روپی کہانی

رتن سنگھ کنول پہلگامی

’’ روپی تم نے مجھے کبھی اتنا تنگ نہیں کیا !۔۔۔آج تمہیں یہ کیا ہو گیا ہے ?۔ کسی نے تجھے کچھ کہا۔ بولو ?کیوں اس طرح منہ لٹکائے بیٹھی ہو۔ آج صبح سےہی میں کچھ کر نہیں پا رہا ہوں ۔ شادی کے بعد آج تحقیق گاہ میں میرا پہلا دن ہے۔ ڈھیر سارے آرڈر میرے ٹیبل پہ پڑے ہیں ، جن کو دیکھ کر آپنے کام کا خاکہ تیار کرنا ہے ۔۔۔کیا میں یوں ہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہوں ? ۔۔۔ روپی کچھ تو بولو ‘‘
روشن روپی سے کہہ رہا تھا اور روپی خاموش تھی،ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی۔ علی الصبح ہی وہ اپنی نئی نویلی بیوی کے ہمراہ تحقیق گاہ میں ،شادی کے بعد داخل ہوا تھا ۔ کچھ دیر کے بعد بیوی چلی گئی تھی اور روشن روزمرہ کی طرح کام میں جٹ جانا چاہتا تھا لیکن روپی کے اچانک بدلے تیوروں یا بدلے ‘کمانڈ سسٹم ‘سےفکرمند ہو گیا تھا ۔روشن کے سارے حکم ٘رائگاں ٘جا رہے تھے۔ وہ روپی کو کچھ کہتا یا ہاتھ لگاتا تو روپی دُور بھاگنے لگتی اور غُراتی۔
روشن کی شادی ہوئی تو ماں نے کہا کہ ’’ بیٹا ! آخر آپ کی پری سی بیوی اپنا سب کچھ ، ماں باپ، بھائی بہن ، اور دوسرے کئی رشتے ناطے ،گھر بار اور اپنا شہر چھوڑ کر تیرے پیچھے ہی تو آئی ہے۔ اس لئے اب تیرا بھی تو فرض بنتا ہے کہ تو اس کی خوشیوں کا خیال رکھے ۔۔۔ اس سے بہتر موقع اور کب آئیگا، آپکی ذندگی ‘میں پگلے ! یہی تو فرق ہوتا ہے ایک انسان اور حیوان میں یا تمہاری بنائی ہوئی مشینوں میں ۔۔۔تم بھلے ہی ان کو کوئی نام دے دو ز۔‘‘
روشن ماں کی باتوں سے اتفاق کرتا تھا یا نہیں مگر اُس نے ماں کی باتوں کوپھینک نہیں ڈالا۔ اُسکے کہنے پر ہی آسٹریلیا ہنی مون منانے چلا گیا تھا ۔
ماں کے ساتھ روشن کو انتہا محبت تھی ۔ ساری عمرماں اُسکے روشن مستقبل کے لئے سولی پر لٹکی رہی۔اُس نے کیا کیا نہیں سہا ۔ لوہے کے چنے چبائے۔ وہ جانتاتھاکہ جب اُس کا باپ ہوائی جہاز کے حادثے میں جاں بحق ہو گیا تھا تو اُس کا ایک ہی سہارا ماں تھی ۔ ماں کی زندگی کا مقصد بھی بس ایک ہی نشانے پر محیط ہو گیاتھا، روشن کو معیاری تعلیم سے آراستہ کرنا اور اُس کامُستقبل تابدار بنانا۔ روشن کی ماں نے روشن کو اچھے اچھے سکولوں ، کالجوں، اور دیگر ادارات وغیرہ میں ،ہر قیمت پر داخلہ دلایا اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئ۔ بیٹے کی مٹى بھی زرخیز تھی ،جو بویا وہ اُگ آیا ۔ سمجھنے ،پرکھنے اور کھوجنے کا مادہ اُس میں کوٹ کوٹ کر پہلے ہی بھرا ہوا تھا ۔ پھر وہ وقت بھی آ گیا جس کا اس کی ماں کو انتظار تھا۔ روشن ایک غیر معمولی سائنسدان بن گیا۔
روشن کی ماں اب ٹوٹ چکی تھی۔ دن رات کی سخت محنت اور تردد سے وہ وقت سے پہلے ہی بوڑھی ہو چکی تھی ۔ اُس کے من میں روشن کے سائنسدان بننے کی مسرت تو تھی لیکن اکل کی کوفت سے اُسکے خوشیوں کے باغیچوں میں خزاں اتر آئی تھی ۔ اب اُسکے من میں ایک ہی ارمان تھا کہ روشن کی شادی ہو جائے اور وہ پوتے پوتیوں کا مُنہ دیکھے۔
گھر میں پھر سے بہار لوٹ آئے اور اُس کی جائیداد کا کوئی وارث بنے ۔ لیکن یہ سب تبھی ممکن تھا جب روشن شادی کے لئے تیار ہوتا ۔ اُس کو اپنے کام کے علاوہ کوئی سُدھ بُدھ ہی نہیں تھی ۔ گھر پریوار یا جاندار کا اُس کو کوئی موہ نہیں تھا ۔ گوتم بُدھ سا ، اپنی دُھن میں مگن ،اپنے خیالوں میں ڈوبا ہوا۔ رائج فارمولوں میں سے نئے اور جاندار فارمولے تلاش کرتارہتا جو سائنسی دُنیا کو حیرت میں ڈالتے۔ ان ہی کی بنیاد پر روشن مختلف اقسام کے رابوٹ تیار کرتا جو زندگی کے ہمہ گیر کاموں کو آسان بناتے اور راحت بخشتے ۔ اُس کا یہ کام اب پیشہ ہی نہیں جنوں اور نشہ بن کر رہ گیا تھا ۔
ماں کبھی کبھی سوچتی کہ اُس نے روشن کو علم حاصل کرنے کی اتنی آزادی ہی کیوں دی جس سے یہ دُنیاداری اور رشتے ناطے ہی بھول گیا۔ ایک وقت تھا کہ اس گھر میں بے حد رونقیں تھیں ۔گھر کے بہت سارے افراد ایک ہی چھت کے نیچے رہتے تھے ۔ دو بیٹیاں تھیں ،شوہر تھا ، ساس سُسر تھے اور بہت سارے نوکر چاکر تھے۔ کھڑکیاں دروازے کھلے رہتے ۔ کچن اور لِوِنگ روم میں قہقہے گونجتےرہتے۔ برتنوں کے ٹکرانے کی صدائیں اور پکتے ہوئے پکوانوں کی خوشبوئیں چاروں اور پھیلی ہوئی ہوتیں ۔چاندنی راتوں میں دوشیزائیں تمبک ناڑی کی بیٹ (beat) پر گاتیں۔ ناچتیں ۔زندگی خوشیوں سے دھڑکتی تھی ۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اُن کے پاس مال و دولت کی اب کوئی کمی نہیں تھی ، جو محنت اور ایمانداری سے ہی حاصل ہوئی تھی۔ لیکن گھر سے رونق اور خوشیوں کے قہقہے کافور ہو چُکے تھے ۔ ساس، سُسر اور شوہر بھگوان کو پیارے ہو گئے تھے۔بیٹیاں بیاہی گئی تھیں اور اپنا اپنا گھر آباد کرنے کو چلی گئی تھیں۔ روشن تھا کہ اپنی تحقیق گاہ میں نئی نئی جنریشن کے روبوٹ تخلیق کرنے میں محو رہتا اس کام کے نشے میں وہ کھانا بھی بھول جاتا ۔کھانا میز پر ہی پڑا رہتا ۔ ماں کے اصرار پر کچھ کھا لیتا ، نہیں تو نہ کھانے کے باوجود بھی روشن کو لگتا کہ اُس نے کھانا کھا لیا ہے ۔
ایک روز روشن کو خیال آیا کہ وہ اپنے لئے کوئی ایسا روبوٹ تیار کرے جو ایک حسین اور ذہین عورت کا بدل ہو اور وہ ہر وقت اُس کی تحقیق گاہ میں اُس کا ہاتھ بٹائے اور اُسے خوش وخرم رکھنے کی کوشش کرے ۔پھر کیا تھا ! یہ خیال آتےہی روشن اس کام میں جٹ گیا۔ پہلے اُس کا ماڈل کاغذوں پہ تیار کیا اور پھر حسبِ دستور، فیکٹری میں بھیج کر اُس کو اصل روپ میں ڈھالا گیا۔ اُس کے دل و دماغ میں خوبصورت عورت کا جو تصور تھا اُس کو عملی جامہ پہنایا گیا ۔
اندر کے اوصاف کے ساتھ ساتھ باہر کی خوبصورتی کا بھی خیال رکھا ۔جب روپی تیار ہو گئی تو فیکٹری سے تحقیق گاہ میں منتقل کر دی گئی۔ اس کا خاکہ اور تھیوری تیار کرنے میں روشن نے کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی تھی جسے اس کی تشکیل میں بھی کوئی دقت نہیں آئی۔ نام’’ روپی‘‘ رکھ دیا۔ اس کے بولنے کا انداز بھی صنفِ نازک جیسا تھا ۔ آواز نرم و نازک، ریشم جیسی ۔ اُس کے اندر سرکٹ ایسے بنائے گئے تھے کہ آواز دیتے ہی وہ active ہو جاتے تھے ۔ جب کھانے کا موقع آتا تو روپی خوبصورت انداز کے ساتھ چلتی ہوئی دوشن کے سٹڈی ٹیبل کے پاس آجاتی تو کچھ کھانے کیلئے گوش گزار کرتی ۔روپی نہ صرف روشن کا خیال رکھتی بلکہ اُس کے کاموں میں بھی اُس کا ہاتھ بخوبی بٹاتی۔ روشن ہر پلان، ہر خیال روپی کے ساتھ سانجھا کرتا ۔
شادی کے بعد ایسا کیوں ہو رہا ہے ? روپی کیوں بدل گئی ہے ? ۔
روشن پریشانی کے عالم میں سوچ رہا تھا۔ ایک سماںایسا بھی تھا کہ روپی معمولی اشارے کو بھی سمجھ جاتی تھی اور ایکشن میں آ جاتی تھی ۔ کام آسان بن جاتا تھا ۔ تحقیق گاہ میں کسی کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی ۔ اگر کسی کو اندر آنے کی اجازت دی بھی جاتی تو اُسے ضرورت سے زیادہ بولنے کی منائی تھی ۔ اِشاروں کے ساتھ کام چلایا جاتا۔ ذیادہ دیر رُکنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔
“روپی! اُف !! ۔۔۔تو بتاتی کیوں نہیں ہے ، نیا پروجیکٹ کیا ہے ? اس پروجیکٹ کو کمپیوٹرکے سکرین پر آنے دے ، پلیز ! ”
روشن نے بڑی عاجزی کے ساتھ دوبارہ کہا ۔ روپی نے بس” غُر۔۔۔ غُر ۔۔۔” کیا اور خاموش ہو گئی۔ روشن سر تھامے رہ گیا ۔ اب اُس کی خفگی کا ضبط بھی ٹوٹ
رہا تھا۔ ایک بار تو اُس کے جی میں آیا کہ وہ روپی کا سر ہتھوڑے سے پھوڑ ڈالے ۔ لیکن پچھلے کئی سالوں سے روپی کا کیا گیا شاندار کام اور محبت آڑے آ گئ۔
اگر شعوری طور روشن روپی کو ایک مشین مانتا تھا لیکن غیر شعوری طور وہ روپی کو ایک بہترین جیون ساتھی تصور کرتا تھا ۔ دوسرے لفظوں میں کہوں تو
روشن روپی کے وجود سے جذباتی طور بھی جُڑ چُکاتھا ۔ جب کبھی وہ کام کے دباؤ سے سر درد محسوس کرتا یا کسی فیکٹ فاینڈنگ( fact finding ) میں وقتی طور ناکام ہو جاتا تو روپی اپنے نرم گرم، نسوانی ہاتھوں سے اور سہلاتی سنبھالتی۔
نئی نویلی، دُلہن دوسری بار تخلیق گاہ میں داخل ہوئی ۔ اب کی بار بھی وہ سج دھج کر آئی تھی ۔ ذرد ر نگ کی ریشمی قمیض اور ہلکے آسمانی رنگ کی ذین کی پینٹ پہنی ہوئی تھی۔ کھلے ریشمی بال پیٹھ پر جھول رہے تھے ۔ روشن نے اپنی خوبصورت بیوی کا مُسکراتے ہوئے سواگت کیا ۔ بیوی نے بھی اپنے شوہر کا
ہاتھ پکڑا اور اُسے کچھ کھانے کیلئے تحقیق گاہ سے باہر لے جانا چاہا ۔
پاس میں کھڑی روپی اب زور زور سے ہچکیاں لینے لگی اور پھر اچانک اُس کے اندر سے زور دار پٹاخے کی آواذ نکلی ۔ اُس کےساتھ ہی کالا سیاہ دُھواں نکل کر سارے کمرے میں پھیل گیا ۔ “روپی ! روپی !!”پُکارتا ہوا روشن پاگلوں کی طرح تحقیق گاہ میں دوڑنے لگا ۔شاید اب روپی کے اندر سے سارے سرکٹ بُری طرح جل کر راکھ ہو گئے تھے ۔
���
پہلگام، کشمیر،موبائل نمبر؛7006803106