ش۔شکیل
دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہو تے ہیں جو خود کے بنائے ہوئے تہہ خانے میں قید ہوکر رہ جاتے ہیں یا پھر جان بوجھ کر قید ہوکر ‘خود ہی تہہ خانے کی کھڑکیا ں اور دروازے بند کر لیتے ہیںاور اپنے آپ سے کہتے رہتے ہیں۔’’کیا گھپ اندھیرا ہے۔‘‘ایسے ہی قید خانے میں دو آدمی قید تھے۔ان کی سانسوں کی آمد و رفت کی وجہ سے، وہاں دو ذی روح موجود ہیں، ایسا محسوس ہو رہا تھا۔اس ہولناک گھپ اندھیرے سے بے چین بے قرار ایک آواز اُبھری۔’’میں۔۔میری ماں کو لانے جارہا تھا‘وہ سخت پریشان تھی‘اس شکنجے نے مجھے جکڑلیا ۔۔نہ جانے ماں کس حال میں کیسی ہوگی۔۔پتہ نہیں۔‘‘آواز میں بلا کا درد ‘رنجیدگی اور بے بسی تھی۔ اس کے بعد ایک اور آواز تڑپ اُٹھی۔’’تم بالکل سچ کہہ رہے ہو۔۔۔یہ بہت ہی نحس شکنجہ ہے۔اُدھر تمہاری ماں سے ملنے سے روک رہا ہے‘ادھر مجھے میرے باپ سے ملنے سے روک رہا ہے۔میں بھی اپنے باپ کو دیکھنے اسپتال جارہا تھا‘جو کہ اسپتال میں زیست اور موت کی کشمکش میں مبتلاہیں۔وہ تو بھائی کا بھلا ہو جس نے باپ کو اسپتال میں داخل کیا جس کی وجہ سے انہیں زندگی کے چار دن نصیب ہوئے ورنہ نہ جانے کیا ہوتا ۔‘‘ایک درد بھری آہ سناٹّے کو چیر کر خاموش ہو گئی۔اس کے بعدتہہ خانے میں’’ہاہاہا ۔۔۔ہاہا۔۔‘‘کی آواز کے ساتھ ایک قہقہہ بلند ہوا ۔ایسا محسوس ہو رہا تھامانو تہہ خانے میں بھونچال آگیا ہو۔دونوں آوازیں گھبرا کر کہہ رہی تھیں۔’’کون ہو تم؟کیسے اندر آئے ہو؟‘‘اس پر ایک بلند آواز اُبھری۔’’میں وہی ہوں۔۔۔جان کر یا انجانے میں قید ہو کر رہ جاتے ہو۔۔۔جائو اب میںتمہیں آزاد کرتا ہوںہاہاہا ۔۔ ہاہا۔‘‘آواز کے ساتھ تہہ خانے کا دروازہ کھولا‘کھڑکیا ں کھولیں۔تیز روشنی سے سارا تہہ خانہ شرابور ہو گیا۔روشنی میں دونوں نے ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھاتقریبًا دوڑتے ہوئے تہہ خانے سے نکل آئے۔دونوں نے دوبارہ ایک دوسرے کو غور سے دیکھا۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا۔’’کہاں جارہے ہو؟اپنی ماں سے ملنے جارہے ہونا؟‘‘دوسرے نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں۔۔اب تو ما ں ہوگی ہی نہیںمیرا بھائی میری ماں کو بہت چاہتا ہے نا۔۔شاید وہ ماں کو اپنے گھر لے گیا ہوگا۔۔۔تم بتائو ‘تم کہاں جارہے ہو؟شاید اسپتال جارہے ہو باپ کو دیکھنے کے لیے ؟‘‘دوسرے نے پہلے والے سے سوال کیا۔پہلے والا دوسرے والے کو ایک نظر دیکھ کر کہا۔’’نہیں۔۔میرے باپ کی حالت بہت تشویشناک تھی۔۔۔بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔۔۔اب تک شاید انتقال کر گئے ہو نگے اور میرے بھائی نے ان کی تجہیز و تکفین بھی کی ہوگی۔اب بھلا جانے سے کیا فائدہ ہوگا۔‘‘ ایک ہی مقصد ‘ایک راہ اور ایک ہی منزل کے بے چین بے قرار راہی اب دبی دبی مسکراہٹ سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے متضاد راہوں پر بڑے اطمینان سے چل پڑے تھے ۔
���
اورنگ آباد۔(مہاراشڑ)،موبائل نمبر؛9529077971