پرویز مانوس
سرکاری اسپتال سے مایوس ہونے کے بعد جابر چنڈی گڑھ کے ایک نجی اسپتال میں علاج کے لئے آیا تھا، جہاں بہت قابل ڈاکٹر تعینات تھے۔ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے اُس کی تشخیص کرنے کے بعد کچھ ضروری ٹیسٹ کروائے اور آج ڈاکٹروں کی ٹیم اپنے کیبن میں بیٹھ کر جابر کی حالت پر صلاح و مشورہ کر رہے تھے۔
میرے خیال میں اس بیماری کو کافی عرصہ ہو چُکا ہے لیکن حیرت اس بات کی ہے کہ آج تک اس بیماری کی علامات ظاہر کیوں نہیں ہوئیں ؟
ڈاکٹر شرما نے اپنے ہونٹ چباتے ہوئے کہا تو ڈاکٹر سنگھ نے رپورٹ کو عینک کے پیچھے سے دیکھتے ہوئے جواب دیا، یو آر رائٹ…….! یہ کافی دیر سے ہمارے پاس آیا اگر پہلے آیا ہوتا تو کیس کی کچھ اور نوعیت ہوتی۔
آپ کا کیا خیال ہے ڈاکٹر ملہوترہ ؟
تمام رپورٹس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ مرض آہستہ آہستہ پورے جسم میں پھیل جانے کے صد فی صد چانسس ہیں _،، مریض سے مشورہ کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جا سکتا ہے، ٹھیک ہے بُلائیے مریض کو ڈاکٹر شرما نے کہا تو کمپونڈر نے جابر کو اندر آنے کو کہا،، جابر جو کیبن کے باہر بینچ پر اپنی بیوی کے ساتھ انتظار کر رہا تھا اُٹھ کر کیبن میں داخل ہوا۔
ہاں تو مسٹر جابر…..! کیا تمہں اس دوردان کبھی بازو میں درد کا احساس ہوا؟ ڈاکٹر ملہوترہ نے اپنی دونوں کہنیاں میز پر ٹیکتے ہوئے پوچھا،،
نہیں ڈاکٹر صاحب! مجھے آج تک دائیں بازو میں کبھی بھی درد نہیں ہوا، بس اچانک پچھلے چھ سات ماہ سے یہ بازو سوکھنا شروع ہوگیا ، میں نے بہت سارے مقامی ڈاکٹروں کو دکھایا لیکن کوئی کامیابی نہیں ملی،
اب بڑی امید لے کر آپ کے پاس آئے ہیں ،میرا بازو دن بدن بے جان ہوتا جا رہا ہے ہے، کچھ کیجئے ڈاکٹر صاحب کچھ کیجئے، میں تنہا کمانے والا ہوں میرا عیال بھوکا مر جائے گا، جابر آنسو بہاتے ہوئے بولا۔
دیکھو مسٹر جابر بے شک چنڈی میں کسی بھی مرض کا علاج ممکن ہے لیکن اگر وقت پر ہو، آپ کافی دیر سے یہاں آئے ہو، آپ کے جسم کی تشخیص کرنے اور تمام ٹیسٹ دیکھنے کے بعد ہمیں یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کا بازو کاٹنا پڑے گا،، ڈاکٹر شرما نے فیصلہ کن لہجے میں کہا، اگر تمہیں زندہ رہنا ہے، تو یہ بازو کاٹنا ہی پڑے گا، ورنہ اس کا زہر پورے جسم میں پھیل جائے گا۔ ڈاکٹر کی بات سُن کر جابر کے ہوش اڑ چکے تھے۔
نہیں ۔۔۔۔۔! نہیں میں اپنا بازو نہیں کٹوا سکتا جابر زور زور سے چیخ رہا تھا۔
دیکھو اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، یہ کینسر جیسی ہی ایک ایسی بیماری ہے جو کافی آہستہ آہستہ جسم میں پھیل جاتی ہے اور مریض سے بے خبر رہتا ہے، خود کو بچانے کے لئے تمیں یہ قربانی دینی ہی ہوگی ورنہ…..! ڈاکٹر ملہوترہ نے جابر کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر صاحب..! ہمارے بچے ابھی چھوٹے ہیں اور کمانے والے صرف یہی ہیں، اگر بازو کاٹنے سے بچ جائے تو بہتر تھا، کوئی اور طریقہ نہیں ہے؟ اُس کی بیوی نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
دیکھو بیٹی، ڈاکٹر اپنے مریض کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور ہم نے بھی وہی کیا، ہم جابر کی جان بچانا چاہتے ہیں تم ہم سے کوآپریٹ کریں پلیز….! سوچ کر بتاؤ کیا کرنا ہے؟ وقت بہت کم ہے _کہہ کر ڈاکٹر ملہوترہ باقی ڈاکٹروں کے ساتھ کیبن سے باہر نکل گئے ،جابر اور اُس کی بیوی سوچوں میں ڈوب گئے _۔
شام کے ملگجی سائے کائنات پر اپنی چادر پھیلارہے تھے، وارڈ میں دن بھر کی گہما گہمی کے بعد مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
جابر اسپتال کے بستر پر لیٹا ہوا اپنے ماضی کی غلطیوں کو یاد کر رہا تھا۔ اُسے یاد آیا کہ اُس کی ماں ہمیشہ اُسے نصیحت کرتی تھی کہ انسان کو اپنے والدین کا احترام کرنا چاہیے، اُن کے دل کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے، لیکن جابر نے ہمیشہ اُن کی باتوں کو نظر انداز کیا۔اُس کا ذہن ماضی کی طرف بھاگ گیا جہاں اُس کی زندگی کے وہ لمحات تھے جنہوں نے اسے اس حال تک پہنچایا تھا۔
جابر اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا، ایک ایسا بیٹا جسے اُس کی ماں نے آستانوں، درگاہوں، اور پیر فقیروں سے دعائیں مانگ مانگ کر حاصل کیا تھا۔ وہ اپنی تین بہنوں کے درمیان واحد بیٹا تھا اور اُس کی ماں کا ماننا تھا کہ وہ ان کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ بچپن میں جابر ماں باپ کا لاڑلا تھا، ہر وقت اُس کی ہر خواہش پوری کی جاتی۔ وہ ایک مغرور طبیعت کا مالک بن گیا تھا اور یہ رویہ اُس کے جوانی میں داخل ہوتے ہی بگڑتا گیا۔
جب جابر نے نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو اس کی صحبت خراب ہو گئی۔ وہ بے راہ روی کا شکار ہو گیا اور آوارہ لڑکوں کے ساتھ وقت گزارنے لگا۔ نشہ کرنا، بے مقصد سڑکوں پر گھومنا اور اپنے والدین کو تنگ کرنا اُس کا روزمرہ کا معمول بن چکا تھا۔ _ ایک دن پانچوں دوست ایک کیفے میں بیٹھے کوفی کی چسکیاں لے رہے تھے تو سمیر نے جابر کو طنزاً کہا،
تُو نئی گاڑی خریدنے والا تھا، خریدی؟
جابر نے اداس لہجے میں کہا،، کیا بتاؤں یار باپ نے کہا پہلے کسی قابل بن جاؤ پھر گاڑی لانا۔
اس کا مطلب تُو ناقابل ہے؟
سمیرررررررر! جابر نے غُصے میں کہا،
میں تو مذاق کررہا تھا، تیرا جیسا قابل ہے کوئی؟
ارے چند ماہ قبل تو تمہارا باپ اچھے عہدے سے ریٹائر ہوا ہے، اچھی خاصی رقم لائی ہوگی، عامر نے لقمہ دیا۔ _ دراصل تُو نے شرافت سے مانگے ہونگے اسی لئے انکار کردیا۔ میرے باپ نے بھی انکار کیا تھا لیکن جب میں انرجک ڈرنک پی کر گیا تُو بلا جھجک کہہ دیا کہ اگر مجھے گاڑی کے لئے پیسے نہیں دئیے تو میں گھر کو آگ لگا دوں گا ۔ میرے ہاتھ میں گاسلییٹ کا ڈبہ دیکھ کر ڈر کے مارے سب سہم گئے، بس پھر کیا تھا، ایک ہفتے بعد گاڑی میرے آنگن میں تھی، شمیم نے سگریٹ کا کش لگا کر دھویں کے مرگولے ہوا میں اُڑاتےہوئے کہا۔
تمہارا کیا مطلب ہے کہ جابر بھی یہی طریقہ اختیار کرے؟ سمیر نے اُکساتے ہوئے پوچھاپھر۔
ارے میرے یار سیدھی انگلی سے گھی نہیں نکلتا، مقصد حاصل کرنے کے لئے انگلی تیڑی کرنی ہی پڑتی ہے، عامر نے خالی کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔،،
دوستوں کی باتیں سُن کر جابر کی غیرت جاگ اُٹھی، اُس نے ٹھان لیا کہ آج فیصلہ کرکے ہی رہے گا۔
ایک دن جابر گھر آیا اور اپنے والدین کے سامنے بیٹھ کر بڑے غرور سے کہا، “مجھے پانچ لاکھ روپے چاہئیں۔
پانچ لاکھ؟؟؟ سُن کر اُس کا باپ حیرانی سے اُس کی طرف دیکھ کر بولا، پانچ لاکھ کیا کوئی چھوٹی موٹی رقم ہوتی ہے، تجھے کیا کرنا ہے پانچ لاکھ کو؟
میں بھی اپنے دوستوں کی طرح ایک گاڑی خریدنا چاہتا ہوں ۔ اُس کے والد نے اُسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی،
بیٹے تجھ سے کہا کچھ کام کرلے پھر گاڑی بھی آجائے گی۔ جن پیسوں پر تمہاری نظر ہے وہ پیسے تمہاری دو بہنوں کی شادی کے لئے رکھے ہیں۔ تجھے اس بات کا احساس ہے کہ تمہاری دو دو جوان بہنیں مہندی کے لئے ہاتھ پھیلائے بیٹھی ہیں اور تُو گاڑی لانے کی بات کرتا ہے۔ ابھی مجھ پر ان کی ذمہ داری ہے، تمہیں گاڑی کی ضرورت ابھی نہیں ہے”
جابر کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ وہ ایڑی مار کر گھر سے نکل گیا پھر اُس کے اندر کا غرور اور غصہ بھڑک اُٹھا۔ اُس نے اپنے والدین کی ایک نہ سنی اور اگلے چند دنوں میں معاملہ مزید بگڑ گیا۔
لوفر دوستوں نے اُسے خوب بھڑکایا تو ایک رات وہ شراب پی کر گھر آیا تو والد اُس کے مُنہ سے نکلتی بدبو سونگھ کر بولا _” شاباش ۔۔۔۔!یہی کمی رہ گئی تھی آج وہ بھی پوری کردی تیرے لاڑلے نے، اور چڑھا اس کو سر پر ۔۔۔ ارے بد بخت یہ تُو نے کیا کیا؟
تیری یہ حاکت دیکھ کر ہمارے دروازے پر کون آئے گا رشتے کے لئے؟ ماں نے اپنا ماتھا پیٹتے ہوئے کہا۔ نشے کی حالت میں اُس نے والدین سے شدید جھگڑا کیا۔ اُس نے غصے میں آکر ماں کو چوٹی سے پکڑ کر گھیٹنا شروع کردیا، باپ سے جب برداشت نہیں ہوا تو اُس نے ایک زور دار تمانچہ جابر کے دائیں گال پر جڑ دیا، یہ دیکھ کر جابر کی آنکھیں غُصے سے سرخ ہو گئیں، نشے نے اُس کا دماغ ماوف کردیا تھا اور اُس نے باپ کو گریبان سے پکڑ کر گھونسے مارنے شروع کردئے۔ اس دوران بہنوں نے بیچ بچاؤ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن صنف نازک کتنا زور آزماتیں، وہ ناکام ہوگئیں اور کھڑکی کھول کر چلانے لگیں جس سے محلے کے لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔ جابر نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنے والد کو جوتے سے مارنا شروع کر دیا۔ وہ بے چارہ بھاگتا ہوا گھر سے سڑک پر آگیا لیکن محلے کے کسی بھی شخص میں یہ ہمت نہیں تھی کہ جابر سے اُسے چُھڑا سکے۔ اپنے والدین کی اس قدر تذلیل کرتے دیکھ کر سارے توبہ توبہ کر رہے تھے، محلے کے تمام لوگ جو اس منظر کو دیکھ رہے تھے، خاموش تماشائی بنے رہے۔ اگر کوئی آگے بڑھنے کی کوشش کرتا تو جابر انہیں بھی غلیظ الفاظ سے نوازتا۔
اُس لمحے جابر کی ماں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اُس نے روتے ہوئے کہا، “جابر، میں نے آج تک تجھے صرف دعائیں دی ہیں، لیکن آج میں تجھے بددعا دیتی ہوں۔ جس ہاتھ سے تُو نے اپنے باپ کو پیٹا ، تجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ تیرا یہ ہاتھ ناکارہ ہو جائے گا۔”
یہ الفاظ جابر کے دل میں پیوست ہو گئے، لیکن اُس وقت اُس نے اس بات کو کوئی اہمیت نہ دی۔ زندگی نے اپنا معمول جاری رکھا اور جابر نے اپنی مرضی کے مطابق کورٹ میرج کرکے زندگی بسر کرنے کی ٹھان لی _ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
چند ماہ بعد جابر کا وہی ہاتھ اچانک سوکھنا شروع ہوگیا۔ پہلے تو اُس نے اس درد کو نظر انداز کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ لکڑی کی طرح ہوگیا ۔ اُس نے کئی ڈاکٹروں سے مشورہ لیا، لیکن کوئی بھی بیماری کی تشخیص نہیں کر پایا۔ آخرکار، ایک سرکاری اسپتال کے ڈاکٹر نے اُسے چنڈی گڑھ جانے کی صلاح دی، جابر کے بازو میں کینسر ہو چکا ہے اور وہ بھی ایسے مرحلے میں جہاں فوری طور پر بازو کاٹنا ضروری تھا۔
یہ خبر سن کر جابر کے ہوش اُڑ گئے۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ اُس کی ماں کی بددعا کا نتیجہ ہے، جس نے اُس کے غرور اور نافرمانی کی بنیاد پر اُس کے جسم پر اپنا اثر دکھایا۔ جابر نے بار بار اپنی ماں کو یاد کیا، اُس کی دعاؤں کو، اُس کے صبر کو، اور اُس بددعا کو جس نے آج اُس کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔
جابر اسپتال کے بستر پر لیٹا ہوا اپنی آنکھوں سے اشک بہا رہا تھا لیکن اب وقت گزر چکا تھا۔
اب جابر کی آنکھوں کے سامنے وہ لمحے گھوم رہے تھے جب اُس نے اپنے والد کو جوتے سے مارا تھا۔ اُسے اپنی ماں کے آنسو یاد آئے، اُس کی آواز جو اُس وقت غصے اور دکھ سے کانپ رہی تھی۔ اُس نے پہلی بار اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا اور دل ہی دل میں اپنے والدین سے معافی مانگنے کی دعا کی۔
اسپتال کے کمرے میں ڈاکٹر دوبارہ آئے اور جابر سے آخری بار پوچھا ” مسٹر جابر کیا فیصلہ کیا آپ نے؟
جابر نے نڈھال لہجے میں کہا، ” ڈاکٹر صاحب کاٹ دیجئے یہ ہاتھ، شاید اسی طرح میرے گناہوں کا کفارہ ادا ہو سکے۔”
ڈاکٹروں نے جابر کی رضا مندی کے بعد اُس کے بازو کو کاٹ دیا۔ جابر کا جسم تو بچ گیا، لیکن اُس کی روح ہمیشہ کے لیے زخمی ہو چکی تھی۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ والدین کی بددعا کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتی اور آج وہ اُس بددعا کے نتیجے میں اپنے بازو سے محروم ہو چکا تھا۔
اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد جابر سیدھا قبرستان پہنچا اور اپنے والد کی قبر پر سر پٹخ پٹخ کر معافی مانگنے لگا _،
���
آزاد بستی نٹی پورہ ویسٹ سرینگر
موبائل نمبر؛9419463487