زمانہ چلا ہے قیامت کی چال

مانا  کہ اپنے ملک کشمیر میں بارُودی دھماکے ہوتے رہتے ہیں، گولیوںکی گن گرج جاری ہے ،ساتھ میں پیلٹ کا قہر عروج پر ہے ، اشک آور گولوں کا شور ہے اور ٹاس پٹاس فورس کا زور ہے مگر سب سے بڑے اور بھاری دھماکے اپنے گورنر ملک صاحب ستیہ ستیہ بولتے کرتے جارہے ہیں ۔ آخر جب وہ ستیہ پال ملک ہیں توستیہ ہی کا پالن کیوں نہ کریں ۔راج بھون کے مغلیہ طرز کے دیوان خاص سے دور و نزدیک نظر دوڑا کر انہوں نے جومحسوس کیا وہ سچ سچ بول دیا ۔ہو نہ ہو ملک ِکشمیر کے سیاست دان اور بیروکریٹ اندر ہی اندر صاف گوئی کی اس تکرار سے خفا ہوں کہ ملک صاحب کو ان کے جہانگیری طرز زندگی اور عیش کوشی پر سیدھی نظر پڑی ہے ۔اپنے ملک ِکشمیر میں چونکہ ارباب ِاختیار و اقتدار سے سوال پوچھنے کا رواج نہیں اور اگر کسی نے کرنے کی ہمت جٹائی بھی تو اس کے لئے ٹاس فورس کی دھنا دھن اور پی ایس اے کی ٹھسا ٹھس موجود ہے، اس لئے سوال پوچھنے والے بس چپ سادھے ہیں ، زبانوں پر علی گڑھی تالے چڑھا رکھے ہیں۔ملک کشمیر میں سال ہا سال سے خاموشی کی آزادی ہے مگر سوال پوچھنے پر افسپائی قدغن ہے لیکن بھارت ورش میں کچھ دنوں سے بھاجپا کے  سیاسی شیروں کی دھاڑ بلی جیسی میائوں میں تبدیل ہوچکی ہے اسی لئے ہم زعفرانی ترشولوں سے پوچھتے ہیں : اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی ؟ یہ کنول اُگانے والے، چلہ ٔ  کلان کانام موسم بہار سے بدلنے والے دیوانے ، ٹی وی اسکرینوں پر کنول کنول کی جپ کرنے والے آج کل قبرستان جیسی خاموشی سے کیوں مزے لے رہے ہیں؟ دل جلے کہتے ہیں کہ کنول برادری کئی ماہ وسال سے سہ طلاق سہ طلاق کی رٹ لگائے  شور مچا رہی تھی لیکن اب کی بار مودی یوگی شاہ کمپنی کو یک بارتین ریاستوں میں سہ طلاق ملا کہ بولتی بند ہوگئی ۔ ہم تو کہتے کہتے تھگ گئے دیوانو مستانو! خالی پیٹ آستھا سے نہیں بھرتا مگر وہ بولتے پتنجلی کھائو گئو ماتا کے گُن گائو،زعفران کی جے جپ جاؤ۔ہم بولتے کہ پیٹ میں دو لقمے نہ ہوں تو کیا پتہ کس گلی زندگی کی شام ہوجائے ؟ وہ بولتے جے سیا رام بولو ، ہر ہر مہادیو پکار ، ایک اینٹ لے کر ایودھیا پہنچ جائو تو بھوک مٹ جائے گی، پیاس بجھ جائے گی، نہ اسکول کی ضرورت رہے گی ، نہ شفاخانے کی حاجت ہوگی ، جہاز کس کام کا بیل گاڑی جو ہا تھ آئے ، جہاں گائے ماتا کا گوبر ہو وہاں گیس سیلنڈر شیروں میں جیسابندر ۔ ہم بولتے ہم سے اینٹ بھی نہیں اُٹھاتی جاتی وہ بولتے پھر تو تم پکے دیش دروہی ہو ، چھی چھی چھی کشمیر کے پتھر بازو ںسے بھی کوئی سبق نہیں لیا ہے؟ تمہاری دیش میں کوئی ضرورت نہیں، پر لوک سدھار جاؤ یا سرحد پار جانے کی تیاری کرو۔
 بھائیو اور بہنو! چلواب کچھ میٹھا ہوجائے کہ اِ دھرہم اسی بحث وتکرا رمیں یوگی میک ہمالیہ سے سر ٹکرا رہے تھے، اُدھر اپنا ہاتھ جگن ناتھ والا پپو جی مودی جی کو چاروں شانے چت کر گیا ۔ راجستھان ، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش سے دھڑا دھڑ سُوچنائیں ملیں کنول کی پتیاں خزاں کو گلے لگا کر لگاتار گر رہی ہیں، اور ہاتھ راتوں رات اپنی کرامات دکھا رہا ہے۔  دل پہ ہاتھ رکھ کر بولئے ایسا کیوں نہ ہوتا؟ کیا کنول کی چکنی چپڑی  باتیں ، قسمیں وعدے، پندرہ لاکھی بنک اکاؤنٹ ، اچھے دن کی سُرتال کہیں سچائی کی کسوٹی پر کھری اُتریں؟نوٹ بھی ہرے نہ اُترے ، سب کا ساتھ سب کاوکاس بھی سرجیکل سٹرائیک جیسا خواب ِپر یشاں ثابت ہوا ، جملہ بازیاں بھی بازی ہار گئیں ، نوٹ بندی کا تماشہ بندروں کی اُچھل کود ثابت ہوا،جی ایس ٹی کی مار کچھ ایسی پڑی کہ کمر دوہرے ہو گئے ، بے چارے بیوپاری اب ٹیڑھی کمر اور جھکی گردنوں کا بوجھ اٹھائے اپنی بری قسمت کو کوس رہے ہیں،پندرہ پندرہ لاکھ بنک کھاتوں کے طویل انتظار میں لوگ پرلوک سدھارے۔ اس دوران دیکھنے کو کچھ ملا تو فقط مودی مہاراج کے بدیشی دورے ، سودیش میں اُڑن طشتریوں کی آوا جاہی ، آدھی سے زیادہ دنیا گھومنے، ملک ہند کا خزانے کو سفر خرچے کا چُونا لگا نے کے بعد مہاسیوک کو کس بدیشی ملک نے وکاس دیا ، خوشی کے دن دئے ، چمتکاری ترقی کا تحفہ دیا؟قیمتی سوٹوں ملبوس ہوکرسیلفیاں لینا، چوراہوں پرقد آدم تصویریں نصب کروانا ، آسمان کو چھونے والے پٹیلی مجسمہ ، یہی کچھ وکاس ہے بھئی ؟اور یہی سب دیکھ کر لوگ باگ بولیں شاید یہ بھارت ورش کی جنتا سے جھوٹے وعدے کرنے والے فرار ملزم کے پکڑنے کے لئے اشتہار بانٹے گئے ہیں   ؎
کم بخت کو آتی نہیں تہذیب ذرا بھی 
کرتا ہے سر شام ڈھینچوں میرے آگے
لا بیچوں گا منسوخ شدہ نوٹوں کی ردی
جو اس نے کیا تھا وہی آیاتیرے آگے
بھارتیہ جنتا ہی نہیں، لگتا ہے بھاجپا سے گئو ماتا بھی ناراض ہے جس کے نام اس نے درجنوں لوگوں کو ہجومی تشدد میں پیٹ پیٹ کر جان سے مارا ،کسی پر گائے اسمگلنگ کا بہتان، کسی پر گائے کاٹنے کا الزام ، کسی کو گائے خوری کا دوش دے کر نشانہ ٔ عبرت بنایا گیا۔گائے نے مانوتا کی یہ دُرگت دیکھی تو غصہ آیا، غصہ بھی ا تنا ہائی ڈگری کہ راجستھان میں گئو رکھشا منتری اوتا رام دیواسی الیکشن ہار کر بے یار ومددگار ہوکر رہ گیا۔مانو گائے نے اپنے نام پر ظلم وبریت برداشت نہ کیا، اسی لئے منتری کو دولتی  یہ کہہ کرماردی ، بچُو! میں تو دودھ پلانی والی ماتا ہوں تیری طرح کوئی مارخور آدم خورنہیں   ؎
آغاز یہ تھا مجھ سے گائے بڑی شاد تھی
انجام دیکھ لو کہ میں سابق وزیر ہوں
خود رام چندر جی بھی کنول برادری سے اُکھڑے اُکھڑے لگتے ہیں کہ یہ لوگ ان سے بھی جھوٹ بولتے رہے۔رام جی کے نام پر مندر کی تعمیر کا سال ہا سال سے ووٹ کے لئے ڈھنڈور ا پیٹتے ہیں، پھر کھمب کرن کی نیند سو جاتے ہیں اور الیکشن کے وقت انگڑائیاں لے کر رام مندر رام مندر کی مالا جپتے ہیں تاکہ رام جی کے نام پر ووٹ کیا مانگیں سیدھے جی ایس ٹی کاٹ لیں۔ جبھی تو رام جی بھی کنول برادری کی مدد کو  اس بارنہ آئے کیونکہ انہیں بھی معلوم تھا کہ رام مندر کی تعمیر بھی یہ مطلبی یار جھوٹ کے اسی پلندے سے جوڑ چکے ہیں جس میں پندرہ پندرہ لاکھ کی بنک پاس بُک رکھی کہ جنتا کے منہ میں بس کچھ میٹھا ہونے کے لئے نقلی کینڈی رکھی ہے۔رام جی ہی نہیں خود بجرنگ بلی بھی یوگی جیسے کنول برداروں سے خفا خفا ہیں کہ ان کے نام بھی دنگا فساد کا تانا بنا بُنا جبھی تو مسلم اقلیت کے نام چیتاونی جاری کردی کہ ہم اپنی اوقات پر آگئے تو حیدر آباد سے تمہیں بھگا دیں گے،اور پھر حیدر آباد، کریم آباد کا نام بھی بدل دیں گے۔نام بدلی کا نیا کاروبار یوگی نے پہلے ہی شروع کیا  ہواہے ۔خود اجیت سنگھ بشت کا نام آدیتہ نا تھ اور مغل سرائے ، الہٰ آباد وغیرہ بھی بدل ڈالے۔کیا پتہ الیکشن ہارنے کے جرم میں وہ بھاجپا نام بھی بدل ڈالے۔پندرہ لاکھ کے پاس بک کو شونی(زِیرو) میں تبدیل کردے۔ ادھر جنتا نے جو کروٹ لی تو کنول برداروں کا کانگریس مکت خواب بھی ٹوٹ گیا ، یوگی کا مسلم مکت بھارت کا سپنا بھی چکنا چور ہوا ۔کیا پتہ خود بھارتی جنتا ناگپوری چڈی مکت بھارت کا ہی فیصلہ سنا دے   ؎
اک چیز ہے اس شہر لکھنو کا گدھا بھی 
ہوشیار بھی احمق بھی پرانا بھی نیا بھی 
میں اس علاقے سے آیا جو ہے مردم خیز
یوگی کے گورکھپور سے میں نہیں آیا 
کبھی فلمی اکبر بادشاہ نے کہا تھا کہ سلیم تمہاری باتوں سے بغاوت آ رہی ہے۔مانا کہ کنول برادری مغل راج پر کیچڑ اچھالنے سے نہیں کتراتی مگر مغل دور کی تاریخی تعمیرات کا ہی غیر ملکی مہمانوں کو سیر کراتے ہیں کیونکہ اپنے دور کے گئو شالہ اور سوچھ بھارت ابھیان کے لوٹے دکھانے لائق نہیں ۔اس پر طرہ یہ کہ ڈائیلاگ بھی مغلیہ دور کا ہی چلاتے ہیں کہ یہ کہنے میں شاندار، جاندار اور وزن دار معلوم پڑتا ہے۔اسی لئے تو کنول بردار ڈاکٹر جیتندر سنگھ نے اعلان کردیا کہ محبوبہ مفتی کے اس بیان سے بغاوت کی بو آتی ہے جس میں انہوں نے  اہل پیر پنچال مع وادیٔ چناب کے لئے لداخ جیسی پہاڑی کونسل کی مانگ کی ۔کہاں قلم دوات والے کنول قلم گٹھ جوڑ کے سبب نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے اور کہاں اب کل کے یار طعنہ دیتے ہیں کہ تم لوگ حریت سے بھی زیادہ خطر ناک ہو۔اب تو بے چارے قلم دوات والے اپنی سر زمین پر دو گز کی گزارش کرتے ہیں،البتہ کنول بردار شاید وہاں بھی چھینا جھپٹی کرکے اپنا مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
 کہنے والے لوگ کہتے ہیں اپنے ملک کشمیر کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔اسی لئے یہاں انصاف نام کی چیز اصل میں عام خام کو چپ کرانے کا ایک آلہ ہے۔بشری حقوق تو جھالا ہے کہ اس کی رحمت جگہ جگہ گرتی ہے مگر اپنے ملک کشمیر میں خواب وگمان میں بھی نہیں۔اپنا ہر سیاست دان دلی دربار کا گوالا ہے۔ہر وردی پوش جوالا ہے کہ دائیں بائیں آگ ہی آگ اُگلتا پھرتاہے اور اس کے چلتے اپنے یہاں  ووٹ بائیکاٹ کا ٹھمکا بھی چلتا ہے اور الیکشن فارم بھرنے کا جھمکا بھی ہلتا ہے ۔ہڑتال بھی ہوتی ہے لیکن قصائیوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا جاتا ہے کیونکہ مانس اپنی ا س پتھری میں پانی، بجلی ، سگریٹ ، دوائی، وازہ وان کے ساتھ ساتھ لازمی سروس شمار ہوتا ہے۔ہم تو اس بات پر سوچ وبچار ہی کر رہے تھے کہ دس دسمبر کو اس بات کی تصدیق ہوگئی ۔اپنے ملک کشمیر میں کیا کیا نہیں ہوتا دس دسمبر کی یاد مناتے ہوئے ۔ ہم نے دیکھا کہ وہ بے نصیب خواتین جنہیں عرف عام میں نیم بیوائیں کہا جاتا ہے، شہرخموشان کی ایک مغموم پارک میں حسب ِ معمول اپنے زیر حراست غائب چہیتوں کا پتہ بے برگ وبار چناروں سے پوچھ رہی تھیں ، نزدیک ہی اپنا بشری حقوق ادارہ ڈرگ کنٹرول پر بحثا بحثی کر رہا    تھا، یعنی ایک طرف بعداز گرفتاری گمشدہ اہل کشمیر کی بازیابی کے لئے ماتم تھا ، دوسری طرف چرس گانجہ کی سپلائی وغیرہ پر فضول مغز ماری ہو رہی تھی۔ عام لوگ بیس ماہ کی ہبہ نثار کی آنکھوں کا رونا رو رہے تھے ، اور بشری حقوق ادارے کے خاص لوگ مو گیمبو کو خوش کر نے کے لئے افیون ِکوریکس پر بے وقت کی بانسری بجا رہے تھے۔اُدھر غم زدے انصاف کی دیوی سنگ دلوں کی چوکھٹ پر کھوج رہے تھے ، اِدھر ذمہ دارانِ سرکاری جھوٹی وعظ خوانی میں مصروف تھے   ؎ 
یہ نوازش مہربانی کتنی ہے سرکار کی؎
زخم بھی ان کے ہیں مرہم سرکار کی
کرتے ہیںدن رات مانگ انصاف کی
وعظ کی  بارش ہوئی ہم پرسرکار کی 
رابط ([email protected]/9419009169)
