محکمہ زراعت کے پرنسپل سیکرٹری نوین چودھری نے ایک حالیہ میٹنگ میں کہا کہ نیتی آیوگ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق جموںوکشمیر ایک برس کے اندر زراعت اور اس سے منسلک شعبوں میں مجموعی طورپر پانچویں نمبر پر آگیا ہے۔اْنہوں نے مزید کہا کہ یوٹی اَب اوسط کسانوں کی گھریلو آمدنی میں تیسرے نمبر پر ہے۔پرنسپل سیکریٹری کا بیان امید افزاء لگ رہا ہے اور اس سے یقینی طور پر امید کی کرن پیدا ہوگئی ہے تاہم زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔زراعت اور اس سے منسلک شعبوں میں قومی سطح پر پانچویں نمبر اور کسانوں کی گھریلو آمدن میںتیسرے نمبر پر آنا کہنے میں بہت اچھا لگتا ہے لیکن لوگ جانتے ہیں کہ جموںوکشمیر میں زرعی شعبہ بدستور سکڑتا ہی چلا جارہا ہے۔کشمیر صوبہ میں پچھلے چھ برسوں میں 78 ہزار ہیکٹر سے زائد زرعی اراضی کو غیرزرعی مقاصد کیلئے استعمال میںلایاگیاہے جبکہ حکومت زرعی زمین کے بے دریغ تبادلوں پر روک لگانے میں مکمل طور ناکام ہورہی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2015 میں کشمیر میں غیر زرعی مقاصد کے لئے 78 ہزار ہیکٹر (جو کہ 15.4 لاکھ کنال کے مساوی ہے) زرعی زمین کااستعمال ہوا ہے۔سرکاری اعداد و شمار اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کررہے ہیں کہ کشمیر میں زرعی زمین سکڑ رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق کشمیر میں 2015 میں 4 لاکھ 67ہزار700 ہیکٹر زرعی اراضی تھی جو 2019 میں گھٹ کر 3 لاکھ 89 ہزار ہیکٹر رہ گئی ہے۔اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر کے علاقے میں دھان کی کاشت کے تحت زمین 2015 میں 1لاکھ48ہزار ہیکٹر سے کم ہوکر 2018 میں 1لاکھ40ہزارہیکٹر رہ گئی۔اسی طرح مکئی کی کاشت ان برسوں میں ایک لاکھ یکٹر سے گھٹ کر 76ہزار ہیکٹر رہ گئی جبکہ دالوں کی کاشت 14ہزار600 ہیکٹر سے کم ہوکر 12ہزار767 ہیکٹر رہ گئی ہے،نیزتیل کی کاشت 86ہزار ہیکٹر سے کم ہوکر 81ہزارہیکٹر رہ گئی ہے۔مرکزی وزارت زراعت کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق 2011 سے 2016 تک اوسط سائز 0.62 ہیکٹر فی شخص سے گھٹ کر 0.59 ہیکٹر رہ گئی ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا کہ زرعی اراضی کا غیر زرعی استعمال دیہی اور شہری دونوں کشمیر میں ہو رہا ہے جو ایک بڑے خطرے کی گھنٹی ہے۔2011 میں ، حکومت نے اس وقت کے باغبانی کے وزیر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی تاکہ ایک ایسا بل وضع کیا جائے جو خاص طور پر غیر زرعی مقاصد کے لئے زرعی زمین کے استعمال کے مسئلے کو حل کرے۔لیکن مجوزہ قانون سازی کو مبینہ طور پر سیاسی دباؤ کی وجہ سے حتمی شکل نہیں دی گئی۔اپریل 2012 میں ہائی کورٹ نے زرعی اراضی کے غلط استعمال کے خلاف ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے دائر کی گئی مفادعامہ کی درخواست پر زرعی اراضی کو تعمیراتی سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنے کی روش ختم کرنے کیلئے صوبائی انتظامیہ کو سخت اقدامات کرنے کی ہدایت دی تھی اور اس ضمن میں پولیس کی مدد لینے کی بھی بات کی گئی تھی جبکہ عدالت عالیہ نے اس سے قبل تمام ضلع ترقیاتی کمشنروں پر لازم بنایا تھا کہ وہ اپنے اضلاع میں زرعی اراضی کے غلط استعمال سے متعلق رپورٹ پیش کریں تاہم ابھی تک سبھی اضلاع سے یہ رپورٹ عدالت عالیہ میں پیش نہیں کی گئی جس سے اس حساس مسئلہ کے تئیںانتظامیہ کی غیر سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ایک وقت تھا جب کشمیر خوراک کے معاملے میں کم و بیش خود کفیل تھا لیکن آج حالت یہ ہے کہ جواہر ٹنل چند دن بند ہوجاتی ہے تو کہرام مچ جاتا ہے ۔سرکار نے علامتی طور آبی زمین کوتعمیرات کے استعمال پر پابندی تو عائد کردی ہے لیکن سرکار کی ناک کے نیچے بلکہ خود سرکار کے بیشتر اعلیٰ عہدیداروں نے آبی زمین پر ہی اپنے نشیمن تعمیر کئے ،نتیجہ یہ ہوا کہ زرعی زمین سکڑتی گئی اور اب دانے دانے کیلئے جموںوکشمیر کو پنجاب اور دیگر ریاستوں سے درآمد ہونے والے اناج کا محتاج رہنا پڑتا ہے۔چاولوں سے لیکرگندم اور یہاں تک کہ سبزیاں بھی باہر سے آتی ہیں۔
دوسری جانب آبا دی کا پھیلائو بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔آبادی بڑھتی جارہی ہے۔اس صورتحال میں رہائشی مکانوں کی تعداد میں اضافہ ہونا فطری امر ہے۔آخر لوگوں کو سر چھپانے کیلئے آشیانے تعمیر کرنے ہیں ،انہیں جہاں زمین ملی ،مکان تعمیر کیا۔ ہمیں مکانات تعمیر کرنے کیلئے اپنی زرعی اراضی کی قربانی دینا پڑرہی ہے حالانکہ جموں و کشمیر زرعی اصلاحات قانون اور جموں و کشمیر ریونیو ایکٹ کی صورت میں واضح قوانین موجود ہیںجن کے تحت آبی اول زمین پر مکانوں کی تعمیر پر ممانعت ہے۔اس کے باوجود یہ مکان کیسے تعمیر ہورہے ہیں ،ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینے کی شایدضرورت نہیں۔
جتنی جتنی زمین کم ہوتی جائے گی ،ہم اناج کے ایک ایک دانے کیلئے بیرون ریاست سپلائی کے محتاج بنتے جائیں گے اور اگر اس عمل کی رفتار یہی رہی تو وہ دن دور نہیں ہوگاجب ہمارے پاس اپنی کوئی پیداوار نہ ہوگی بلکہ ہمیں بیرونی پیدوار پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔اس پالیسی سے جہاں ہماری معیشت تباہ ہوکر رہے گی وہیں ہماری خود انحصاری کا جنازہ نکلے گا کیونکہ زرعی معیشت کے سکڑتے جموں وکشمیرمیں کوئی متبادل معیشت فروغ پذیر نہیں ہو پارہی ہے۔لوگوں کو اس بڑھتے ہوئے رجحان کے منفی پہلوئوںپر غور کرنے کی زحمت گوارا کرنی چاہئے۔لوگ ضرور عالیشان مکان بنائیں۔انہیں آرام سے زندگی بسرکرنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایسا وہ اپنی آنے والی نسلوں کی تقدیرکو دائو پر لگا کر کریں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ رہائشی تعمیرات کے وقت ہم اس بات کا خیال رکھیں کہ زرعی زمین محفوظ رہے اور زیادہ سے زیادہ بنجر زمین اور کاہچرائی ہی رہائشی مقاصد کیلئے استعمال ہو۔اس منصوبہ پر جتنی جلدی عمل کیا جاتا ہے ،اتنا ہی بہتر رہے گا ،ورنہ اس کے بھیانک نتائج کیلئے ہمیں تیار رہنے پڑے گا۔