زمردہ حبیب کی ’’ نگاہِ انجم‘‘

انجم  زمردہ حبیب کی سوانح حیات ’’نگاہِ انجم‘‘ کے جاذبِ نظرعنوان کے ساتھ منظر عام پہ آ چکی ہے۔ ماہ رواں کی دس تاریخ کو شہر سرینگر میں جھیل ڈل کے کنارے ایک ہوٹل میں زمرد حبیب کی سوانح حیات کی رسم رونمائی انجام پذیر ہوئی ۔اس موقع پر اُن  جاننے والوں،مداحوں اور سول سوسائٹی سے وابستہ کئی شخصیات کی موجودگی نے محفل کی رونق دوبالا کی۔ اتفاقاً ’’نگاہ انجم‘‘ کی رسم رونمائی حقوق البشر کے عالمی دن کی مناسبت سے انجام پائی۔ زمردہ حبیب کی رُودادِ زندگی حقوق بشر کی خلاف ورزی کے حوالے سے دختران ِ کشمیر کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ وادی کشمیر کی اس مایہ ناز بیٹی نے دہلی کے بد نام زمانہ تہاڑجیل میں اپنی زندگی کے پانچ سال بد ترین اذیتیں سہتے ہوئے گزارے ہیں۔وہ تب رہا ہوئیں جب دہلی سرکار اُن پر عائد الزامات ثابت کرنے میں نا کام ہوئی۔تہاڑ جیل کی پانچ سالہ اذیتوں کی داستان کو اُنہوں نے ایک اور تصنیف ’قیدی نمبر ۱۰۰؍ (Prisoner No: 100)میں منعکس کیا ہے اور کشمیر کے مزاحمتی لٹریچر میں وہ ایک قابل قدر اضافہ ہے ۔ اُن کی سوانح حیات ’’نگاہ انجم‘‘ پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔  
انجم زمرد حبیب کی سوانح حیات 329صفحات پہ مشتمل ہے۔سوانح حیات کے متعدد ابواب کے ساتھ اس میں وہ مقالے بھی شامل ہیں جو اُنہوں نے ’’کشمیر عظمیٰ‘‘ کے لئے لکھے ہیں ۔سوانح حیات کے ساتھ یہ مقالے کتاب کے تسلسل کو بنائے رکھتے ہیںکیونکہ ان مقالوں سے بھی وہی درد چھلکتا ہے جو اُن کی زندگی کے شب وروز سے وابستہ ہے۔ یہ درد ہماری وادی گلپوش کا درد ہے جس کے پھولوں کی مہک چرا لی گئی ہے۔ کشمیر کے اس درد کے ساتھ زمردہ حبیب کی کہانی اس حد تک پیوستہ ہے کہ اُن کی حیات اور یہ درد لازم و ملزوم نظر آتے ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ زمرد حبیب نے اپنے وجود کو اس درد سے وابستہ کیا ہوا ہے۔ اُنہوں نے اس درد کے ساتھ اپنی زندگی کو ایک ایسے مرحلے پر وابستہ کیا جب کوئی بھی خاتون سماجی روش کے مطابق اپنی زندگی کو ایک ڈگر پہ ڈالتی ہے، جہاں ایک گھر کا وجود ہوتا ہے اور جہاں شریک حیات کے ساتھ اُس کے بچے زندگی کا محور بن جاتے ہیں۔ زمردہ حبیب کی رگ وپے میں کشمیر کاز کے درد نے یہ مقام آنے ہی نہ دیا۔  زمرودہ حبیب کی زندگی سراپا درد ہے اوریہ درد اُن کے وابستگان پہ بھی عیاں ہے ۔ وہ ایک وسیع دائرے میں قومی کاز کے لئے مصروف عمل  ہیں اور اس دائرے میں شامل ہر فرد کی نگاہ موصوفہ قابل احترام ہیں۔ یہی ہمہ جہت احترام اُن خدمات کا صلہ ہے جو وہ اپنی قوم کے لئے انجام دی چکی ہیں۔
زمرودہ حبیب کی زندگی میں بڑے حساس موڑ آئے۔ وہ ایسے حادثات اور امتحانات سے بھی دوچار ہوئیں جہاں وہ دل برداشتہ ہو کر میدان کارزار سے کنارہ بھی لے سکتی تھیں لیکن اُنہوں نے کاز کے لئے سختیاں ہی سہیں اوربھارت کے سخت ترین قید خانوں میں زندگی کے بیش قیمت لمحات گزارے لیکن ہمت نہ ہاری۔ تہاڑجیل کے سلاخوں کے پیچھے زندگی کے پانچ سال گزارنا ایک ایسا کڑا امتحان تھا جو سخت سے سخت انسان کو بھی پسپائی پہ اُکسا سکتا تھا، چہ جائیکہ ایک نازک اندام خاتون لیکن سچ تو یہ ہے کہ زمردہ حبیب اس سنگین امتحان سے بھی سر خرو ہو کر نکلیں۔ وہ ایک منفرد خاتون ہیں جس نے یہ سب کچھ سہا لیکن اُف تک نہ کی۔ اُن کے داغ داغ وجود کے جو زخم ہیں، وہ انہیں چھپانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں لیکن اُن کی مسکراہٹ میں بھی اُن کی افسردگیاں اُن کے جاننے والے ، چاہنے والے اور اُن کا کام پہچاننے والے  محوس کرتے ہیں۔ بہت سخت آزمائشوں کے باوجود اُنہوں نے اپنے اُس نصب العین سے وفا کی جسے وہ اپنے وجود کو وابستہ کر چکی ہیں۔ اپنے اسی پیارے نصب العین کو اُنہوں نے اپنی داستانِ حیات کے پیرائے میں اپنے لوگوں تک پہنچاننے کی کامیاب کوشش ا س نئی تصنیف کی صورت میں کی ہے۔
ماضی میں ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ ہماری جوقومی جدوجہد کی کہانی صدیوں پہ محیط ہے، ہمارے اپنے لوگوں سے بیان یا تحریر نہیں ہو پائی۔1586ء میں آزادی جیسی بے بہا نعمت کھونے کے بعد کشمیری قوم کی مقاومت کے کئی رنگ کئی روپ سامنے آئے لیکن ہماری تاریخ کے یہ رُخ ہم سے بحسن وخوبی بیان نہیں ہو پائے ۔ ہمارے بارے میںغیروں کی تحریروںسے وہ درد بھرے نقوش کہاںعیاں وبیاں ہوسکتے جو اپنوں کی قلمی کاوش سے نمایاں ہوتے تو بات بنتی ۔کشمیر میںشاہمیری آئے ، مغل آئے،افغان آئے اور اُن کے بعد سکھ اور ڈوگرہ   ہم پرقابض حکمران بنے متصرف ہوئے ۔ا نہوں نے کشمیر کو زیادہ تر دُکھ اور درد ،ا لمیوں اور زخموںکی کہانیاں سونپ دیں ۔ چنانچہ صدیوں پر محیط ظلم و جبر کی ا ن کہانیوں میں کہیں استحصال، کہیں قحط ، کہیں بیگار، کہیں آگ زنیاں ، کہیں سیلابیں ، کہیں زلزلے، کہیں قومی تحقیر ، کہیں مذہبی توہین، کہیں ہلاکتیں، کہیں آنسو ، کہیں آہیں تھیں جو آج بھی قدم قدم ہر حسا س دل شخص کو خون کے آنسورُلاتی ہیں ۔ انسان ہاتھوں کی دی ہوئیں یہ ساری المناکیاںہمارا سکھ چین لوٹتی رہی ہیںاور ان پر مستزادقدرتی آفات نے بھی یہاں ڈیرہ ڈال کر رہی سہی کسر نکالی۔ سیلاب،زلزلے، وبائیں ، قحط اور ایسی ہی دیگر سینکڑوں طرح کی آسمانی بلاؤں نے مل کر ہزاروں کشمیریوں کو بقائے حیات کے لئے نقل مکانی یامہاجرت پر مجبور کیا ۔ بہر صورت یہاں کی اکثریتی مسلم آبادی پر بار بار جو قہر ٹوٹا ،اُس کی حزنیہ تفصیلات بیان کرنے کے لئے غیروں نے قلم اُٹھا ئے مگراُن کی رقم شدہ تواریخ میں یہاں کی درد بھری کہانیوں کی کسک منتقل ہو ہی نہ سکی ۔ہماری طویل حزنیہ کہانی میں 1865ء کا قہر بھی شامل ہے جو سری نگر کے شالبافوں پر ٹوٹا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ راج کاک دھر ہمارے ہی اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتا تھا لیکن وہ جابرانہ ٹیکس وصولی میں ڈوگرہ شاہی کا سنگ دل ترین آلۂ کار بنا۔ اُس سے پہلے بلہ کاک دھر افغان شاہی کو 1819ء میں سکھ شاہی میں بدلنے کا سازشی آلۂ کار بنا ۔یوں کشمیر کا اکثریتی مسلم طبقہ اپنوں کی جفاؤں اور غیروں کے ناقابل ِبیان مظالم ومصائب اور وحشتوں کا تختہ ٔ مشق بنا۔ اس پر ظلم یہ کہ یہاں کی اکثریتی مسلم آبادی چونکہ ناخواندہ، توہم پرست، لا علم ہونے کے علاوہ موثر سیاسی وانتظامی رہنمائی سے بھی محروم تھی، بنابریں ہم میں سے اپنا کوئی بھی اپنی یہ روح فرساداستان بیان کر نے اور اس کی کلیات وجزئیات دنیا کے سامنے لانے کے لئے پیدا ہی ہوا۔ ا س لئے ہم پر جو بھی بپتا گزری وہ زیادہ تر اَن کہی رہی، حتیٰ کہ  1931ء کو تاریخ کا رُخ موڑنے والے واقعات کو بھی بعض لوگوں نے دانستہ طور غلط انداز میں پیش کیا ۔یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ13جولائی  1931ء کو کشمیر میں عوامی سطح پر وقوع پذیر تاریخی سانحات نے یک بیک قوم کی دبی کچلی اُمنگوں میں صدیوں بعد ایک نئی روح پھونک ڈالی، اس نئی روح کو متحرک وفعال بنانے میں یہاں کے معصوم شہیدوں کا بہایا ہوا پاک خون فوری محرک بنا۔ اس سے یہاں ایک طاقت ور سیاسی آواز پیداہوئی ، امانت داری کا تقاضا تھاکہ اس آواز کو دنیائے انسانیت کے سامنے واشگاف الفاظ میں لایاجائے تاکہ کشمیر یوں کے درد کا مداوا ہو ۔ اس کے بجائے حالات اور حقائق کوتعصب وخود غرضی کی نگاہ سے دیکھنے والوں نے اس آواز کی حقیقت کو بھی مسخ کر کے اسے فرقہ واریت کے رنگ میں پیش کیا۔ بایں ہمہ ا س تاریک دور میں صدما تِ کشمیر کو صرف دو موثر قلم میسر آئے:ا یک قلم کشمیر کے سپوت علامہ اقبال کا تھا جنہوں نے اپنے کئی اشعار میں کشمیر کا درد اُجاگر کیا ، ودسراقلم کشمیر کے مورخ و صحافی محمد دین فوقؔ کا تھا جس نے کماحقہ کشمیر کا درد منعکس کیا۔ اس پس منظر میں زمردہ حبیب کی آپ بیتی اُسی درد ِ نہاںکو کشمیر میں پائے جانے والے نئے زمینی حالات کے تناظر میںپیش کر نے کی ایک سعی ٔ  مشکور ہے ۔
زمرد حبیب کی سوانح حیات اُس گھر سے شروع ہوتی ہے جہاں وہ پلی بڑھیں۔ مقاومت و مزاحمت کی حماسہ آفرینی کو اُس گھر میں کاملاًپرکھا جا سکتا ہے جہاں زمرودہ حبیب کی پیدائش ہوئی اور جہاں وہ پروان چڑھیں۔ مغل گورنر اسلام خان کے بسائے ہوئے اسلام آباد قصبے کے ایک متوسط تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدائش اور پرورش سے زمرودہ حبیب کی شخصیت کے وہ جوہر ابتداء سے ہی کھلنے لگے جو قدرت کے عطا کردہ تھے۔اُن کی سماجی زندگی کا آغاز ایک دلخراش واقع سے ہوا جس میں اُن کے قصبے کی ایک شادی شدہ خاتون کو جہیز کے معاملے میں سسرالی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا جو اُس بچاری کی موت پہ منتج ہوئیں۔ زمرودہ حبیب کی حساس شخصیت یہ سانحہ سہہ نہ سکی اور وہ سماجی برائیوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے ’’اسلام آبادوومنز ویلفیر ایسوسی ایشن‘‘ نامی رضاکار تنظیم کے تحت خواتین کی صف آرائی میں مصروف عمل ہوئیں ۔یہ عوامی زندگی میں اُن کی پہلی کاوش تھی جس میں اُن کی تنظیمی صلاحتیں اُبھر کر سامنے آئیں۔ آنے والے ایام میں یہ صلاحیتیں تب کام آئیں جب کشمیرمیں 1989/90میں نئے حالات آتش فشان پھٹ پڑا۔ کشمیر میںایک ایسے خون آشام جدوجہد کا آغاز ہوا جسے کشمیر کاز کے حوالے سے بجا طور ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔ زمرودہ حبیب کا گھر کشمیر کے اُن ہزاروں گھروں میں سے ایک تھا جس پر انہی نامساعد حالات کے پس منظر میں ریاستی قہر ٹوٹ پڑا،اور وہ بھی اس شدت کے ساتھ کہ جس کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ 
زمرد حبیب خود ایک سر گرم سماجی کارکن بن ہی چکی تھیں اور جلد ہی اُن کی سماجی کاوشیں سیاسی جدوجہد کا روپ دھار گئیں۔ سماجی محاذاور سیاسی محاذ میں صرف اُنیس بیس کا فرق ہوتاہے اور اس قریبی تعلق کے بارے میںبلا مبالغہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سماجی اور سیاسی مسائل کا چولی دامن کا ساتھ  ہوتاہے ۔ یہ مسلمہ اُن حالات و واقعات سے بھی ثابت ہوا جن سے زمرودہ حبیب کا خاندان دو چار ہوا۔ عسکری تنظیم کے نامور کمانڈر منظور الاسلام کا اُن کے گھر آنا جانا سرکار کی جاسوسی تنظیموں کے وسیع جال سے زیادہ دیر چھپا نہ رہا۔ اسی کے ساتھ زمرودہ جی کی زندگی چھاپوں ، تلاشیوں، رو پوشیوں،گرفتاریوں اورقید و بند کی صعو بتوں کا مر کز بن گئی اور اس صورت حال نے ایک لمبی مدت تک طول کھینچا۔اس دوران ان کے والد گرامی جہاں فانی کو وداع کہہ گئے۔ان سارے دلدوز حادثہ کے باوجود زمردحبیب کی عزم وہمت ا ور کشمیر کاز کے لئے مقاومتی سطح پر سیاسی جد وجہد قائم ودائم رہی ۔ اسی دوران اُنہوں نے کشمیری طلبہ کی انجمن ’’اسلامک اسٹوڈنٹس لیگ‘ ‘کے فروغ کے لئے بھی کام شروع کیا۔اس تنظیم کے سر براہ شکیل بخشی کی تحریک پر ایک نسوانی انجمن بنام ’’مسلم خواتین مرکز‘ ‘ تشکیل دی گئی جس کی زمرودہ حبیب سر گرم رُکن رہیں۔اس نسوانی تنظیم کو مزاحمتی تنظیموں کی صف میں شامل تو کیا گیا ، البتہ بقول زمرودہ حبیب خواتین کو مزاحمتی صفوں میں وہ مقام ومرتبہ نہیں ملا جس کی آبادی کا نصف حصہ ہونے کے ناطے وہ مستحق ہیں۔اُن کی تصنیف میں یہ حق بجانب گلہ بار بار رقم ہو ا ہے۔اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مزاحمتی تحریک میں جانفشانی کے باوجود اُن کو تنظیمی اور تحریکی فیصلوں میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ بہ نظر غائر دیکھا جائے تو خواتین نے ریاستی جبر کو جس قدر سہا ہے، اُن سے جو تاریخِ مزاحمت وشجاعت رقم ہوئی ہے، اُس کی مناسبت سے اُنہیں تحریک کا عضوئے فعال بنانے کی اشد ضرورت تھی تاکہ آبادی کے نصف حصے کو محرومی کا احساس راہ نہ پاتا۔مزید برآں اس اقدام سے مزاحمتی تحریک میں جمہوری عنصر اور توازن شامل ہونے کی دلیل فراہم ہو سکتی ہے۔
مزاحمتی تحریک کے ہراول دستے میں فعال ومتحرک ہونے کے باوجود زمردہ حبیب اُن منفی پہلوؤں سے غافل نہیں جو عسکری تحریک میں سرایت کر گئے تھے ، وہ اُن کا برملا اور بے خوف ذکربھی کرتی ہیں۔اُن کی تحریر میں یہ گلہ بھی موجود ہے کہ انانیت کئی بندوق داروں کی شخصیت  کا جز بن گئی تھی اور اس کے علاوہ کہیں کہیں بندوق کا غلط استعمال بھی ہوا۔اس کی ایک واضح دلیل وہ گروہی تصادمات تھے جن سے لوگوں میںعسکریت پسندوں کے تئیں بے اطمینانی پیدا ہوئی۔ َعلاوہ ازیں پہلے پہل جبراََ لوگوں کی جیبیں خالی کرنے کے واقعات بھی منظر عام پہ آتے رہے جس سے اُس قلبی وابستگی میں واضح کمی آئی جو عسکری تحریک کی ابتدا ء میں لوگوں کے دلوں میں جنگ جوؤں کے لئے رچی بسی تھی۔ عسکریت میں منحرف اخوانی بندوق برداروں شامل ہونے سے منافرت میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا ۔ اپنی تنظیم ۔’’مسلم خواتین مرکز‘‘ کو وقت کی آلائشوں سے صاف و پاک رکھنے کیلئے زمردہ جی نے جائز آمدن کا ایک وسیلہ بھی ڈھونڈھ لیا ، جو اچار بنانے والی ایک کمپنی کا آغاز بھی بنا۔ حالانکہ اُس کا نتیجہ خاطر خواہ نہیں نکلا ،البتہ یہ مذکورہ تنظیم کے اخراجات کو کسی سوالیہ نشان کے بغیر رکھنے کی ایک قابل قدر کوشش تھی۔ ’’مسلم خواتین مرکز‘‘ میں خواتین کو نرسنگ ٹریننگ دینے کا اہتمام بھی کیا گیا،جس سے قرون اولیٰ کی اُن مسلم خواتین کی یاد تازہ ہوتی ہے جنہوں نے غزوات میں بھر پور حصہ لے کر اسلام کی آبیاری میں اپنا کنٹریبوشن دیا۔
 زمردہ حبیب کاتہاڑ جیل میں پانچ سال قید و بند میں گزارنے کے دوران’’ مسلم خواتین مرکز‘ ‘میں اتنی رخنہ اندازیاں ہوئیں کہ جیل سے رہائی کے بعد زمرودہ حبیب اس تنظیم کو آنجہانی ڈکلیئر کرنے پہ مجبور ہوئیں اور اُن کی ایک نئی تنظیم وجود میں آئی’ ’کشمیر تحریک خواتین‘‘ کے نام سے منظر عام پہ آئی ۔ یہ تنظیم حریت (گ) کی ا یک اکائی ہے ۔مصنفہ چونکہ تہاڑ جیل کی سخت ترین اذیتیں برداشت کر چکی تھیں، لہٰذا اُنہوں نے بیواؤں کی فہرست کی تکمیل کے ساتھ ساتھ قیدیوں کے خانوادوں کے ساتھ بھی رابطہ مہم کا آغاز کیا ۔اُس سلسلے میں اُنہوں نے جو کچھ رُودادیں سنیں، وہ زیر مطالعہ تصنیف میں جس انداز سے منعکس ہوئی ہیں، اُنہیں پڑھ کر سخت سے سخت دل والاآدمی کے ا پنے آنسو نہیں رُک سکتے۔ تہاڑ جیل سے رہائی کے بعد کشمیر میں یکے بعد دیگرے جو خونین واقعات و حادثات سنہ دوہزار آٹھ ، نو اور دس میں یہاں پیش آئے، اُن کا تفصیلی ذکر اس تصنیف میں اپنے پس منظر و پیش منظر سمیت موجود ہے ۔
 تصنیف کے آخر میں وہ مقالات شامل ہیں جو زمرد حبیب نے ’’کشمیر عظمٰی‘‘ کے لئے تحریر کئے ۔ان مقالات کے عنوان انتہائی دلچسپ ہیں۔ زمرودہ حبیب کے ان مقالات میں کہیں جھنڈوں کی سیاست ہے، کہیں بنتِ کشمیر پرظلم و تشدد کی یلغار میں نظر آتی ہے، کہیں ماں کی عظمت کو سلام کیا جا رہا ہے اور کہیں مصیبت کی ماری مخلوق کا تفصیلی یا اجمالی ذکر ہے۔ مصنفہ کی یہ تحریریں اس حقیقت کی عکاس ہیں کہ ہمیں اپنی کہانی خود ہی کہنی ہے اور ماضی میں جو کوتاہیاں ہم سے اس ضمن میں ہوئیں ،اُنہیں حق بیانی کے وسیع تر مفاد میں ہمیں سدھارنے کا کوئی بھی موقع نہیں کھونا چاہیے۔ 
زمرد حبیب کی سوانح حیات ’’نگاہ انجم‘‘ کے پبلشر’ ’کتاب محل‘‘ کا آفس بوٹہ شاہ محلہ لال بازار سرینگر میں واقع ہے۔اس سے ٹیلی فون نمبر :7298807671 پہ رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے جب کہ ای میل:[email protected]` بھی رابطے کیلئے دستیاب ہے اور یہ کتاب مناسب قیمت پہ خریدی جا سکتی ہے۔
:Feedback on: [email protected]