زرعی قوانین منسوخ لیکن کسان غیر مطمئن

         مرکز ی حکومت نے گزشتہ سال ستمبر میں جس طرح جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں تین زرعی قوانین کو منظور کیا تھا، اب اَس سال اُسی طرح ان زرعی قوانین سے دستبرداری کا بِل پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہوئے منظور کرلیا۔ وزیراعظم نریندرمودی نے گرونانک جینتی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت تین زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کرتی ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ملک کے کسانوں سے معذرت خواہی کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حکومت ان قوانین کے مثبت پہلوؤں کو کسانوں کے سامنے واضح کرنے میں ناکام ہو گئی ۔ اس لئے کسانوں کے مطالبہ کو قبول کرتے ہوئے ان قوانین کو بہت جلد منسوخ کردیا جائے گا۔ وزیراعظم کی اس یقین دہانی سے ملک کے کسانوں نے خوشی تو ظاہر کی کیا لیکن تا حال اطمینان کا اظہار نہیں کیا  ہے، جب کہ پارلیمنٹ میں بھی ان متنازعہ قوانین کی تنسیخ عمل میں آ چکی ہے۔مرکزی حکومت نے کسانوں کی ایک سال کی نا قابلِ فراموش جدوجہد کے بعد کسانوں سے اپنی ہمدردی جتائی ہے لیکن اس ایک سال کے دوران کسان جن دشوار ترین حالات سے گزارے گئے، اس کا مشاہدہ نہ صرف ملک کی عوام نے اپنی کھلی آنکھوں سے کیابلکہ ساری دنیا ایک سال سے ان متنازعہ قوانین کے خلاف جاری کسانوں کے احتجاج کو بھی دیکھ رہی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ کسانوں کے اس زبردست احتجاج نے حکومت کوپریشانیوںسے دوچار کردیا تھا۔ کسانوں کے اتحاد نے حکومت کوکسان مخالف قوانین واپس لینے پرمجبور کردیا۔ ان زرعی قوانین سے دستبرداری کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم وجہ آئندہ سال ہونے والے پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات بتائے جاتے ہیں ۔ ان میں اترپردیش اور پنجاب بھی شامل ہے۔ ان قوانین کو منسوخ کرنے کے بعد بھی ابھی تک کسانوں کا مطمئن نہ ہونااس بات کا اشارہ دلاتا ہے کہ کسانوں کی نظروں میںاس معاملے میں حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔ جس من مانے انداز میں یہ قوانین پارلیمنٹ میں منظور کیے گئے تھے، اُ سی اندازمیں ان کو منسوخ کیا گیا ہے۔قوانین کی منظوری کے وقت پارلیمنٹ میں اس پر نہ کوئی مباحث ہوئے اور نہ ہی ان قوانین پر اپوزیشن پارٹیوں کو کچھ بولنے کا موقع دیا گیا۔ گویا یہ دونوں دن ہندوستانی جمہوریت کے بالکل برعکس دکھائی دیئے۔ گزشتہ پیر کو ایک ہنگامہ خیز ماحول میں زرعی قوانین کی تنسیخ کا بِل پارلیمنٹ میں منظور کرلیاگیا۔ حکومت نے اُن سات سو کسانوں کی موت پر کسی طرح کے غم کا اظہار نہیں کیا ،جو اس طویل احتجاج کے دوران دنیا سے رخصت ہوگئے۔ حکومت کے ان قوانین نے کسانوں کی جانیں لے لیں۔ وزیراعظم نے جب کسانوں سے معذرت خواہی کر لی توپھر مرنے والے کسانوں کے ساتھ ہمدردی اور ان کے خاندانوں کی مدد کا جذبہ بھی وزیراعظم کے دل میں ہونا چاہئے۔ لیکن اس بارے میںحکومت کا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔ظاہر ہےکہ جس وقت ان قوانین کولایا گیا، اُ س وقت بھی کسانوں سے کوئی مشورہ نہیں لیا گیا اور قوانین کو مسترد کرتے وقت بھی کسانوں کے مطالبات کو پیشِ نظر نہیں رکھا گیا۔ اس لئے کسان قوانین کے منسوخ ہونے کے باوجود اپنا احتجاج ختم نہیں کررہے ہیں۔ ان کا ادعا ہے کہ حکومت نے ان کے سارے مطالبے قبول نہیں کئے ہیں اور جب تک یہ سارے مطالبے حکومت قبول نہیں کرتی وہ اپنے گھروں کو نہیں جائیں گے ۔
     پارلیمنٹ میں کسی بھی قانون کو منظور کرنے سے پہلے مذکورہ قانون پر کھلے مباحث ہونے کی روایت ہمارے ملک میں برسوں سے جاری ہے ۔ لیکن جب  سےموجودہ حکمرانوں کے ہاتھوں میں اقتدار آیا ہے، پارلیمنٹ میں مباحث سے گریز کا چلن عام ہو گیا ہے۔ پارلیمنٹ کو جمہوریت کی مندر کہا جاتا ہے۔ مندر کے تقدس کا احترام کرنے کا دعویٰ کرنے والے ہی اس کی پامالی کے ذ مہ دار قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ پارلیمنٹ ملک کے عوام کے جذبات کی عکاّسی کرتی ہیں ۔ 2014   سے لے کر اب تک جتنے بھی قوانین ملک میں نافذ کئے گئے ان پر پارلیمنٹ میں کوئی سنجیدہ مباحث نہیں ہوئے۔ پارلیمنٹ میں عددی اکثریت رکھنے کے یہ معنی نہیں کہ حکومت عوام کی مرضی اور ان کی ضرروتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسے قوانین بناتی چلی جائے جو عوام کی زندگی کو اجیرن کر کے رکھدیں۔ستمبر 2020میں مودی حکومت نے ایک ایسا قانون بنادیا جس سے کسانوں کو احساس ہونے لگا کہ موجودہ حکومت ان کی معیشت کو تباہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ کسانوں کو خدشہ لاحق ہوا کہ تین متنازعہ زرعی قوانین کو ملک میں لاگو کرنے کا مقصد تھا کہ کسانوں کی زمینوں اور ان کی پیداواری اشیاء پر قبضہ کرکے کارپوریٹ طبقہ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جائے۔ زراعت میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے نام پر کسانوں سے ان کی روٹی روزی چھین لی جائے گی۔ کسانوں کے بقول، موجودہ مرکزی حکومت کسانوں سے ہمدردی کے نام پر ان سے کھلواڑ کررہی ہے۔ اس لئے ان قوانین کے خلاف وہ سڑکوں پر نکل آئے ہیں ۔ کڑاکے کی سردی اور شدت کی گرمی کو انہوں نے برداشت کیا، اپنے گھر اور کھیت کو چھوڑ کر کسان مسلسل ان قوانین کے خلاف احتجاج کرتے رہے۔ لیکن حکومت نے ایک سال تک مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔ ہر مرتبہ حکومت کا دعویٰ رہا کہ کسان پہلے گھر چلے جائیں اس کے بعد ہی ان سے مذاکرات کئےجا سکتے ہیں۔ حکومت کی اس ضد کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسانوں کااحتجاج دن بہ دن بڑھتا چلا گیا۔ اس دوران کسانوں نے یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹریکٹر ریالی بھی نکالی۔  چند شرپسندوں نے تشدد برپا کرتے ہوئے ریلی کو درہم برہم کر دیا۔ دہلی کے لال قلعہ پر شر پسندوں نے قومی پرچم کے بجائے ایک مخصوص پرچم لہرادیا ۔ کسانوں پر الزام لگاگیا کہ ریلی میں خالصتانی بھی شامل ہو گئے تھے۔ اس موقعہ پر ملک کے کسانوں پر لاٹھیاں بر سائی گئیںاور مقدمات دائر کیے گئے۔ ان قوانین کو منظور کرتے ہوئے حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس سے زرعی ترقی ہو گی اور کسانوں کو بہت ساری سہولتیں حا صل ہوں گی۔ اگر یہ قوانین واقعی کسانوں کے مفاد میں تھے تو پھر کیوں کسانوں کو ان قوانین کے خلاف احتجاج کرنا پڑا۔ کسان کیا اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں کہ کو ن سا قانون ان کے لئے نفع بخش ہے اور کس سے انہیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر یہ قوانین کسانوں کے لئے راحت رسانی کا ذریعہ بنتے تو وہ کیوں سراپا احتجاج بن کر سامنے آتے۔ کسان لیڈروں کا کہنا ہے کہ کسانوں کا استحصال کرتے ہوئے ملک کی معیشت کو کارپوریٹ خاندانوں کے ہاتھوں گرِ وی رکھنا ان قوانین کا ایک اہم ایجنڈا تھا۔ کسانوں کے صبر اور ہمّت کا دامن نہیں چھوڑا،اور اپنے احتجاج کے ذریعہ حکومت کے عزائم کو ناکام بناتے ہوئے حکومت کی کسی بھی بات سے اتفاق نہیں کیا،یہی وجہ ہے کہ حکومت کو بالآخر پیچھے ہٹنا پڑا۔         
       متنازعہ قوانین کی تنسیخ ہو چکی ہے۔ لیکن کسانوں کے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں۔ اس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ زرعی قوانین کی منسوخی ، مرکزی حکومت کے لئے کوئی زیادہ فائدہ کا سودا ثابت نہیں ہوا۔ زرعی قوانین کی منسوخی کے پیچھے جو کوئی بھی منطق ہے، اُس سے بھی یہ اندیشے بڑھتے جارہے ہیں کہ مستقبل میں پھر ایک مرتبہ اس نوعیت کے قوانین حکومت بنا سکتی ہے۔ مرکزی حکومت کے بعض وزراء کے بیانات سے یہ اُلجھن پیدا ہورہی ہے۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ حکومت نیک دلی کے ساتھ ان قوانین سے دستبردار نہیں ہو ئی ہے بلکہ سیاسی مجبوریوں نے حکومت کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا، اور مجبوریوں کے ٹل جانے کے بعد حکومت اس معاملے میں یو ٹرن لے سکتی ہے۔ اس لئے کسان قائدین اس بات پر مُصر ہیں کہ قوانین کی منسوخی کے ساتھ ان کے دیگر مطالبات بھی قبول کر لئے جائیں۔ محض زرعی قوانین سے دستبرداری کسانوں کو منظور نہیں ہے۔ اس دوران جو کچھ متشدانہ واقعات ہوئے اس کی بھی کھلی تحقیقات ہونی ضروری ہیں۔ لکھیم پور سانحہ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس دردناک واقعہ میں ایک مرکزی وزیر 
کے بیٹے نے اپنی گاڑی سے آٹھ افراد کو روند دیا، ان میں چار کسان تھے۔ وزیراعظم نے ان مرنے والے کسانوں کے لئے ایکس گریشاء کا بھی اعلان نہیں کیا۔ اسی طرح کے دیگر مطالبات کو لے کر کسان اب بھی حکومت سے ناراض ہیں۔ دانشمندی کا تقاضا تھا کہ قانون کے بنانے سے پہلے کسانوں سے جڑے مسائل پر کسانوں سے بات چیت کی جاتی اور ان کو اعتماد میں لے کر قانون بنایا جاتا۔ لیکن حکومت نے بڑی جلد بازی میں قانون بناکر اسے کسانوں پر مسلط کرنا چاہا لیکن اس کے جو نتائج نکلے اس سے خود حکومت کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب جب کہ اپوزیشن پارٹیاں کسانوں کے مسائل پر مباحث کا مطالبہ کررہی ہیں ، حکومت کوفرار کا راستہ اختیارنہیں کرنا چاہئے۔ اس سے حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں مباحث سے کترانا ، اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ حکومت کے پاس اس کا کوئی معقول جواب نہیں ہے کہ آخر کن بنیادوں پر یہ قوانین گزشتہ سال پارلیمنٹ میں بغیر مباحث کے منظور کیے گئے تھے۔ افسوس کی بات ہے کہ ان ارکانِ پارلیمنٹ کو ایوان سے معطل کردیا گیا جو عوامی مسائل پر مباحث چاہتے ہیں۔ اس طرح کی صورت حال سے جمہوریت کی بھی پامالی ہوتی ہے۔ اس رجحان کو ختم کرنا بہت ضروری ہے ورنہ جمہوریت صرف پردے پر رہ جائے گی اور ملک میں غیر جمہوری نظام جڑ پکڑ لے گا۔ اکثریت اور طاقت کے بَل پر اگر قوانین بنتے چلے جائیں تو عوام کے لئے نئی مصیبتیں کھڑی ہو جائیں گی۔ سوال صرف زرعی قوانین کی منسوخی کا نہیں ہے بلکہ حکومت کے مزاج کو بدلنے کا ہے۔اگر قانون کسی فردِ واحد کی مرضی سے بنتا ہے اور اس کی مرضی سے ختم کیا جاتا ہے تو یہ جمہوریت کا کھلا مذاق ہے۔ آج ملک میں یہی ہورہا ہے۔ وزیراعظم مودی نے نوٹ بندی کا اعلان بھی راتوں رات کیا تھا۔ایسا نہیں ہے کہ موجودہ حکومت ملک کی پارلیمانی روایات سے واقف نہیں ہے۔لیکن وہ نہ معلوم کیوں دانستہ یا غیر دانستہ طور پارلیمنٹ کے وقار کو گھٹا رہی ہے۔ کسی بھی قانون کو بنانے سے پہلے اس پر مباحث کو کیوںضروری نہیں سمجھ رہی ہے۔ تین طلاق کے خلاف قانون بھی بغیر کسی مباحث کے منظور کرلیا گیا۔ شہریت ترمیمی بِل بھی اسی انداز میں لایا گیا اور اب زرعی قوانین کے معاملے میں حکومت اپنی مرضی چلارہی ہے۔ قانون کو بنانے اور اسے رد کرنے کا اختیار حکومت کو ہے ، لیکن کسی بھی قانون کوبنانے یا رد کرنے سے پہلے پارلیمنٹ میں مباحث ضروری ہیں۔ اگر ایسانہیں ہوتا ہے تو پھر ملک میں جمہوریت کی دہائی دینا محض ایک فریب ہی کہلائے گا۔ ْ
(رابطہ۔9885210770)