروڑپتی بننے کا لالچ۔ بس کوئی اچھی سی جاب چاہیے تھی، سرکاری یا پرائیویٹ، جس سے خوداری پہ کوئی آنچ نہ آئے اورزندگی بہتر طریقے سے گزر جائے۔ یہی خواہش اسے شہر لےآئی۔ 
وہ وادی کے ایک دوردراز علاقے کا رہنے والا تھا۔ ان کے علاقے میں نہ کوئی پرائیویٹ سکول تھا نہ ہی کوئی کارخانہ۔ سرکاری نوکری ملنا مشکل تھا۔ وراثت میں ایک جھونپڑا ملا تھا۔ 
جہانگیر شہر میں ایک پرائیویٹ سکول میں نوکری کرنے لگا۔ تنخواہ مناسب تھی۔ وہ شہر کے حالات سے واقف تھا پھر بھی اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے فجر کے وقت گھر سے نکلتا تھا اور اسکول کے کھلنے تک آٹو چلاتا تھا۔ اسکول کے بعد بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ پھر رات دیر سے آنا اس کا معمول بن گیا۔ 
جہانگیر کی زندگی اپنی مخصوص رفتار سے چلنے لگی۔ وہ اپنے کام سےمطمئن تھا۔ اس کی شادی گاؤں میں ہی ایک لڑکی غزالہ سے ہوئی۔ شادی کے بعد وہ اپنی ماں اور غزالہ کو شہرلے کے آیا اور وہ لوگ شہر میں رہنے لگے۔ 
ان کی شادی کو کئی سال بیت گئے لیکن رب کائنات نے انہیں اولاد کی دولت سے محروم رکھا ۔ اس دوران غزالہ کے والدین کا انتقال ہو گیا۔ اور اسکا چھوٹا بھائی باذل گھر میں اکیلا رہ گیا۔ وہ باذل کو اپنے ساتھ شہر لائی اور اس کا داخلہ ایک سرکاری اسکول میں کروایا۔ اس طرح غزالہ نے اپنے کمسن غمزدہ بھائی کے ہاتھ میں قلم تھمایا اور اس کی پرورش اولاد کی طرح کرنے لگی۔
جہانگیر اور اس کی ماں نے بھی باذل کو اولاد سمجھ کر قبول کر لیا اور اس کی پرورش بڑے پیار سے کرنے لگے۔ وہ لوگ قناعت اور سادگی اختیار کر کے خوشی خوشی اپنی زندگی گزارنے لگے۔ 
کرائے کے گھر میں رہنے کے باوجود غزالہ نے پائی پائی جوڑ کر اپنے گھر میں آسائش کی ساری چیزیں میسر رکھیں۔ 
باذل بہت ہی لائق اور ذہین بچا تھا۔ جہانگیر اور غزالہ اسے دیکھ دیکھ کر اپنے مستقبل کے خواب سجاتے تھے۔
شہر کا ہر انسان اپنی زندگی میں مصروف تھا۔ ایک روز پوری وادی میں ایک کالی آندھی چلی جس کا زور روز بہ روز بڑھتا ہی گیا۔ اس کالی آندھی نے اکثر لوگوں کی زندگی کو الٹ پلٹ اور برباد کر کے رکھ دیا۔
ایک انتہائی اداس صبح جہانگیر اپنا آٹو لے کر نکلا مگر پھر کبھی لوٹ کر نہ آیا۔۔ غزالہ، باذل اور اس کی ماں اس کا انتظار کرتے کرتے تھک گئے۔ انتظار بڑھتا گیا۔ اب غزالہ انجان شہر میں جہانگیر کو تلاش کرنے لگی۔ شہر انجان تھا، راستے بھی نامعلوم، مگر پھر بھی شہر کی گلی گلی اور کونے کونے میں جہانگیر کو ڈھونڈتی رہی۔ پورے شہر کی خاک چھان ماری، ہر جگہ پہنچ گئی، مگر جہانگیر کا کوئی نشان نہ ملا۔۔ غزالہ کی کمر جیسے ٹوٹ گئی۔ اسے سمجھ آ گیا کہ جہانگیر بھی کالی آندھی کی لپیٹ میں آچکا ہے اور اب اس کا ملنا ناممکن ہے۔ اُس کی چمکتی چمکتی زندگی کے رنگ ایک ایک کرکے پھیکے پڑنے لگے۔
غزالہ اور اس کی رفیق و شفیق ساس کا روتے روتے بڑا حال ہو گیا۔ آنسو پونچھنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ فریاد کرتے تو کس سے۔ جس کا سہارا تھا وہ تو خود کسی ظلم کا شکار ہو کے گمشدہ لوگوں کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ غزالہ سوچتے سوچتے بیمار ہونے لگی۔ اب وہ یہ سوچنے لگی کہ اب ان کا کیا ہوگا۔ کون ان کا سہارا بنے گا۔ وہ آنے والے حالات کا کیسے مقابلہ کریں گے۔ یہی سوچتے سوچتے ایک دوپہر غزالہ کی آنکھ لگ گئی۔ 
اس نے خواب میں جہانگیر کو اپنے سامنے پایا۔ غزالہ نے جہانگیر کا ہاتھ پکڑ پکڑ کر روتے ہوئے پوچھا: آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے۔ آپ کو ہمارا خیال ایک بار بھی نہ آیا۔ کیوں ہم سے دور چلے گئے ہمیں بے سہارا کر کے؟ جہانگیر نے اپنا ہاتھ غزالہ کے سر پر رکھا اور کہا کہ آپ کہاں بے سہارا ہو۔ آپ کے پاس ہے نا سہارا ہمارا باذل۔ ابھی آپ کو بہت کچھ برداشت کرنا ہے۔ لمبا سفر طے کرنا ہے۔ آپ کے کاندھوںپر بہت ساری ذمہ داریاں ہیں۔ صبر کا دامن کبھی نہ چھوڑنا۔ اسی کے ساتھ غزالہ کی انکھ کھل گئی۔ اس کے سامنے باذل اپنی کتابیں پھیلائے پڑھ رہا تھا۔
غزالہ کو ایسے محسوس ہونے لگا جیسے اس کے بدن میں نئی قوت آگئی۔ اس کا غم ہلکا ہو چکا تھا۔ اس کے اندر ہمت عود کر آئی۔ دوسرے دن وہ جہانگیر کے اسکول چلی گئی۔ اسکول والے اسکی حالت سے متاثر ہوئے اور اسکی مدد کرنے کیلئے اسکول میں ہی اس کے لئے ایک نوکری کا بندوبست کر لیا۔ اس طرح غزالہ نے نئی ہمت اور حوصلہ کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کیا۔ 
دن، ہفتے، مہینے اور سال خاموشی سے گزرنے لگے۔ سالوں کی گنتی بڑھنے لگی۔ جہانگیر کی ماں بیٹے کی جدائی برداشت نہ کر سکی۔ ایک رات وہ بھی روٹھ کر افق کے اس پار چلی گئی۔
وقت گزرتا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غزالہ کے غموں  کا بوجھ ہلکا ہوتا گیا۔ ننھا پودا باذل ایک تناور درخت بن گیا۔ ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرکے اپنے لیے ایک اچھی نوکری حاصل کر لی اور اپنی ماں جیسی بہن کا سہارا بن گیا۔
تنخواہ میں سے کچھ رقم بچا کر اور کچھ رقم بینک سے قرضہ  لے کرایک مناسب سا گھر رہنے کے لئے خریدا اور وہ اس میں رہنے لگے۔  اپنا گھر جیسا بھی ہو ایک الگ ہی شان ہوتی ہے۔ پھر یہ وقت بھی آیا کہ غزالہ نے باذل کے لئے ایک لڑکی پسند کر لی۔ اس طرح اب باذل کا رشتہ طے ہو گیا۔ منگنی کی مختصر رسم ادا کی گئی۔ چار مہینے بعد شادی کی تاریخ طے ہوئی۔
شادی کی تمام تیاریاں مکمل ہو گئیں۔بہاروں کا موسم تھا۔ آج غزالہ کو شدت سے جہانگیر کی یاد آ رہی تھی۔ موسم بے حد خوش گوار تھا۔ شادی سے ایک ہفتہ قبل موسم بدل گیا۔ دیکھتے دیکھتے نیلے آسمان پر گہرے بادل چھا گئے۔ پہلے بے آواز اور بے ضرر بارشیں شروع ہوئیں۔مگر رفتہ رفتہ بارشیں تیز ہونے لگیں۔ دریاء اور ندی نالے لبا لب ہوگئے اور پشتوں کے اُوپر سے پانی بہہ کر بستیوں میں داخل ہونے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر بارش کے پانی سے بھر گیا۔ راتوں رات وادی کے کئی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہر میں بھی ایک زبردست سیلاب آیا۔ مکانات سیلاب کے پانی سے دوسری منزل تک بھر گئے۔ ہر طرف سیلاب کے پانی نے تباہی مچا دی۔ کروڑ پتی لوگ خاک میں مل گئے۔ کئی لوگوں کے آشیانے زمین بوس ہو گئے۔ لوگوں کو فکر تھی تو بس اپنی اپنی جان کی۔ 
اس سیلاب کی لپیٹ میں باذل اور غزالہ بھی آ گئے۔ غزالہ کو پہلے اپنےوالدین کی موت،پھر جہانگیر کی گمشدگی کے بعدہمدرد ساس کی موت نے بکھیر کر رکھ دیا تھا۔ اوپر سے یہ سیلاب کسی مصیبت سے کم نہ تھا۔
باذل اور غزالہ بھی اپنی جان بچا کر پڑوسیوں کے مکان میں پناہ لینے کے لیے مجبور ہو گئے۔ ہمسایوں کا مکان ایک پختہ چار منزلہ عمارت تھی جبکہ غزالہ  کا مکان کچا ایک منزلہ ہونے کی وجہ سے جلد ہی زمین بوس ہو گیا۔ باذل اور غزالہ نے اپنے مکان کو اپنی آنکھوں کے سامنے گرتے ہوئے دیکھا۔ اپنے گھر کا تمام سامان تباہ ہوتے دیکھا۔ باذل کی ساری کتابیں، اول جماعت سے لے کر،جو غزالہ نے سنبھال کر رکھی تھیں پانی میں تباہ ہوگئی۔ شادی کا سارا سامان بھی سیلاب کی نذر ہو گیا۔ وہ ایک دوسرے کو دلاسہ دیتے رہے۔ 
بھوک اور پیاس سے برا حال تھا۔ کئی دنوں تک بھوکے پیاسے رہنے کے بعد ایک کشتی اس طرف آئی۔ وہاں جتنے بھی لوگ تھے کشتی والاانہیں اپنی کشتی میں بڑی مشکل سے سوار کر کے محفوظ مقام کی طرف لے جانے لگا۔ کشتی چھوٹی تھی اور لوگ زیادہ۔ کشتی اپنا توازن برقرار نہ رکھ پائی اور پلٹ گئی۔ سارے لوگ سیلاب کے پانی میں ڈوب گئے۔ ہر طرف چیخ و پکار اور ہلچل مچ گئی۔ غزالہ کا سر کسی سخت چیز سے ٹکرایا اور وہ بے ہوش ہو گئی۔ جب ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو ہسپتال میں پایا۔ اس کا یہاں نہ کوئی اپنا تھا نہ کوئی جان پہچان والا۔ انجان لوگوں سے پوچھا کہ وہ یہاں کیسے پہونچی۔ انہوں نے بتایا کہ اسے رضاکاروں نے پانی سے نکال کر یہاں لایا تھا۔ اسے کئی دنوں کے بعد ہوش آیا تھا۔ اسے آرام کی سخت ضرورت تھی۔
اس نے ایک بار پھر ہمت سے کام لیا اور کمر کس کے ہسپتال سے نکل گئی۔ چلتے گرتے سنبھلتے کبھی کشتی میں تو کبھی پیدل بڑی محنت اور جدوجہد کے بعد زخموں سے چور اور ننگے پاؤں اپنے اجڑے آشیانے کے پاس پہنچ گئی۔ 
وہاں ملبے کے ڈھیر پر اس کا باذل اسے ڈھونڈھتےڈھونڈھتے تھک ہار کر اس کا انتظار کر رہا تھا۔باذل کو صحیح سلامت دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا اس نے باذل کو گلے سے لگایا۔ گلے ملنے کے بعد غزالہ نے باذل سے کہا: چلو باذل۔ 
لیکن آپا کہاں؟ باذل نے سوال کیا۔
اپنی نئی زندگی کی شروعات کرنے۔ کیونکہ ان کے پاس کچھ نہ بچا تھا۔
اس طرح وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ویران شہرمیں نئی زندگی تلاش کرنے نکل پڑے۔  پھر بھی غزالہ کواس شہر بے درد سے بڑی عجب محبت  تھی۔اس کے دل میں ابھی بھی امید کی کرن باقی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 پہلگام اننت ناگ، رابطہ 9419038028، 8713892806