جموں//جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے روہنگیا پناہ گزینوں کو جموں بدر کرنے اور آصفہ عصمت دری و قتل کیس کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کرنے کے مطالبات کو لیکر 11 اپریل کو ’جموںبند‘ کی کال دے دی۔ بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈوکیٹ بی ایس سلاتھیا نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کے دوران ’جموں بند‘ کال دیتے ہوئے الزام لگایا کہ کشمیر کی کچھ این جی اوز روہنگیا پناہ گزینوں کی فنڈنگ کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جموں کی عوام روہنگیا پناہ گزینوں کو مزید برداشت نہیں کریں گے اور اگر کشمیر اور کشمیر کی این جی اوز کو ان سے پیار ہے تو وہ انہیں کشمیر لے جاکر وہیں بسائیں۔انہوں نے کہا ’میں کشمیر کی سول سوسائٹی، گیلانی صاحب اور پولٹیکل کلاس کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں جن کا متفقہ عزم ہے کہ وہ انہیں کشمیر میں بسنے نہیں دیں گے۔ لیکن کشمیر کی چند این جی اوز ان کی فنڈنگ کررہی ہیں ۔ جموںمیں ہر مذہب کے لوگ رہتے ہیں لیکن ہم دوسرے ملک کے غیرقانونی تارکین وطن کو یہاں بسنے نہیں دیں گے اور نہ ہم ان کو برداشت کریں گے‘۔ انہوں نے کہا کہ اگر کشمیر یا کشمیر کی این جی اوز کو ان سے پیار ہے تو ان کو لے جائیں، ان کا ایک آدمی دو تین سال قبل جنگجویانہ سرگرمی کے دوران مارا گیا،یہ یہاں کے کسی مسلم، ہندو یا سکھ کے رشتہ دار نہیں ہیں‘۔ ایڈوکیٹ سلاتھیا نے کہا کہ مرکزی اور ریاستی حکومت روہنگیا پناہ گزینوں کو جموں سے نکال کر ملک کے کسی دوسرے حصے میں بسائیں۔ انہوں نے کہا ’ہندوستان بنگلہ دیش کی سرحد سے شروع ہوکر لداخ میں چین کی سرحد تک ہے‘۔ انہوں نے کہاہمارا ماننا ہے کہ صوبہ کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ بار ایسوسی ایشن یہ کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی‘۔ بار ایسوسی ایشن صدر نے کہا کہ ’جموں بند‘ کی کال جموں کی تمام تنظیموں کے ساتھ صلاح ومشورے کے بعد ہی دی جارہی ہے۔ایڈوکیٹ سلاتھیا نے کہا کہ بار ایسوسی ایشن جمعرات کو ایک اور اجلاس بلاکر آئندہ کی حکمت عملی وضع کرے گا۔ انہوں نے کہا ’ہم نے جمعرات تک عدالتوں میں کام کاج بند رکھا ہے۔ سپریم کورٹ نے روہنگیا پناہ گزینوں کے معاملے پر جوں کی توں پوزیشن برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ہم اس کے خلاف نہیں جاسکتے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ ان کو ملک سے نہیں نکالا جاسکتا لیکن ریاست سے تو نکالا جاسکتا ہے۔ حکومت کی ایک اتحادی جماعت خود کہتی ہے کہ یہ (روہنگیا پناہ گزین) ریاست کے لئے سیکورٹی خطرہ ہے۔ آپ ان کو یہاں سے نکال کر پٹھان کوٹ سے آگے کہیں بھی بسائیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے‘۔ بار ایسوسی ایشن صدر نے جنوری کے اوائل میں پیش آئے آصفہ عصمت دری و قتل کیس کی تحقیقات کے حوالے سے الزام لگایا کہ جموں کرائم برانچ کو یکطرف رکھ کر کشمیر کرائم برانچ کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی۔ انہوں نے کہا ’ہم کہتے تھے کہ اگر لوگوں کو کرائم برانچ کی تحقیقات پر شک و شبہات ہیں تو تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کی جائے۔ جموں کرائم برانچ کو ایک طرف رکھ کر کشمیر کرائم برانچ سے لوگوں کو بلاکر تحقیقات کی ذمہ داری دی گئی۔ کرائم برانچ کی تحقیقاتی ٹیم میں شامل ایک فرد ایسا ہے جو قتل اور عصمت دری کے معاملے میں ڈیڑھ سال تک بند رہا ہے۔ لوگوں کو ہراساں کرنا اور انہیں جھوٹے بیانات دینے پر مجبور کرنا ایک منصفانہ تحقیقات نہیں کہلائی جاسکتی۔ اگر لوگوں نے سی بی آئی انکوائری کی مانگ کی تھی تو حکومت کو ان کے دل جیتنے کے لے ان کا مطالبہ ماننا چاہیے تھا‘۔ ایڈوکیٹ سلاتھیا نے محکمہ قبائلی امور کی ایک میٹنگ کے ’منٹس‘ کے حوالے سے کہا ’اگر سرکار ہم سے کہہ دے کہ 14 فروری کو جاری ہونے والے میٹنگ کے منٹس کوئی سرکاری حکم نامہ نہیں ہے تو ہمارے لئے احتجاج کے لئے کوئی جواز نہیں بچے گا۔ منٹس میں کہا گیا ہے کہ گوجر بھائی کہیں بھی ناجائز قبضہ کرسکتے ہیں اور ان کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگائے گا۔ آپ گائیں اسمگل کرو، آپ سے کوئی کچھ نہیں کہے گا‘۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق جموں کے مختلف حصوں میںمقیم میانمار کے تارکین وطن کی تعداد محض 5 ہزار 700 ہے۔ یہ تارکین وطن جموں میں گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے مقیم ہیں۔ جموں میں اگرچہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قریب تین لاکھ رفیوجی بھی رہائش پذیر ہیں، تاہم بی جے پی اور پنتھرس پارٹی انہیں ہر ایک سہولیت فراہم کئے جانے کے حق میں ہیں۔(مشمولات یو این آئی)
روہنگیائی پناہ گزینوں کیلئے جموں میں کوئی جگہ نہیں
