معراج زرگر، ترال کشمیر
گرمیوں نے کچے آنگنوں میں ڈیرا ڈالنا شروع کیا تھا۔ کھیتی باڑی کا کام دھیمے دھیمے رفتار پکڑ رہا تھا۔ غلام قادر اپنے گاؤ خانے میں سرما کا جمع شدہ گوبر باہر نکال رہا تھا جسے بعد میں کھیتوں میں پہنچانا تھا۔ قادر ایک درویش تھا مگر عام انسانوں کی طرح تصنع اور ریا سے پاک زندگی گذار رہا تھا۔ کوئی بھی شخص ان کو دیکھ کر بس اتنا ہی اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ ایک عام سا کسان ہے۔ سر پہ اکثر ایک معمولی چار خانوں والی سوزنی ٹوپی پہنی رہتی تھی اور کپڑے وہی پیوند لگے ہوئے اور کہیں کہیں سوئی دھاگے سے پھٹی ہوئی جگہوں پر سلے ہوئے۔ آج بھی فرن نکال کر اور آستین چڑھاکر گاؤ خانے کے اندر سے ایک ٹوکرے میں گوبر بھر کر باہر ایک جگہ جمع رکھ رہے تھے۔
اچانک پرانے طرز کے چوبی دروازے سے ایک فقیر بھیک کی صدا دیتے ہوئے صحن میں داخل ہوئے۔ اور سیدھے قادر درویش کے مکان کا رخ کرنے کے بجائے گاؤ خانے کے دروازے کی طرف لپکے جہاں قادر درویش گوبر ٹوکرے میں بھر رہا تھا۔ جونہی دروازے کے پاس پہنچے تو اپنے دامن کو پھیلاکر قادر درویش سے مخاطب ہوئے،
‘‘ اللہ کے نام پر کچھ دیدوـ۔۔۔اللہ دو جہانوں کی خوشیاں دے گا۔ گھر آباد کرے گا۔’’
قادر درویش، جو مزاجاً بڑے تیز اور جلالی تھا، نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اپنے دونوں ہاتھوں میں گوبر اٹھاکر فقیر کے پھیلے ہوئے دامن میں ڈال دیا۔ فقیر بڑا خوش ہوا اور دامن سمیٹ کر تقریباََ دوڑتا ہوا اور آنگن پھلانگتا ہوا گلی میں دور کہیں گم ہوا۔ غلام قادر کی درویشانہ حِس نے اسے اس بات کا احساس دلایا کہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے ۔ ورنہ فقیر مکان کے بجائے گاؤ خانے کا رخ کیوں کرتا اور گوبر دامن میں خوشی خوشی سمیٹ کر غائب کیوں ہوجاتا۔ مگر جب تک احساس کی گھنٹی بجتی، کچھ عجیب ہو چکا تھا۔ قادر درویش نے جلدی جلدی سارا گوبر ٹوکرے میں بھر بھر کر باہر جمع کیا۔ وضو کرکے کھانا کھایا اور ظہر کی نماز ادا کرکے عصر تک جائے نماز پر بڑے گم صم اور متفکر اسی سوچ میں رہے کہ دوپہر کے وقت کیا واقع پیش آیا تھا۔؟ کیا معلوم کوئی امتحان یا کسی مشکل گھڑی کا سامنا ہو۔ ؟ کبھی خود پہ غصہ آنے لگتا اور کبھی فکر اور پریشانی سے بے قرار ہونے لگتے۔
کئی ہفتے اسی کشمکش میں گذرےاور راتوں کی نیند تک حرام ہوئی۔ راتوں کو جاگ جاگ کر اور تہجد میں رو رو کر اس واقع کی نسبت آہ و زاری کرتے رہتے کہ آخر ماجرا کیا تھا۔ ان کی اہلیہ نے درویش کی ساری زندگی کے زہد و تقویٰ، ریاضت اور مجاہدات دیکھے تھے لیکن اتنا پریشان اور فکر مند کبھی بھی اپنے خاوند کو نہیں دیکھا تھا۔ ان کی اہلیہ مگر نبض شناس اور صابرہ تھی۔ اس لئے اپنے خاوند کی بے قراری کو اپنی محبت اور خدمت سے قرار بخشتی رہی، مگر کبھی بھی اپنے خاوند سے استفسار نہیں کیا کہ وہ بھلا اتنے فکر مند کیوں ہیں۔وہی ایک انسان تھی جو قادر درویش کی اصلیت اور درویشی سے پوری طرح واقف تھی ، جب کہ باقی سارے لوگ انہیں ایک عام سا انسان اور کسان سمجھتے تھے۔
کئی ہفتوں کے بعد ایک رات قادر درویش نے خواب دیکھا۔ خواب میں دیکھا کہ سفید کپڑوں میں ملبوس انتہائی مبارک کچھ ہستیاں ان کے پاس آئیں اور ان سے مخاطب ہوئیں،
‘‘ آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا۔’’
’’آپ کون ہیں‘‘، قادر درویش نے پوچھا۔
’’ ہم فرشتے ہیں اور آپ کو جنت کی سیر کرانی ہے‘‘۔۔۔فرشتوں نے جواب دیا۔
قادر درویش حیرانی اور استعجاب کی حالت میں ان کے ہمراہ ہوئے اور فرشتوں نے انہیں جنت کی سیر کرائی۔ انتہائی خوبصورت جگہوں کی سیر کے دوران قادر درویش فرشتوں سے سوال بھی کرتے رہے اور فرشتے اطمینان سے ان کے سوالوں کے جوابات بھی دیتے رہے۔ اچانک ایک جگہ ایک انتہائی خوبصورت پھولوں سے بھرے ایک باغ میں قادر درویش نے ایک گوبر کا پہاڑ جمع دیکھا اور حیرانی اور پریشانی میں فرشتوں سے سوال کیا،
‘‘ یہ جنت میں اتنا گوبر کیوں جمع کیا ہوا ہے۔۔۔؟
فرشتوں نے نرمی اور محبت سے جواب دیا، ’’دنیا میں کی ہوئی ہر ایک نیکی جنت میں بڑھ جاتی ہے اور آپ نے ایک فقیر کو ایک دن اپنے دونوں ہاتھوں میں بھر کرگوبر عطیہ کیا تھا، جو جمع ہوکر پہاڑ جتنا ہو گیا ہے۔‘‘
قادر درویش رات کے پچھلے پہر ایک چیخ کے ساتھ خواب سے بیدار ہوا۔ اس کا سارا بدن پسینے سے شرابور تھا اور وہ ’’یا امان۔۔۔یا اللہ۔۔۔یا امان۔۔یا اللہ۔۔‘‘ کا ورد کرتے ہوئے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں لئے ہوئے رونے لگا۔ پاس میں اہلیہ بھی چیخ سن کر بیدارہوئی اور اپنے خاوند کی حالت دیکھ کر اسے حوصلہ دینے لگی اور تھپتھپاکر اسے تھوڑا سا سکون فراہم کیا۔ قادر درویش نے وضو کرکے تہجد ادا کیا اور گڑگڑاکر فجر تک روتے رہے۔
صبح تڑکے اپنی اہلیہ سے کہا کہ وہ اپنے پیر احمد صاحب کے پاس جا رہے ہیں اور کچھ دنوں میں واپس آئیں گے۔ احمد صاحب ایک دور دراز علاقے میں رہتے تھے اور بہت بڑے اللہ والے تھے۔ قادر درویش نے اپنی اہلیہ سے تاکید کی کہ گھر میں باقی افراد خانہ سے کہنا کہ باغ کے لئے کہیں سے سیبوں کی ایک نئی قسم کے درخت لانے کے لئے گئے ہیں اور چند دن میں واپس آئیں گے۔ قادر درویش جب احمد صاحب کے پاس پہنچے تو آنکھوں میں نمی عیاں تھی۔ پیر کے سامنے دو زانو بیٹھے ۔ ابھی کچھ کہنے کی ہمت ہی جُٹا پا رہے تھے کہ احمد صاحب نے سخت اور ترش لہجے میں کہا،
’’ یہ کب سے رائج ہوا ہے کہ گھر آئے فقیر کو کسی نعمت کے بدلے گوبر جھولی میں ڈال دیا جائے۔۔؟‘‘
پیر کا اتنا کہنا تھا کہ قادر درویش دہاڑیں مار مار کر رونے لگے اور کئی لمحے رو رو کر نیم بے ہوش سے ہو گئے۔ جب ہوش آیا تو پیر کو نظریں نیچی کئے ہوئے پایا۔ نہ کچھ پوچھنے کی ہمت ہورہی تھی اور نہ وہاں سے اٹھنے کی سوجھ رہی تھی۔ کسی نے چائے کا پیالہ سامنے رکھا مگر وہ کافی دیر وہیں پڑا رہا اور ٹھنڈا ہوگیا۔ قادر درویش بھی بے جان یخ کی سل کی طرح اپنے پیر کے سامنے سکڑا ہوا پڑا رہا اور جسم میں جیسے جان ہی نہ رہی ہو۔ اچانک سے مرشد نے نظر اٹھاکر قادر دریش کی طرف دیکھا اور کہا،
’’ جاؤ اپنے گھر۔۔۔اور خود کو اتنا ذلیل کروکہ نفس اپنے پیروں تلے کچل کے رہ جائے۔ جب تک دنیا کے لوگ تمہارے وجود کو گوبر سے نہ لیپ دیں تب تک تمہاری کوئی خلاصی نہیں۔ درویشی کا سفر کوئی پہلگام گلمرگ کی سیر نہیں۔ یہ ایک کانٹوں کا سفر ہے اور اس سفر کی غذا لوہے کے چنے چبانا ہے۔ تم نے یہ کب حق جانا تھا کہ اپنے کچے اور بے نکیل نفس کا غبارایک فقیر پر نکال دو۔ اس کے دامن پر اب بھی تمہارے نفس کے گوبر کے دھبے ہیں۔ جاؤ۔۔۔ اور اپنے نفس کو ذلیل کرکے اس فقیر کے دھبے دھو کے آؤ۔تم ابھی اپنے نفس کی قید میں ہو اور انسان کا نفس شیطان سے بھی بڑا فریبی ہے‘‘
قادر درویش ایک لٹی پٹی بے جان لاش کی طرح اپنے مرشد کے ہاں سے اٹھا۔ ایک پیر بھائی نے بس اسٹینڈ تک آکر الوداع کہا اور قادر درویش گھر آیا۔ کچھ دن اس کی بالکل سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے نفس کو کس طرح پامال کرے۔ ایک دن بارش ہوئی تھی اور وہ گاؤں کے چھوٹے سے بازار سے گذر رہا تھا کہ اچانک اس کا پیر پھسلا اور اور ایک گڑھے میں جمع بارش کے پانی کا جھماکا پاس سے گذر رہے ایک شخص کے سارے کپڑے خراب کر گیا۔ بس اس کے کپڑے خراب ہونے کی دیر تھی اور اس نے قادر درویش کو ایسی موٹی موٹی گالیاں دینا شروع کیں جن سے ابلیس بھی شرماجاتا۔ بس پھر کیا تھا۔ قادر درویش کے دل میں بھی ایک جھماکا ہوا۔ اس نے چپ چاپ دشنامنی سنی اور سن کر خود کو بڑا ہلکا محسوس کیا۔ اب اس کا معمول بن گیا کہ وہ کسی نہ کسی بہانے گالیاں کھاتا اور خود کو ذلیل کرواتا۔ اس کے گھر والے اور اڑوس پڑوس کے لوگ اس کی اچانک تبدیلی کو محسوس کرنے لگے اور اسے ایک کم ظرف انسان سمجھنے لگے۔ سوائے اس کی اہلیہ کے، جو قادر درویش کی تنہایوں سے واقف تھی۔ تعزیبِ نفس کا لمبا سفر کئی ماہ جاری رہا۔
ایک دن گاؤں کی ندی کے گھاٹ پر ایک دھوبی کپڑے دھو رہا تھا۔ قادر درویش نے حسب معمول گھاٹ کے ذرا اوپر ندی میں دھول کچرا پھینکنا شروع کیا۔ کچھ دیر تو دھوبی چپ رہا، مگر جب قادر درویش نے کچرا پھینکنے میں کوئی توقف نہ کیا تو دھوبی ایک دم سے قادر درویش کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوا اور قادر درویش کو انگوٹھا دکھا کر کہنے لگا،
’’ یہ تمہاری خام خیالی اور وہم ہے کہ تم اپنا گوبر میرے کھاتے میں ڈالنا چاہتے ہو۔ جاؤ اور اپنا راستہ ناپو۔‘‘
قادر درویش ایسے سکتے میں آگئے جیسے کسی زہریلی مخلوق نے ڈنک مارا ہو۔ تیز تیز قدموں کے ساتھ گھر آکر اپنی کوٹھری میں گھس گیا۔ اہلیہ بھی کچھ دیر کوٹھری میں آگئی اور قادر درویش کی حالت دیکھ کر اسے دلاسہ دینے لگی۔ شام کا کھانا بھی مشکل سے کھایا۔ اور جب بے سُدھ ہوکر نیند کی آغوش میں چلے گئے تو پھر سے خواب دیکھا۔ خواب میں وہی خوب رو فرشتے آئے اور کہا،
’’ آئیے۔۔۔آپ کو جنت کی سیر کراتے ہیں۔ ‘‘
قادر درویش نے خوب جنت کی سیر کی اور وہی خوبصورت باغ دیکھا، جہاں پہلی سیر کے وقت گوبر کا پہاڑ جمع دیکھا تھا۔ اب وہاں صرف وہی ایک دو ہاتھ بھر گوبررہ گیا تھا، جو فقیر کی جھولی میں تقریباً ایک سال پہلے ڈال چکے تھے۔ خواب سے بیدار ہوئے تو سحر خوان اپنی ڈھولک کی تھاپ پر ’’وقتِ سحر۔۔۔۔۔وقتِ سحر‘‘ کی صدا لگا رہے تھےاور کہے جارہے تھے کہ نفس کو لگام لگانے کا مہینہ آچکا ہے۔ جاگو۔۔۔۔اور اپنے نفس کو لگام لگاؤ۔
موبائل نمبر؛9906830807