سرینگر//ریاستی انتظامی کونسل کی میٹنگ گورنر ستیہ پال ملک کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں کئی اہم فیصلے لئے گئے ۔ان فیصلوں میں روشنی ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کے علاوہ ،سلیکشن بورڑ کی تعیناتیوں میں وویٹنگ لسٹ کی شرح50فیصد تک بڑھانے اور جموں وکشمیر میں گیس نیٹ ورک کے قیام کو منظوری دینا قابل ذکر ہیں۔گورنر ستیہ پال ملک کی سربراہی میں منعقدہ ریاستی انتظامی کونسل کی میٹنگ میں جموں اینڈ کشمیر سٹیٹ لینڈ ایکٹ2001 جسے عرف عام میں روشنی سکیم سے جانا جاتا ہے، کو واپس لینے کی منظوری دی گئی۔لہذا ایکٹ کے تحت عمل میں لائی جارہی تمام کاروائیوں کو فوری طور سے رد کیا گیا ہے۔تا ہم ایس اے سی نے ہدایات دی ہیں کہ واپس لئے گئے ایکٹ کے مدوں کے تحت شروع کی گئی کوئی بھی کاروائی ناجائیز نہیں ہوگی۔جموں اینڈ کشمیر سٹیٹ لینڈز ایکٹ سال2001 میں وجود میں لایا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ ریاست کے بجلی پروجیکٹوں کے لئے وسائل جٹائے جاسکیں اور دوسری طرف ریاستی اراضی پر قبضہ کرنے والوں کو مالکانہ حقوق دیئے جائیں۔اس ایکٹ جسے عام طور پر روشنی سکیم سے جانا جاتا تھا، کو جموںوکشمیر کی تاریخ میں زرعی اصلاحات ایکٹ کے بعد ایک انقلابی قدم قرار دیا گیا تھا اور اُمید ظاہر کی گئی تھی کہ اس ایکٹ سے زرعی سیکٹر کو فروغ حاصل ہوگا اور ریاست بھر میں بجلی پروجیکٹوں کے لئے وسائل جٹائے جاسکیں۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایکٹ کے مدوں کے تحت مالکانہ حقوق دینے سے متعلق درخواستیں31 مارچ2007 تک جمع کرانی تھیں اور اس تاریخ کے بعد جمع کی جانے والی کسی بھی درخواست کو ایکٹ کے مدوں کے دائرے میں نہیں لایا جانا تھا اور اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی اراضی پر مالکانہ حقوق دینے سے متعلق یہ ایکٹ31 مارچ2007 کے بعد جائیز نہیں رہا۔سکیم کی رو سے ابتداء میں لگ بھگ20.55 لاکھ کنال اراضی پر مالکانہ حقوق تفویض کرانے کا نشانہ مقرر تھا جس میں سے صرف15.85 فیصد اراضی کو ہی مالکانہ حقوق دیئے جانے کے لئے منظور کیا گیا اور اراضی کے مالکان سے بہت کم رقم وصول ہوئی جس کے نتیجے میں سکیم کے بنیادی مقاصد فوت ہوئے۔اس کے علاوہ یہ بھی رپورٹ سامنے آئی کہ اس قانون کے کچھ مدوں کا غلط استعمال ہوا۔یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس قانون کو انکر شرما بنام سٹیٹ عنوان کے تحت مفاد عامہ کی عرضداشت کے ذریعے سے ریاستی ہائی کورٹ کے سامنے چیلنج کیا گیا تھا جس کے ذریعے سے عدالت عالیہ نے اس ایکٹ کی کاروائیوں پر روک لگانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہدایات دی تھیں کہ جن مالکان کو اراضی کے حقوق دیئے گئے وہ اس اراضی کو نہ توفروخت کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس پر تعمیرات کھڑا کرسکتے ہیں۔مذکورہ پی آئی ایل عدالت عالیہ کے سامنے التواء میں پڑی ہے۔عدالت عالیہ نے یہ بھی ہدایات دی ہیں کہ روشنی ایکٹ کے تحت آنے والی کسی بھی جائیداد پر مزید کوئی کاروائی نہیں ہونی چاہئے اور ان ہدایات پر عدالت عالیہ کے مزید احکامات تک عمل درآمد ہونا چاہئے۔ریاستی انتظامی کونسل نے سکیم کے تمام محرکات پر تفصیل سے جائیزہ لینے کے بعد کہا ہے کہ سکیم سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے اور اب اس وقت یہ جائیز نہیں ہے۔
بھرتی عمل میں ویٹنگ لسٹ کی حدمیں50 فیصد تک کا اضافہ
اس دوران ریاستی انتظامی کونسل کی میٹنگ میں مشتہر کی گئی اسامیوں کے لئے ویٹنگ لسٹ کی موجودہ حد33.33 سے بڑھا کر50 فیصد کر دی گئی ہے اور اسے10 اسامیاں یا اس سے کم اسامیاں ہونے کی صورت میں صد فیصد تک بڑھایا جاسکے گا۔واضح رہے کہ مختلف محکموں کو ایس ایس بی کو ریفر کی گئی اسامیوں پر منتخب اُمیدواروں کی طرف سے جوائین نہ کرنے کی وجہ سے یہ اسامیاں پُر کرنے میں مشکلات درپیش آتی تھیں۔یہ مشاہدہ کیا گیا کہ بورڈ یکساں تعلیمی قابلیت رکھنے والے مختلف نان گزٹیڈ اسامیوں کے لئے ایک مشترکہ ٹسٹ منعقد کرتا ہے اور ایک اُمیدوار ایک سے زیادہ اسامیوں کے لئے درخواست دیتا ہے اور وہ ایک سے زیادہ اسامی کے لئے منتخب ہوتا ہے اور آخر میں وہ اپنی مرضی کے مطابق ایک ہی اسامی پرجوائین کرتا ہے جس کے نتیجے میں باقی اسامیاں پُر کرنے سے رہ جاتی ہیں اور ان اسامیوں کو محدود ویٹنگ لسٹ کی بنا ء پر پُرکرنے میں دقتیں پیش آتی ہیں۔اس عمل سے بورڈ کو ریفر کی گئی اسامیوں کو بار بار مشتہر کرنا پڑتا ہے اور اس سارے عمل میں کافی درکار ہوتا ہے اور وسائل بھی بنا فائدے کے ضائع ہوتے ہیں۔اس عمل سے وہ اُمیدوار سلیکٹ ہونے سے رہ جاتے ہیں جو33.33 فیصد کے ویٹنگ لسٹ سے آگے ہوں۔اگرچہ اس تعلق سے اسامیاں بھی دستیاب ہوتی ہیں۔وجود میں لائے گئے نئے قوانین فوری طور سے لاگو ہوں گے اور ایسا کرنے سے ایس ایس بی کو ریفر کی گئی اسامیوں کو فوری طور سے پُر کرنے اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اُمنگوں کو پورا کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ایس اے سی نے جی اے ڈی کو ہدایات دی ہیں کہ وہ گزٹیڈ اسامیوں کے لئے بھی جموں وکشمیر پبلک سروس کمیشن کی مشاورت کے بعد اسی طرح کا ایک مد شامل کریں۔
جموں و کشمیر میں ایک گیس نیٹ ورک قائم کیا جائے گا
ادھرآج کے دورِ جدید میں قدرتی گیس کو توانائی کا ایک صاف و شفاف اور بغیر آلودگی کے اہم ذریعہ مانا جاتا ہے اوراس توانائی کو ہم گرمی اور کھانہ پکانے کے مقصد کے لئے استعمال میں لاتے ہیں۔آج کل پوری دُنیا میں گیس پر مبنی اقتصادیات کو فروغ دینے کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں اور قدرتی گیس کو ٹرانسپورٹ، صنعتوں اور گھریلو سیکٹروں میں استعمال میں لایا جاتاہے۔اس اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک بھر میں قومی سطح کا سٹی گیس ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک شروع کیا جارہا ہے۔اس وقت جموں وکشمیر اُن چند ریاستوں میں شامل ہے، جہاں گیس پائپ لائین موجود نہیں ہے۔جموں وکشمیر تک نیشنل گیس گرڈ کو توسیع دینے میں جموں کشمیرانڈر گراؤنڈ پبلک یوٹلٹی ایکٹ2014 کے کئی مدوں کی رو سے رکاوٹیں پیش آتی ہیں جس کی وجہ سے پروجیکٹوں کی عمل آوری میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔گورنر ستیہ پال ملک کی صدارت میں منعقد ہ ریاستی انتظامی کونسل کی میٹنگ میں اس ایکٹ میں ترمیم کو منظوری دی گئی تا کہ گیس پروجیکٹوں کی عمل آوری کے لئے وقت کی حد میں اضافہ کیا جاسکے۔اس وقت یہ حد دو برس کی اور ریاست کی جغرافیائی اور موسمی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ مدت ناکافی تھی اور اب اسے بڑھا کر پانچ برس کیا گیا ہے۔اس فیصلے سے اب مزید گیس کمپنیاں بڈنگ عمل میں حصہ لیں گی۔اُمید ظاہر کی جارہی ہے کہ مجوزہ ترمیم کے ذریعے سے جموں وکشمیر میں 2019 کے آخر تک سرینگر تک گیس پایپ لائین پہنچائی جائے گی جبکہ سٹی گیس ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کو جموں، سرینگر کے علاوہ دیگر بڑے قصبوں میں اگلے18 سے24 ماہ کے دوران قائم کیا جائے گا۔
این جی اوزکے کام میں معقولیت لانے کیلئے قانون منظور
جموں//ریاستی انتظامی کونسل کی میٹنگ آج یہاں گورنر ستیہ پال ملک کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں جموں وکشمیر سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ2018 کی ترمیم کو منظوری دی گئی تا کہ غیر سرکاری تنظیموں اور سوسائٹیوں کے کام کاج میں معقولیت لائی جاسکے۔اس قانون میں رینول ، اپیل ،ڈی رجسٹریشن اور اکاؤنٹس کے رکھ رکھاؤ ، ایڈرس اور ارکان کی تفاصیل سے متعلق مد شامل کئے گئے ہیں۔ترمیم کی بدولت غیر سرکاری تنظیموں اور سوسائٹیوں کے مختلف معاملات میں معقولیت لانے اور جوابدہی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔