شہر کے سب سے بڑے فایئو اسٹار ہوٹل کے پاس ہماری بس رکی۔گائیڈ نے ہم سب کو گاڑی سے اتار کر کہا’ ہم یہاں دو گھنٹے کے لیے رکیں گے۔ سب لوگ کھانا کھا کر پورے تین بجے یہاں پہنچ جانا‘۔اس کے بعد ہم سب الگ الگ گروہوں میں اپنی اپنی پسند کے ہوٹلوں کی تلاش میں نکل گئے۔ میں ان سب سے الگ ہوگیا۔بھوک محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ گرمی شدت کی تھی اسلئے کولڈرنگ پینے کی تمنا جگی ۔دوکان کو سامنے پاکر اس طرف چل پڑا۔
کولڈڈرنگ کا ایک گھونٹ پینے کے بعد میں پیچھے مُڑ کراس جگہ کا معائنہ کرنے لگا۔ دھوپ اپنے پورے شباب پر تھی۔لوگوں کی آمدورفت نہ کے برابر تھی مگر سڑک کی دوسری طرف جہاں کوئی دوکان نہ تھی لوگوں نے خیمے لگائے ہوئے تھے۔ان خیموں میں کروٹ یہ کروٹ بدلتے ہوئے لوگوں سے پتہ چلتا تھا کہ گرمی ان پر اپنی پوری طاقت آزما رہی ہے۔ایک ایک خیمے میں سات سات آٹھ آٹھ لوگ سوئے ہوئے تھے۔ان خیموں کے بالکل پاس ہی میںایک بڑا سنسان سا تالاب تھا۔جس کی بدبو سے میرا سر پھٹنے لگا۔
یہ نظاہرہ کر رہا تھا کہ اچانک ایک دس بارہ سال کا لڑکا میرے سامنے سے گذرا۔اس لڑکے کی ہیت نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔پھٹے پرانے کپڑے پہنے،جو میل کی وجہ سے چمک رہے تھے اوربٹن ایک بھی نہ تھا، اس لڑکے کی گود میں ایک دو تین سال کا بچہ تھا۔جیسے کپڑے ویسی ہی شکل۔ وہ لڑکا میرے سامنے والے خیمے کے بالکل آگے کھڑا ہوگیا۔کچھ دیر کے بعد آہستہ آہستہ آگے بڑھا اور خیمے کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔بچے کو گود میں سے اُتار کر ترسی ہوئی نظروں سے خیمے کے اندر جھانک کر دیکھا۔ پھر اس سوئے ہوئے بچے کے چہرے کو دیکھا اور آہستہ سے ایک بوسا لیا۔
میں نے کولڈڈرنگ کا دوسرا گھونٹ پیا اور ساتھ میں رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا اورپھرجلدی سے اپنی نظریں اس بچے پر گاڈ دیں۔ لڑکا ہمارے خدوخال سے مختلف اجنبی سا لگ رہا تھا۔ہونٹ بڑے بڑے،پیشانی بھی قدرے بڑی،آنکھیں موٹی اور ٹیڑیں،رنگ کالا،بال پتلے اور چھوٹے،اوپروالے دانت نیچے والوں سے بڑے،پسینہ ناک اور تھوڑی سے ٹپک رہا تھا،آنکھیں بالکل لال اور ارد گرد میل کے گڈے پڑے ہوئے تھے، ہونٹوں پر بھوک سے سفید پپڑی سی جم گئی۔ بھوک اور دھوپ دونوں کی مار اس کے چہرے پر صاف جھلک رہی تھی۔وہ جس انداز سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا اس سے معلوم ہو تا تھا گویا بے گھر اور بے سہارا اس انجان شہر میں دھوپ سے بچنے کے لیئے سایا ڈھونڈ رہا ہے۔
وہ بڑی گہری نظر سے گود میں سوئے ہوے بچے کو دیکھ رہا تھا۔اتنے میں اچانک وہ بچہ جاگ گیا اور جاگتے ہی رونا شروع کر دیا، جیسے کوئی خوف ناک خواب دیکھا ہو۔ بچے کی چیخیں جب خیمے کے اندر سوئے ہوئے لوگوں کے کانوں میں پڑیں سب جاگ گئے۔کونے میں سوئے ہوئے پیلے رنگ کے کپڑے پہنے پنڈت صاحب نے اس بچے کو دیکھ کر بڑی تیزی سے ہاتھ ادھر ادھر مارکے کہیں سے ایک چپل اُٹھا کے ایک دم کھینچ کر لڑکے کی پیٹھ پر دے مارا۔ لڑکا درد سے اچھلا، دونوں ہاتھ پیٹھ پر لے جانے کی کوشش کی اور منہ آسمان کی طرف کرکے ایک لمبی چیخ ماری۔اس اثنا میں اس کی گود سے بچہ نیچے گر گیا۔پھر جلدی سے بچے کو اٹھا کر روتے ہوے سیدھے سڑک کی طرف بھاگ گیا۔اس کی چیخوں کی آوازیں سن کر باقی خیموں میں سوئے ہوے لوگ بھی اٹھ گئے۔ پنڈت صاحب نے اندر سے ہی آونچی آواز میں کہا ــ’ حرام جادے آرام سے سونے بھی نہ دیتے ہیں ‘۔ اس پر باْقی خیمے والوں نے بھی ہاں میںہاں ملائی۔ایک نے کہا’ چپل سے کیا ہوتا ہے پنڈت جی وہ پھر آجائے گا‘ دوسرے نے کہا’ آنے دو اب کی بار ایسی خبر لوں گا کہ آتم ہتیا کرے گا‘
میرے اندر اس بچے کے لیے ہمدردی جاگ اُٹھی۔اس لئے میں ان بچوں کی طرف بڑھنے لگا ۔وہ دونوں چیخ چیخ کر رو رہے تھے۔ پھر بھی لڑکا چھوٹے بچے کو چپ کرانے کی کوشش کر رہا تھا۔میں جوں ہی نزدیک پہنچالڑکے کی نظر مجھ پر پڑی ۔اس کے کھلے منہ اور آنسوئوں سے بھری آنکھوں کو دیکھ کرمیرے اندر بجلی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ اس نے مجھے دیکھ کر نہ جانے کیا سوچا کہ جھٹ سے بھاگ گیا۔لگ بھگ سومیٹر آگے کچھ اور خیمے نظر آ رہے تھے،وہ بچہ اسی طرف گیا۔ اس لڑکے کا مجھ سے ڈر کے بھاگ جانا مجھ سے برداشت نہ ہوا ۔ اس لئے اس کا پیچھا کرنے لگا۔جب میں ان خیموں کے پاس پہنچاتو وہ لڑکا کہیں نظر نہ آیا۔وہاں صرف پانچ خیمے تھے جن میں سے ایک پر ہرا جھنڈا لگا ہواتھا۔اس مرجھائے ہوئے جھنڈے سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ مسلمانوں کی بستی ہے۔مگر مجھے اس میں دلچسپی نہ تھی۔مجھے تو اس لاچار بچے کی تلاش تھی جو ابھی ابھی اِس طرف بھاگ آیا تھا۔اتنے میں مجھے ان خیموں کے پیچھے سے ہلکے ہلکے رونے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔میں بھی ان خیموں کے پیچھے کی طرف گیا۔دیکھتا ہوں چھوٹابچہ زمین پر لیٹا رو رہا ہے،اوربڑا لڑکا وہیں پاس میںایک بڑے ڈسٹ بن سے کچھ نکال رہا تھا۔جلدی ہی اس نے کھانے کے کچھ رنگ برنگے ٹکڑے ہاتھوں سے نکالتے ہوئے ایک لفافے پر رکھے، پھر بچے کو اٹھایا اورکھانے کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ میں نے یہ منظر دیکھ کر کوئی حرکت نہ کی یہ سوچ کر کہ کہیں اس کو پتہ چل گیا تو وہ پھر بھاگ جائے گا۔بچے کے منہ میںجوں ہی پہلا نوالہ ڈالا تو وہ خاموش ہو گیا۔چار نوالے بچے کو کھلانے کے بعدایک نوالہ لڑکے نے اپنے منہ میں ڈالا۔اس کے بعد اس نے اپنے اور بچے دونوں کے آنسوں پونچھے۔دو تین نوالے بچے کو اور کھلاے۔ایک بار پھر بچے کے گال پر بوسا دینے کے بعد اپنے آنسوں پونچھے۔میں خیمے کے کونے پر کھڑا سانس بھی آہستہ سے لے رہا تھاکہ اتنے میںپیچھے سے کسی کے دوڑنے کی آواز آئی۔بڑی تیزی سے ایک شحص میرے پاس سے گذرا۔ میں نے فوراً نظریں بچے کی طرف دوڑائیں، جو بڑی تیزی سے بھاگنے لگا۔ اس شحص نے ایک بڑا ڈنڈا بچے کے پیچھے کھینچ کر مارا۔یہ ڈنڈا اس کے پیٹھ اور سر پر لگا۔ بالکل پہلی بار کی طرح ہی اس باربھی اس نے فلک شگاف چیخیں ماریں، شائد پورے شہر نے سنی ہونگی۔مجھے اس حادثے پر یقین ہی نہ آ رہا تھا۔ڈنڈا مارنے والا شحص تھوڑا پیچھے گیا پھر بڑ بڑ کرتا ہوا واپس آگیا۔خیمے کے پیچھے دو چار لوگ اور آگئے ۔ ڈسٹ بن کے پاس پہنچ کر اس شحص نے کہا’’ای گند مند کا کھانا تو سسرا بھینسوا کے لئے ہے ای کا بھی نہ چھوڑت۔‘‘
میرے اندر ایک طوفان سا ابلنے لگامگر جانتا تھا کہ ان سے کچھ بھی کہنا بے سود ہے۔وہ بچہ اب تالاب کے کنارے پر کھڑا سر اور پیٹھ کو دبادیا کر مل رہا تھا۔میں اس بچے کی مدد کرنا چا ہتا تھا مگر کیسے کچھ سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔میں پھر آہستہ آہستہ سڑک پر اسی جگہ گیا جہاں تالاب تھا۔وہ لڑکا اسی تالاب بچے کو سینے سے لگا ئے ہوئے تھا اور منہ سے ہچکیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔لڑکا اتفاقاً میری طرف دیکھتے ہی چپ ہوگیا۔میرے پاس الفاظ نہ تھے اس سے کچھ کہنے کے لئے۔تھوڑی دیر کے بعدمیرے منہ اور ہاتھ دونوں نے کام کیا۔میں نے اس سے کہا’ تم مجھ سے ڈر کیوں رہے ہو؟ تم کون ہو؟میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں‘‘ اس نے میری بات کا جواب نہ دیا۔ صرف ہچکی لیتے ہوئے رو رہا تھا۔پھر میں نے اشاروں سے کہا تم یہی رکو میں تمہارے لئے کچھ لے آتا ہوں۔ اس نے ڈرتے ڈرتے دو تین الفاظ منہ سے نکالے مگر میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔شائد کوئی اور زبان تھی۔ اس کے بعد میںاییـ۔۔ ٹی ۔۔ایم کی تلاش میں نکلا۔اس وقت میری جیپ میں پیسے نہ تھے اور اس بچے کو یقینا پیسوں کی ضرورت تھی۔میں نے جس دوکان سے کولڈڈرنگ لی تھی وہاں اے ٹی ایم کا پتہ پوچھا۔ وہاں سے ایک بار تالاب کے کنارے کھڑے لڑکے کو دیکھا جو اس تالاب کے پانی کو بڑی گہرائی سے دیکھ رہا تھا۔
میں لگ بھگ دس منٹ کے بعد اے ٹی ایم سے واپس آیااور آتے ہی اسی دوکان کے آگے سے تالاب کی طرف نظر دوڑائی۔دیکھتا ہوں تالاب کے ارد گرد لوگوں کا مجمع لگا ہے۔یہ دیکھ کر مجھے دھچکا سا لگا ۔کیا ہوا؟ بچے تو ٹھیک ہیں نا؟یہ اتنے سارے لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ایسے بہت سارے سوالات میرے ذہن میں کھڑے ہوگئے۔دل کانپ رہا تھامگر آہستہ آہستہ جب لوگوں کے قریب پہنچا تو ان کے چہروں سے کوئی حادثہ ظاہر نہ ہو رہا تھا۔بہت ساروں کے چہرے پر بہار دیکھ کر میں نے راحت محسوس کی۔جب ایک دو لوگوں کو ادھر ادھر کر کے میں نے تالاب کے پانی پر نظر ڈالی تو پانی کی سطح پر دونوں بچوں کی لاشیں تیر رہی تھیں۔میں نے ہڑبڑاہٹ میں اِدھر ادھر دیکھا مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ میرے بالکل قریب کھڑی ایک بوڑھی عورت نے اس افسوس ناک حادثے کو دیکھ کر ایک لمبی سانس مالی ۔اس کے بعد ہاتھ سر پر اور آنکھیں لاشوں پر گاڑھ کر ایک جملہ کہا اس پورے جملے کا میری سمجھ میں صرف ایک لفظ آیا۔ ’’روہنگیا‘‘
رابطہ؛پونچھ۔ فون نمبر؛7006909305
ریسرچ سکالر، سینٹرل یونیورسٹی حیدرآباد
ای۔میل؛[email protected]