ریاست میں فارسی کے بعد اُردو کا نمود

ہمالیہ کے دامن میں واقع خوبصورت وادیٔ کشمیر برصغیر کا ایک ایسا قدیم علاقہ ہے جو ہمیشہ اپنی جغرافیائی حدبندیوں کی بنا پر دنیا کے دیگر حصوں سے نسبتاً الگ تھلگ رہا۔ برصغیر کی شمالی سرحد پر واقع اور پھر اونچے اور دشوار گزار پہاڑوں میں گھرے ہونے کی وجہ سے اس کے لئے ملک کے دوسرے علاقوں سے معاشرتی اور تہذیبی تعلقات کے امکانات کی وجہ سے بھر پور استفادہ کرنا مشکل رہا ہے۔اس کے فلک بوس پہاڑ بھی ہمیشہ سدراہ بنے رہے۔چوراسی ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا یہ خطہ جموں،کشمیر اور لداخ پر مشتمل ہے۔ان تینوں خطوں میں مختلف زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔جموں میں ڈوگرہ،کشمیر میں کشمیری اور لداخ میں لداخی بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ریاست جموں وکشمیر اپنے ماضی میں زبان و ادب،فکرو فلسفہ اور تہذیب وتمدن کا نہ صرف مرکز رہا بلکہ اس نے ایسے درویش صفت انسانوں کو جنم دیا جن کی چھاپ یہاں کی تہذیب وتمدن پر قائم ہے۔اس خطہ میں شعرو ادب کے ایسے چراغ جلتے رہے ہیں جنہوں نے پورے برصغیر کو منور کردیا اور ساتھ ساتھ کشمیری زبان و ادب پر ایسے گہرے نقوش مرتب کئے جو انسانی ذہن سے محو نہیں ہوسکتے۔ ان گراں قدر ہستیوں میں علمدار کشمیر شیخ نورالدین نورانی رحمتہ اللہ علیہ کا اسم گرامی سرفہرست ہے ،جنہوں نے کشمیری زبان کو ایک مقام ِ بلند  عطا کیا ۔ ان کے علاوہ علم و ادب کے جوت جگانے والے کشمیری الاصل علمی وادبی ہستیوں میں دیا شنکر نسیم،تربھون ناتھ ہجر، ڈاکٹر علامہ اقبال،آغا حشر کاشمیری،چکبست،مرزا غالب اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری یا حبیب کیفی وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے اردو نثر و نظم کے ذریعے برصغیر ہند کے اردو ادب کو سوز و ساز بخشا۔ریاست میں ہندو حکمرانوں کے دور میں سنسکرت بولی اور لکھی جاتی تھی اور یہ سرکاری زبان بھی تھی۔ یہ زبان اپنے دور میں علم و ادب کا محور رہی۔ کشمیر کی پہلی باضابطہ مستند تاریخ پنڈت کلہن کی’’ راج ترنگنی‘‘ اسی زبان میں ۱۱۷۴-۹۴ ۱۱میں لکھی گئی اور آج بھی یہ کتاب بطور ریفرنس تسلیم کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے دورِ عروج میں فارسی زبان و ادب کو بے حدترقی ہوئی اور یہ یہاں گھر گھر بولی اور سمجھی جاتی۔کشمیر میں فارسی زبان کا اتنا اثر رہا کہ آج بھی جو کشمیری ستر یا اسی سال میں عمریں طے کر رہے ہیں ،انہیں لمبے لمبے فارسی رباعیاں زبانی یاد ہیں۔خطیب اور واعظ آج بھی اپنے خطابات میں ان رباعیات کو پڑھ کر عوام کے دلوں کو گرماتے ہیں۔مسلمان خاص کر قرآن کے ساتھ ساتھ فارسی زبان بھی سیکھتے سکھاتے تھے کیونکہ اسلامی علوم کا ایک بہت بڑا ذخیرہ اسی زبان میں موجود ہے۔۷۲۷ء سے ۱۰۴۱ء تک کے مقامی فارسی ادب کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جب مسلم سلاطین نے پہلے درسی کتب مرتب کرنے کی جانب توجہ دی ہے تو ان میں سے پہلی تدریسی کتب کے طور شرح شمسیہ ازسید محمد ہمدانیؒ،شرح المعات ازسید محمد قادری،فتاویٰ شہابہ از ملا احمد کا نام لیا جا سکتا ہے۔ دوسرے درجہ میں ہدایتہً مخلصین، رسالہ سلطانیہ،اسرارالابرار اور اس طرح کی دوسری تاریخی کتب شامل تھیں۔تیسرے اور چوتھے قسم میں احوال کشمیر اور شعراء کے دیوانوں کا تذکرہ موجود ہے۔فارسی کا اتنا رواج تھا کہ مقبروں اور قبرستانوں پر لکھے ہوئے کتبے آج بھی اس زبان کے درخشندہ ماضی کی یاد دلاتے ہیں اور اس کی چھاپ ذہنوں میں تروتازہ ہوجاتی ہے۔مورخین کہتے ہیں کہ مغلیہ دور میں کشمیر میں فارسی زبان و ادب کو عروج ملا۔ کشمیری زبان کے بجائے فارسی کا ہی یہاں رواج عام تھا اور جو لوگ فارسی سے واقف نہیں ہوا کرتے انہیں اَن پڑھ تصور کیا جاتا تھا۔کشمیری زبان میں غالباً پہلے کوئی رسم الخط نہیں تھا، اسی لیے اس زبان کو بھی فارسی رسم الخط میں ڈھالا گیا اور یہ اتنا عام ہوا کہ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فارسی زبان کشمیری زبان کا مثنیٰ ہے۔کشمیری زبان پر فارسی زبان کے کیا اثرات مرتب ہوئے ؟اس کا اندازہ انیسویں صدی کے چند اشعار سے لگایا جا سکتا ہے۔
جو یہ منزلست چھی دریاؤ۔ناؤ درآب نہ آب درناؤ
نقطہ پیو عینس تہ غین پیوس ناؤ۔غین سپد محرم تہ کرن ٹاؤ ٹاؤ
تمہ شیچھ منصور مارنہ آؤ۔ناؤ درآب تہ آب در ناؤ
 شہنشاہِ ہند اکبر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ جب اسے کشمیری عوام کی جانب سے یہ شکایتیں ملیں کہ کشمیری حکمران اپنی رعایا سے زیادتیاں کرتے ہیں،انہیں معمولی معمولی باتوں پر زدوکوب کر کے جیلوں میں  ٹھونستے ہیں جو آج بھی برابر ہورہا ہے، تو اکبر نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے اپنے دو معتمد قاضی نوراللہ شوتری اور اپنے ایک معتمد بیت المال کو کشمیر بھیجا تاکہ عوام کی شکایات کا جائزہ لے کر بادشاہ کو مطلع کریں۔ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ دونوں آگرہ اور لکھنؤ کے رہنے والے تھے اور فارسی،عربی اور اردو تینوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔یہ دونوں حضرات بہت عرصہ تک کشمیر میں مقیم رہے اور کشمیری عوام سے اردو اور فارسی میں ہی شکایت سنتے رہے اور بعد میں انہیں مرتب کر کے مغل بادشاہ اکبر کے دربار میں پیش کیا۔ڈوگرہ راج گلاب سنگھ کے مورث اعلیٰ نے 1846میں وادرِ کشمیر ہونے والے انگریزوں سے پچھتر لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض خرید لیا۔کشمیر پر قبضہ کے بہت بعد تک ان کے دور حکمرانی میں بھی دفتری زبان فارسی رہی ، مگر مہاراجی دور میں بتدریج کشمیر میں مختلف اسباب و عوامل کے تحت  فارسی کی جگہ اردو لینے لگی اور اسے اتنا عروج حاصل ہوا کہ آگے یہی سرکاری زبان کا روپ اختیار کر گئی۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ جموں،کشمیر اور لداخ میں تین الگ الگ زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ گویا ایک ہی علاقے کے رہنے والے تین مختلف زبانیں بولتے ہیں ، یہ ہماری علاقائی زبانیں ہیں۔چونکہ کشمیر کا مہاراجہ صلاً جموں کے ڈوگرہ خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور کشمیر اور لداخ میں رہنے والوں سے رابطہ رکھنے کے لیے ایسی ضرورتیں پیش آتی تھیں،اس لئے کوئی ایسی مشترکہ زبان ہونا ضروری تھا جو مہاراجی سلطنت کے درمیان رابطہ کا کام دیتی ۔ صورت حال یہ تھی کہ تینوں صوبوں کے لوگ ایک دوسرے سے براہ راست بات چیت کرسکتے تھے نہ ہی ایک دوسرے کو سمجھ سکتے تھے۔ مواصلات کا بھی کوئی ایسا انتظام نہیں تھا جو ریاستی عوام کو برصغیر ہند کے دوسرے علاقوں کے لوگوں سے لسانی طورملانے کا ذریعہ بنتا۔آمدورفت کا بھی کوئی خاص ذریعہ موجود نہ تھا،چنانچہ سخت قسم کی برف باری اور سردی کی بنا پر جموں وکشمیر اور لداخ کو ملانے والی سڑکیں کبھی کبھی سال بھر یا چھ سات ماہ تک بند رہتیں مگر کچھ عرصہ بعد مواصلاتی نظام بہتر ہواتو ریاست کو پڑھے لکھے اور ہنرمند افراد اور شخصیات کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ یہی و جہ ہے کہ ہندوستان اور پنجاب سے لوگوں کو ریاست میں دھڑا دھڑ ملازمتیں دی گئیں۔حکومت وقت نے انہیں اچھے اچھے منصبوں پر فائز کیا،چونکہ یہ اردو بولنے والے تھے،ا س لئے مقامی لوگوں سے بھی بلا روک ٹوک بات چیت کرتے تھے ، ۔س طرح مقامی لوگوں میں میل میلاپ سے کشمیر میں اردو الفاظ کو عام بول چال میں ایک خاصی جگہ مل گئی جب کہ کشمیری زبان پر پہلے سے ہی فارسی کی چھاپ پڑچکی تھی۔1885میں مہاراجہ گلاب سنگھ کی وفات کے بعد رنبیر سنگھ تخت نشین ہوا مگر گلاب سنگھ کے عہد اقتدار میں ہی بہت سارے علمی گھرانے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آکر یہاں آباد ہوچکے تھے ، جو خاص کر مہاراجی دربار سے بھی وابستہ ہوتے ۔یہ لوگ نہ کشمیری جانتے تھے نہ ہی ڈوگری یا لداخی سے واقف تھے،اس لئے عین ممکن یہ ہے کہ اپنی مادری زبان اردو میں ہی بات چیت کرتے رہے،اس ضمن میں حبیب کیفوی رقمطراز ہیں کہ وہ اپنی مادری زبان اردو یا پنجابی میں ہی گفتگو کرتے ہوں گے۔ایمن آباد کے دیوان خاندان بھی ریاست پر چھا چکے تھے جس کے افراد نہ صرف حکومت کے اعلیٰ مناصب پر فائز تھے بلکہ بڑے علم دوست بھی تھے۔ان کے حاشیہ نشین بھی بڑے علم و فضل والے تھے۔ انہوں نے جلد ہی شہر میں مکتب اور پاٹھ شالے کھولے دئے جہاں پنجاب کے مکینوں کے طرز پر فارسی اور اردو کا نصاب نافذ تھا۔یہاں سرکاری حکم سے بچوں کو درسی تعلیم دلوانے کا سلسلہ شروع ہوا۔یوں اغیار کے درمیان نہ صرف رابطہ بڑھا بلکہ اردو بولنے کا رواج بھی آہستہ آہستہ جڑ پکڑتا گیا۔مذکورہ خاندان کے افراد بڑے علم دوست تھے اور اپنی قابلیت اور صلاحیت سے ریاست کی کلیدی اسامیوں پر براجمان تھے۔اس خاندان کے سربراہ دیوان کرپارام (جو ریاست کا ایک اعلیٰ حاکم بھی تھا) نے گلاب سنگھ کی زندگی کے واقعات اور اس کے عروج کی داستان لکھی ہے۔ اسی پس منظر میں ریاست میں مکتبوں کا جال بچھا دیا جو اردو کی ترویج کا ایک بہت بڑا ذریعہ بنا۔گویا یہ ایک خاموش اردو تحریک تھی جو بہت ہی غیر محسوس انداز میں کشمیریوں کے اندر اپنا اثر کر تی گئی اور چلتے چلتے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گئی ۔ 
7298430453
