یشودا کماری
ملک کے دور دراز دیہی علاقے آج بھی بجلی، پانی، سڑکیں، ہسپتال اور تعلیم جیسی کئی بنیادی ضروریات سے نبرد آزما ہیں۔ روزگار اس کا بنیادی عنصر ہے جو گاؤں والوں کو نقل مکانی پر مجبور کرتا ہے۔ خاندان کے لیے دو وقت کے کھانے کا بندوبست کرنے کے لیے لوگ اپنے گاؤں چھوڑ کر دوسرے شہروں اور ریاستوں میں جانے کو مجبور ہیں۔ جہاں وہ کھیتوں، کارخانوں اور یومیہ اجرت پر 16 سے 17 گھنٹے محنت کرتے ہیں۔ اس کے بعد بھی وہ بمشکل 15 سے 20 ہزار روپے ماہانہ کما پاتے ہیں۔ نقل مکانی کے اعداد و شمار سب سے زیادہ اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ اور اتراکھنڈ میں ہیں جہاں ہر سال لاکھوں لوگ روزگار کے لیے دہلی، پنجاب، ہریانہ، سورت، ممبئی اور کولکتہ جاتے ہیں۔ گاؤں میں روزگار کا کوئی ذریعہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور اپنے پیچھے گھر والوں سے جدائی کا درد سہنے پر مجبور ہیں۔بہار میں ایسے بہت سے گاؤں ہیں جہاں ہر سال گاؤں والوں کی ایک بڑی آبادی روزگار کے لیے ہجرت کرتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر تعداد درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل، او بی سی اور پسماندہ مسلمان طبقات سے تعلق رکھتی ہے۔ جو مالی طور پر بہت کمزور ہیں۔ ان میں ایک اچھلا گاؤں بھی ہے۔ گوتم بدھ کی سرزمین بودھ گیا سے تقریباً 54 کلومیٹر دور بانکے بازار بلاک کے روشن گنج پنچایت میں واقع، اس گاؤں کے زیادہ تر خاندان بہتر روزگار کے خواب کے ساتھ میٹرو شہرکی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ اس گاؤں میں اعلیٰ طبقے اور درج فہرست ذات کی مخلوط آبادی ہے۔جوتقریباً 350 خاندانوں کے ساتھ آباد ہے۔ اگرچہ اعلیٰ طبقہ کاشتکاری کے لیے کافی زمین اور روزگار کے مقامی ذرائع سے معاشی طور پر خوشحال ہے، لیکن زیادہ تر درج فہرست ذات کے خاندانوں کے پاس اپنے خاندان کی روزی روٹی برقرار رکھنے کے لیے قابل کاشت زمین نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے اس برادری کے زیادہ تر مرد گاؤں چھوڑ کر بڑے شہروں میں چلے جاتے ہیں اور مزدور یا یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں 47 سالہ سنجے کمار، جو حال ہی میں پنجاب سے مزدوری کرنے کے بعد گاؤں واپس آئے ہیں، کہتے ہیں کہ گاؤں میں درج فہرست ذات کے تقریباً 60 فیصد مرد باہر جا کر کماتے ہیں۔ یہ سب زراعت یا فیکٹریوں میں مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ جہاں آمدنی کم اور کام کے اوقات زیادہ ہیں۔ چھوٹی صنعتوں کے فیکٹری مالکان ان کا معاشی استحصال کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ کام کا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے اس لیے وہ اسے برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ سنجے کا کہنا ہے کہ بعض اوقات انہیں تین ماہ تک تنخواہ نہیں ملتی ہے، ایسے میں نہ صرف ان کے خاندان کی مالی حالت بلکہ ان کی اپنی بھی مالی حالت ہل جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گاؤں میں رہتے ہوئے روزگار ملے گا تو نقل مکانی کا مسئلہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔اسی ذات سے تعلق رکھنے والے 22 سالہ نوجوان نتیش کا کہنا ہے کہ ماہانہ 10,000 روپے کمانے کے لیے دن میں 10 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ کئی بار کمرے کے کرایے، کھانے پینے اور دوائیوں پر اتنے پیسے خرچ ہو جاتے ہیں کہ مہینے کے آخر میں گھر بھیجنے کے قابل بھی نہیں ہوتا ہوں۔ کئی بار کسی اچھی کمپنی میں نوکری کے لیے سر پنچ سے طرز عمل سرٹیفکیٹ لینے کے چکر میں پیسے خرچ ہو جاتے ہیں۔ نتیش آٹھویں پاس ہیں، انہیں مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے، لیکن اپنے خاندان کی مالی حالت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنی پڑھائی چھوڑ کر ملازمت کے لیے باہر جانا مناسب سمجھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم پنچایت کی سطح پر رجسٹرڈ ہوتے یا ہمارا بیمہ کرایا جاتا تو یہ خاندان کے لیے اچھا ہوتا کیونکہ فیکٹری میں کام کرتے ہوئے کئی بار لوگ حادثاتی طور پر مر جاتے ہیں اور کمپنی خاندان والوں کو معاوضے کے نام پرچند روپے دے کراپنی کھانا پورتی کرلیتی ہے۔نتیش نے الزام لگایا کہ حکومت بے روزگاری الاؤنس دینے کو فروغ دیتی ہے لیکن آج تک گاؤں کے کسی نوجوان کو اس کا فائدہ نہیں مل سکا ہے۔بیداری کی کمی کی وجہ سے نوجوان یہ نہیں جانتے کہ اس سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے اور اس کے لیے کیا عمل ہے؟
روزگار کے لیے ہجرت کا درد نہ صرف کمانے کے لیے گھر چھوڑنے والوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے بلکہ ان کے اہل خانہ بھی اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ منفی اثر گھر کے بوڑھے والدین پر پڑتا ہے۔ جو بچوں کی نقل مکانی کی وجہ سے گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے 70 سالہ بندیشوری رجک اور ان کی 65 سالہ بیوی پیاری دیوی اپنے درد کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ روزگار کے سلسلے میں گجرات چلا گیا ہے۔ وہاں وہ کرائے کے ایک کمرے میں رہتا ہے۔ ایسے میں ہم بوڑھے میاں بیوی وہاں کیسے رہ سکتے ہیں؟ اس لیے ہم گاؤں میں اکیلے رہتے ہیں۔ پیاری دیوی کہتی ہیں کہ عمر کے اس مرحلے میں اب میں کھانا پکانے یا گھر کا کوئی اور کام کرنے کے قابل نہیں ہوں لیکن پھر بھی میں یہ کرنے پر مجبور ہوں۔ اگر بیٹے کو گاؤں یا گیا شہر ہی میں اچھی نوکری مل جاتی تو اسے ہمیں اکیلا چھوڑ کر نہ جانا پڑتا۔ مردوں کی نقل مکانی کی وجہ سے گھر سے باہر تک تمام ذمہ داریاں صرف خواتین کے کندھوں پر آ جاتی ہیں۔ اس حوالے سے گاؤں کی 45 سالہ خاتون ریشمی دیوی کا کہنا ہے کہ کھانا پکانے کے ساتھ ساتھ بچوں اور بوڑھے ساس سسر کی بھی پوری ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ اس سب کے درمیان ہمیں ثقافت اور رسم و رواج کی غلامی سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی عورت گھر سے باہر کام کرتی ہے تو اسے معاشرے کی طرف سے طعنوں اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سی خواتین بازار جانے کے بجائے کمیوں کے درمیان زندگی گزارنا بہتر سمجھتی ہیں۔
اس سلسلے میں گاؤں کے وارڈ نمبر۔ 8 کی پنچ شکنتلا دیوی کا کہنا ہے کہ ذات پات کے امتیاز کی وجہ سے گاؤں کے غریب لوگوں کو گھر میں رہتے ہوئے کام نہیں مل پاتا ہے اور وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وہ الزام لگاتی ہیں کہ اکثر متعلقہ افسران یا عوامی نمائندے اپنی ذات کے لوگوں یا اپنے قریبی لوگوں کو بے روزگاری الاؤنس یا روزگار کے فوائد فراہم کروا دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ضرورت مند محروم رہتے ہیں اور وہ نقل مکانی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ تاہم، نقل مکانی کو روکنے کے لیے بہار حکومت ادمی یوجنا (روزگار اسکیم)سمیت کئی دیگر اسکیمیں چلا رہی ہے۔ اس کا اثر بھی نظر آرہا ہے اور گزشتہ چند سالوں میں نقل مکانی کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا فائدہ اوچلا گاؤں کے درج فہرست ذات کے خاندانوں تک کیوں نہیں پہنچ رہا ہے؟ دراصل محض منصوبے بنا کر مسئلے کا حل ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔اس کے لئے گاؤں کی سطح پر ایسے میکانزم تیار کرنے کی ضرورت ہے جس سے اسکیموں کا فائدہ سماج کے آخری پائدان پر کھڑے لوگوں تک پہنچ سکے۔
(مضمون نگارگیا، بہارکی رہنی والی ہیں۔)